New Age Islam
Sat Jul 19 2025, 08:04 PM

Urdu Section ( 21 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Assad's Defeat in Damascus is Welcome, But Who Really Won? شام میں بشارالاسد کی شکست فاش خوش آئند مگر جیت کس کی ہوئی

عاصم جلال

15دسمبر،2024

شام میں بشارالاسد کا سور ج بالآخر غروب ہوگیا۔عوام ظالمانہ آمریت اور اسد حکومت کے وحشیانہ جبر سے آزاد ہوچکے ہیں۔ بہار عرب کے وقت 2011 میں شروع ہونے والی مسلح جدوجہد کا جو کامیابی 13سال میں نہیں حاصل کرسکی،وہ کامیابی بجلی کی سی سرعت کے ساتھ ابومحمد الجولانی کی قیادت میں حیات التحریر الشام نے محض 11دنوں میں حاصل کرلی۔2017 میں شام کی کئی جنگجو تنظیموں کے اتحاد کی شکل میں قائم ہونے والی ”حیات التحریر الشام“ کامقصد بشارالاسد حکومت کے خلاف متحد ہوکر لڑناتھا۔اپنے قیام کے 7سال بعد تک وہ کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکی مگر ابو محمد الجولانی کی قیادت میں 27نومبر کو اچانک اس نے پیش قدمی شروع کی، چند دنوں میں حلب، ادلب،حماۃ اور دیگر بڑے شہروں پر قبضہ کرتے ہوئے آگے بڑھی اور 8دسمبر کو دمشق میں داخل ہوگئی۔

یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بلکہ بڑی حد تک یہ پُراسرار بھی معلوم ہوتاہے کہ شامی فوجیں اپوزیشن فورسیز کی اس پیش قدمی کوروکنے میں اس طرح ناکام رہیں کہ اکثر شہر وں میں مقابلہ جرأت بھی نہیں کرسکیں اور پیچھے ہٹتی چلی گئیں۔سنیچر (7دسمبر) کی رات ہی یہ خبر آنے لگی تھی کہ اپوزیشن فورسیز دمشق کے دروازے پر پہنچ چکی ہیں۔اتوار کی صبح معلوم ہواکہ بشارالاسد آناً فاناً ملک چھوڑ کر فرار ہوگئے اور 1971 میں ان کے والد حافظ الاسد نے شام پر اسد خاندان کی جو حکمرانی قائم کی تھی، 54 سال بعد اس کا سورج اچانک غروب ہوگیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بشارالاسد کی اقتدار سے بے دخلی اہل شام کے لئے راحت کا پیغام ہے مگر مشرق وسطیٰ کی صورتحال جس قدر پیچیدہ ہے اس کو دیکھتے ہوئے ابھی یہ نہیں کہاجاسکتا کہ جسے شام کے لئے نئی صبح قراردیا جارہا ہے وہ پورے خطے کے لئے بھی امن کاپیغام ہے۔اس کے علاوہ بہار عرب کے وقت کئی عرب ممالک میں حکمرانوں کے خلاف شروع ہونے والی عوامی جدوجہد کے جو نتیجے برآمد ہوئے، انہیں دیکھ کر یہ خیال بھی ذہن میں کسی گوشے میں رہ رہ کر کوندتا ہے کہ شام کے لوگوں کے لئے بھی یہ آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکنے جیسی صورتحال نہ ہو۔ ہمارے سامنے تیونس،لیبیا اور مصر کی مثالیں موجود ہیں۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ شام کے نئے حکمرانوں کے نام اس سے قبل القاعدہ اور داعش سے جڑے رہ چکے ہیں۔ گروہ کے قائد ابومحمد الجولانی دہشت گردی کے الزامات میں 5سال امریکہ کی قید میں رہ چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے گزشتہ کچھ برسوں میں خود اپنی او ر اپنے گروپ کی شبیہ کو اعتدال پسند بناکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کااظہار دمشق پر قبضہ کے بعد بھی کیا گیا جب شامی فوج میں مجبوراً خدمات انجام دینے والوں کیلئے عام معافی کااعلان کیا گیا، شخصی آزادی کی یقین دہانی کرائی گئی اور یہ واضح کیا گیا کہ خواتین کے لباس کے تعلق سے کسی طرح کا جبر نہیں کیا جائے گا۔

شام 13 سال تک خانہ جنگی کاشکار رہا۔ بشارالاسد نے روس اور ایران کی مدد حاصل کرکے آہنی پنجوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنے خلاف بغاوت کو 13 برسوں تک پوری طرح کامیاب تو نہیں ہونے دیا مگر اس بیچ ملک کے کئی حصوں میں تقسیم ہوگیا۔جس وقت اپوزیشن فورسیز نے شام کی باگ ڈور سنبھالی ہے، اس وقت اسد حکومت کے کنٹرول میں صرف 63 فیصد شام تھا، ملک کی 26فیصد زمین پر کردباغی جنگجوؤں کی ”سرین آرمی“ کا قبضہ ہے۔ ”سیرین ڈیموکریٹک فورسیز“ ترکی کے لئے درد سر ہے، کیونکہ شام میں کردوں کے مضبوط ہونے کی صورت میں ترکی کے ان سرحدی علاقوں میں مسائل پیداہوسکتے ہیں جو کردوں کی اکثریت و الے ہیں اہم بات یہ ہے کہ اسے (”سیرین ڈیموکریٹک فورسیز“کو) امریکہ کی تائید حاصل ہے دوسری طر ف ترکی ”فری سیرین آرمی“ کی حمایت کرتاہے جو شام کے 11فیصد حصے پر قابض ہے۔ اس پس منظر میں نئے حکمرانوں کے سامنے چیلنجز ہیں۔

ان ساری باتوں کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ اپوزیشن فورسیز جو جنگ 13 برسوں میں نہیں جیت سکیں وہ جنگ 11 دنوں میں کیسے جیت لی گئی اور یہ کہ خطے پر اس کے کیااثر ات مرتب ہوں گے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بشارالاسد کا اچانک زوال خطے میں ہنگامہ خیزی اور عدم استحکام کو بڑھاوادینے کا باعث بنے گا۔ بشارالاسد حکومت کی فوجوں کی پسپائی کی ایک وجہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ اپوزیشن فورسیز نے ایسے وقت میں پیش رفت شروع کی جب شامی فوجوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ لڑنے والے حزب اللہ کے جنگجو اسرائیل کے خلاف اپنی جنگ کے بعد نڈھال ہیں، روس یوکرین میں مصروف ہے او ر ایران موجودہ حالات میں نیا محاذ کھول کر اسرائیل کو اپنے مفادات پر تازہ حملوں کا جواز نہیں فراہم کرناچاہتا تھا۔

عالمی اور مشرق وسطیٰ کے پس منظر میں دیکھیں تو شام میں بشارالاسد کے اقتدار کا خاتمہ روس کی کمزوری کو ظاہر کرتاہے کہ وہ اپنے ایک اتحادی کوبچانہیں سکا اور اب شام سے اسے اپنی فوجوں کو واپس بلانا پڑسکتا ہے۔ یعنی مشرق وسطیٰ میں وہ ایک اہم ٹھکانے سے محروم ہوگیا ہے۔ وہیں اس کی وجہ سے خطے میں ایران کی پکڑ بھی کمزور ہوگی۔ اس طرح فوری طور پر یہ جہاں امریکہ اور اسرائیل کے لئے فائدہ مند ہے تو وہیں سعودی عرب کے لئے بھی اطمینان کا باعث ہے جو مشرق وسطیٰ پر ایران کے اثر ورسوخ او راس کی بالادستی سے تنگ تھا۔ حز ب اللہ کے لئے شام میں اقتدار کی تبدیلی ا س لئے فکر مندی کا باعث ہے کہ اس کے لئے ایران سے آنے والی کمک کا ایک بڑا بّری راستہ بند ہوجائے گا۔ اس کانقصان فلسطین میں سرگرم ان جنگجوؤں کو بھی اٹھانا پڑسکتا ہے جو ایران سے ملنے والی فوجی امداد پر بڑی حد تک انحصار کرتے ہیں۔

اس لحاظ سے شام کے نئے حکمرانوں کے کاندھوں پر غیر معمولی ذمہ داری ہے۔ ایک طرف جہاں انہیں شام کو مجتمع کرنا اور عوام کا اعتماد جیتنا ہے وہیں اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ اقتدار میں تبدیلی کا فائدہ امریکہ کی پشت پناہی کے ساتھ اسرائیل نہ اٹھا سکے۔ یہ اس لئے بھی کہا جارہاہے کہ اسرائیل نے شام پر حیات التحریر کا قبضہ ہوتے ہی اس کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کردیا تھا جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ شام کا اسلحہ، بحری بیڑہ اور فضائی دفاع کا نظام تباہ کردیا گیا ہے۔ خود اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے شام کی 80 فیصد فوجی طاقت ختم کردی ہے۔ اسرائیل کے یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے جب نئے حکمراں اس کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ اس کے بعد د اسرائیلی میڈیا میں آنے والی یہ خبریں تشویشناک ہیں کہ تل ابیب شام کے فضائی دفاع کے نظام کو ناکارہ بنادینے کے بعد شام اور عراق کی فضائی حدود کا استعمال کرتے ہوئے ایران کو نیوکلیائی تنصیبات پر حملے کی تیاری کررہا ہے۔ اس لحاظ سے شام میں آنے والی تبدیلی جہاں اہل شام کے لئے خوش آئند اور جبر واستبداد سے آزادی کا پروانہ ہے وہیں پورے خطے کے لئے اس نے غیر یقینی صورتحال کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کے شام کے نئے حکمراں اپنی کامیابی کو شعوری یا لاشعوری طور پر امریکہ و اسرائیل کے لئے فائدہ مند بننے سے کس طرح روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔

15 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/assad-damascus-welcome-really-won/d/134093

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..