Although presented in the usual xenophobic and sectarian style of the Urdu Press, the following article tells us how much Mahatma Gandhi and other Indian luminaries respected Maulana Mohammad Ali’s beautiful translation of the Holy Quran, even though any write-up by an Ahmadi scholar is anathema to our illiterate ulema (religious scholars) who are incapable of appreciating anything worthwhile beyond their microscopic vision. Incidentally, Maulana Mohammad Ali is also famous for his excellent exposition of the tenets of our religion in his book “The Religion of Islam”. This book is far more relevant in our times than it was even when it was written. Maulana Mohammad Ali was a contemporary of Mirza Ghulam Ahmad and considered him a Mujaddid (renewer) of Islam rather than a non-law-bearing prophet as many Ahmadis do. But our so-called ulema do not have the ability to recognize even that distinction. Any appreciation for Mirza Ghulam Ahmad’s brilliant exposition of Islamic tenets is considered blasphemy. New Age Islam posts articles of different points of view for free debate and discussion. In principle, no article should be taken as an endorsement of a point of view. -- Editor
---
By Athar Siddiquee
New Delhi: Gandhiji was the greatest political leader and revolutionary.
“I was given to understand by an official of the Rajya Sabha just yesterday that during my term of office as the Chairman of the Rajya Sabha, he called for the official in his chamber twice and asked him that he should get for him a translation of Koran in English written by Muhammad Ali Ahmadi.
URL of English Translation: http://www.newageislam.com/islam-and-sectarianism/was-mahatma-gandhi-inclined-towards-ahmadism?-/d/5240
URL: https://newageislam.com/urdu-section/mahatma-gandhi-inclined-towards-ahmadism/d/5228
اطہر صدیقی
کیا گاندھی جی کاذہنی جھکاؤ
قادیانیت کی طرف تھا؟
نئی دہلی: گاندھی جی گذشتہ
صدی کے عظیم سیاسی رہنما اور انقلابی انسان تھے۔ان کی شخصیت میں وہ سکوت تھا جو چاندنی
راتوں میں معبدوں پر طاری رہتا ہے۔ وہ پارس کی خوبی لے کر پیدا ہوئے تھے جسے چھودیا
اسے کندن بنادیا ۔ وہ آفاقی نظریہ کے قائل تھے۔ انسان کا انسانیت کے ناطے احترام کرتے
تھے ۔ یہی چیز ان کے تاریخی کردار کا جوہر تھی۔ تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے قریب رکھتے
ہوئے ان کے افکار کا مطالعہ کرتے تھے اور تمام دینی کتابوں کو اپنی زندگی کے قریب رکھتے
تھے ۔ ان کی روز مرہ کی زندگی میں ہر روز صبح کو گیتا ، بائبل اور قرا. کا مطالعہ شامل
تھا۔ وہ ہر روز صبح کو محمد علی احمدی کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہوا قرآن پڑھتے تھے
۔ یہ بات تحقیق طلب ہے کہ محمد علی احمدی کا قرآن پڑھنے کے لئے انہیں کس نے مشورہ دیا
تھا۔ کیونکہ محمد علی احمدی و ہ شخص تھا جو برّ صغیر میں قادیانیت کا سب سے بڑا علمبراد
تھا جس نے اپنی انگریزی کی زہری تحریروں کے ذریعہ قادیانیت کو زبردست فروغ دیا ۔ باوجود
یہ کہ 1930میں محمد مارمیڈ یوپکتھال اور 1934میں عبداللہ یوسف ، 1941میں مولانا عبدالماجد
دریا بادی کے انگریزی ترجمے منصٔہ شہود پر آچکے تھے لیکن گاندھی جی صرف اور صرف محمد
علی احمدی کا ترجمہ کیا ہوا قرآن ہی پڑھتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ محمد علی احمدی
کے انگریزی قرآن کو زبر دست تشہیر ملی۔
دوسرے سیاسی رہنما جو گاندھی جی
سے قریب تھے وہ بھی محمد علی احمدی کا قرآن پڑھنے لگے۔اس طرح یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔13مئی
1962کو جب سروپلی رادھا کرشنن ، راجن بابو کے بعد ہندوستان کے دوسرے صدر جمہوریہ بنے
اس وقت ہم پارلیمنٹ ہاؤس کی ملازمت میں داخل ہوچکے تھے ۔ ایک فنکشن میں راشٹر پتی کے
پریس سکریٹری مسٹر عبدالحمید سے ہماری ملاقات ہوئی جو بعد میں قربت میں بدل گئی ۔(ریٹائر
ہونے کے بعد عبدالحمید صاحب یوپی ایس سی کے ممبر بنے لیکن اس پورے عرصہ میں ایک دن
بھی ایسا نہیں آیا کہ ہماری اور ان کی ملاقات نہ ہوئی ہو۔)جن دنوں وہ صدر جمہوریہ کے
پریس سکریٹری تھے ان دنوں ایک دوپہر کے وقت ان کا فون آیا کہ صدیقی صاحب راشٹر پتی
بھون کی گاڑی پارلیامنٹ ہاؤس آرہی ہے آپ اس میں بیٹھ کر راشٹر پتی بھون آجائیے ۔ چنانچہ
ہم وہاں پہنچے اور عبدالحمید صاحب سے ملے، وہ ہمیں لے کر صدر جمہوریہ ڈاکٹر رادھا کرشنن
کے کمرے میں لے گئے ہم نے دیکھا کہ صدر جمہوریہ اپنے کسی کام میں مصروف تھے ۔ تھوڑے
توقف کے بعد عبدالحمید صاحب نے ہمارا ان سے تعارف کرایا ۔ ہمیں دیکھ کر رادھا کرشنن
جی نے فرمایا ’’ ہمیں آپ محمد علی احمدی کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہوا قرآن منگوا دیجئے
کیونکہ ہمارے پاس جو قرآن ہے وہ بوسیدہ ہوگیا ہے‘‘ ہم سر تعظیم جھکا کر ان کے کمرے
سے باہر آگئے ہمیں اس وقت تک یہ بھی معلوم نہیں کہ آخر محمد علی احمدی کے قرآن شریف
میں ایسی کیا بات ہے کہ ہندوستان کے صدر نے ہم جیسے معمولی انسان کو اس کے منگوانے
کے لیے طلب کیا۔ ہم نے اس بارے بہت سوچا توخیال آیا کہ گلی قاسم جان میں مولانا محمد
میاں صاحب سابق ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند کے صاحبزادے خالد میاں مرحوم گلی قاسم جان
میں نواب ولی مسجد کے بالائی گوشہ میں کتابستان کے نام سے ایک کتب خانہ چلاتے تھے۔
ہم اسی شام خالد میاں مرحوم سے ملے اور انہیں تفصیل بتائی۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ
یہ قرآن ہندوستان میں کہیں فراہم نہیں ہوسکے گا صرف پاکستان میں لاہور سے ملے گا۔ انہوں
نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے بڑے بھائی مولانا حامد میاں کو لکھ دیں
گے۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/mahatma-gandhi-inclined-towards-ahmadism/d/5228