رام پنیانی
26 نومبر،2024
وہاٹس ایپ یونیورسٹی (یہ سوشل سائٹ اسی نام سے معروف ہے)، آج مفروضات کو تشکیل دینے کے منظر نامہ پر غالب ہے ۔ تاریخ دانوں نےچراغ نیم شب کی روشنی میں قلم کو سیاہی میں ڈبو ڈبو کر عقلی اورسائنسی بنیادوں پرجو تاریخ لکھی، اُسے آج غالب سیاسی رجحان رکھنے والوں کے ذریعے قابل اعتراض بناکرپیش کیاجارہا ہے اور اس طرح تاریخ دانوں کے مجموعی کام کو حاشیہ پررکھا جارہا ہے۔ پریشان کن یہ ہے کہ اس پلیٹ فارم سے جو سماجی مفروضہ تشکیل دیا جارہا ہے، وہ ان عناصر کے ہاتھوں میں ایک ہتھیار کی طرح ہے جن کا سیاسی ایجنڈا ہندوتوا یا ہندوقوم پرستی پر مبنی ہے۔
یہ نکتہ اس و قت منظر عام آیا جب ایک تاریخ داں ولیم ڈارلمپل نے ایک صحافی سے گفتگو کے دوران کہا کہ: ’’نتیجتاً ، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ’وہاٹس ایپ تاریخ ‘ اور ’وہاٹس ایپ یونیورسٹی‘ فروغ پا رہی ہے، یہ ہندوستان کے ماہرین تعلیم کی ناکامی ہے کہ وہ عوام تک پہنچ نہیں سکے۔‘‘ (انڈین ایکسپریس ، ۱۱؍ نومبر۲۰۲۴ء)۔
ولیم ڈارلمپل کے مطابق موجودہ غلط سماجی تصورات کا ماخذ یہ مفروضہ ہےکہ آریائی اس سرزمین کے اصل باشندے تھے، `’ہمارے ‘ پاس تمام سائنسی علوم تھے اورپشپک وِمان (ہوائی جہاز)، پلاسٹک سرجری، جینیاتی انجینئرنگ ہماری دسترس میں تھے، آپ کے پاس کیا ہے؟ یہ مفروضہ بھی ’عام سماجی فہم ‘ کا ذریعہ بنا کہ اسلام اور عیسائیت ’غیر ملکی‘ مذاہب ہیں ، مسلمان بادشاہوں نے ہندو مندروں کو تباہ کیا اور ہندوؤں پر بے پناہ مظالم ڈھائے اور اسلام کو طاقت یا تلوارکے زور پر پھیلا یا ۔ مفروضات کی اس فہرست میں یہ بھی شامل ہےکہ گاندھی ہندو مخالف تھے ۔ گاندھی کی قیادت میں شروع ہونے والی قومی تحریک کی وجہ سے ہندوستان کو آزادی نہیں ملی۔ یہ غلط فہمیاں معاشرے کی اکثریت کے ذہنوں پر راج کر رہی ہیں ۔
اس بیانیے کو فی الحال اس میڈیم کے ذریعے اجاگر کیا جا رہا ہے لیکن یہ بیانیہ( اب سے پہلے تک) مخصوص طورپر ہندوتوا کا سیاسی رجحان رکھنے والوں کے ہی ذہن میں تھاجس کی نمائندگی بنیادی طور پر آر ایس ایس کرتاآیا ہے اور بعد میں اسی کی ذیلی تنظیموں نے اس کی حمایت کی ۔ تحریک آزادی کے دوران جو غالب بیانیہ فروغ پا رہا تھا وہ قومی تحریک کا بیانیہ تھا ا ورجامع تھا ۔ اس کے ذریعے یہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ ہندوستان ابھی ملک و قوم بننے کی راہ پر ہے۔ یہ اس وقت کے ہندو قوم پرستوں کے رجحان و نظریے کے خلاف تھا جن کا ماننا تھا کہ ہندو ایک قدیم قوم ہے۔ مسلمانوں کا خیال تھا کہ(ہندوستان میں ) مسلم ملت کا آغاز آٹھویں صدی میں اس وقت ہوا تھا جب سندھ پر محمد بن قاسم کی حکومت قائم ہوئی تھی۔ فرقہ وارانہ تاریخ نگاری کی جڑیں برطانوی مشہور کتابوں جیسے جیمس مل (ہندوستان کی تاریخ) میں پیوست ہیں جنہوں نے ہندوستانی تاریخ کو ہندو دور، مسلم دور اور برطانوی دور میں تقسیم کیا۔
انہی خطوط پر ایلیٹ اور ڈاسن کی کئی جلدوں پر مشتمل ایک کتاب ، `’ہسٹری آف انڈیا ایز ٹولڈ بائے ہر ہسٹورینس‘ تھی ۔ ان دونوں کتابوں میں یہ تصور پیش کیا گیا ہے کہ بادشاہ اپنے مذہب کے نمائندے ہوتے ہیں ۔ ہندو فرقہ وارانہ تاریخ نگاری نے اپنے سفر کا آغاز آر ایس ایس کی شاکھاؤ ں کے دانشوروں سے کیا ۔ بعد میں سرسوتی شیشو مندروں ، ایکل ودیالیوں ، ان کے غیر سرکاری ترجمانوں ، آرگنائزر، پنج جنیہ وغیر ہ میں بھی اسی نظریے یعنی ہندوفرقہ واریت کی ترویج واشاعت جاری رکھی گئی ۔
جنتا پارٹی کی حکومت میں لال کرشن اڈوانی کے اطلاعات و نشریات کے وزیر بننے کے بعد حکومتی سطح پر اور حکومتی میکانزم کے ذریعے اس بیانیے کو منظم ومستحکم کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں ۔ پہلے سے ہی ایسے اشارے مل رہےتھے کہ آر ایس ایس کے رضاکار مکمل تعلیمی نظام اور تاریخ، سوشل سائنس اور دیگر کتابوں کے مواد کو تبدیل کرنے کیلئے تیار ہیں ۔ پہلے ہی آر ایس ایس سے منسلک شکشا بچاؤ ابھیان سمیتی (سیو ایجوکیشن کمپین کمیٹی) کے دینا ناتھ بترا کی تصنیف کردہ ۹؍ کتابوں کا ایک سیٹ، گجراتی میں ترجمہ کر کے گجرات کے ۴۲؍ ہزار ا سکولوں میں متعارف کرایا جا چکا ہے ۔ بی جے پی کے کارپوریٹ ساتھیوں (اڈانی، امبانی) کے میڈیا پر مکمل قبضے نے میڈیا کے ایک بڑے حصے کوبی جے پی کی گود میں لاکربٹھا دیا ہے۔ بی جے پی کے اپنے آئی ٹی سیل کو مضبوط کرنے کے ساتھ، وہاٹس ایپ اس بیانیے کی تشہیر کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا ہے ۔ اس کا بہترین تجزیہ سواتی چترویدی کی کتاب ’آئی واز اے ٹرول‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
مورخین نے اسکولوں کی نصابی کتابوں اور عام قارئین کیلئے بھی لکھا ہے۔رومیلا تھاپر کی کتابوں میں سب سے زیادہ مقبول وہ کتاب ہے جو قدیم ہندوستانی تاریخ سے متعلق ہے۔ عرفان حبیب نے قرون وسطیٰ کی تاریخ میں اہم کام کیا ہے اور بپن چندرا کی ’ہندوستان کی جدوجہد آزادی‘ کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔ ان میں سے بہت سے مورخین کی کتابیں ۱۹۸۰ء کی دہائی میں این سی ای آرٹی کے نصاب کا حصہ تھیں ۔۱۹۹۸ء میں بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی انہوں نے `تعلیم کا’ بھگوا کرن‘ شروع کردیا تھا جس میں ۲۰۱۴ء میں بی جے پی کے مکمل اکثریت میں آنے کے بعد تیزی آئی ۔ اب اس نیم تاریخ اوردیومالائی کہانیوں کو پوری طرح بطور تاریخ متعارف کرانے کی بات ہو رہی ہے۔
تعلیمی مورخین کے ذریعے صرف جزوی طور پرعام تاثرات تشکیل پاتے ہیں جبکہ وہ سیاسی رجحانات جو ملک کے حکمراں طبقے کے ذریعے فروغ دئیے جاتے ہیں ، ان سے معاشرے کا ایک بڑا حلقہ متاثر ہوتا ہے۔ماہر لسانیات اور حقوق انسانی کارکن نوم چومسکی نے’ اتفاق رائے کی تعمیر‘ کاتصور پیش کیاگیاتھا ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ یہ حکومتیں ہوتی ہیں جو اس طرح کا فہم عامہ تشکیل دیتی ہیں کہ ویت نام یا عراق پر حملے کرنا او رایسی ہی دیگر پالیسیاں سماج کے مفاد میں ہیں ۔مورخین کےغیر معمولی کام کے باوجود سچ کہیں دبا رہتا ہے اور حکومت نیز غالب سیاسی رجحان اکثریتی عوامی ذہن کو (اپنے مفروضوں سے) متاثر کرتے رہتے ہیں ۔
ڈارلمپل کی یہ تشویش قابل ستائش ہےکہ وہاٹس ایپ غیر عقلی رویے کو فروغ دے رہا ہےلیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ دائیں بازو کی سیاست بڑے شاطر طریقے سے اپنے بازو پھیلاتی جارہی ہے۔ ایسے میں وہ تاریخ داں اورمورخ جو نئے سرے سے سائنسی اور عقلی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے اورہندوستانی قومیت کو ذہن میں رکھتے ہوئےفہم عامہ تشکیل دینے کی شروعات کریں تو یہ بڑا کام ہوگا اور ہم ان کے شکرگزار ہوں گے۔
26 نومبر،2024،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
--------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/attemp-marginalize-work-historians/d/133835
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism