آصف مرچنٹ، نیو ایج اسلام
27 جون 2013
( انگریزی سے ترجمہ۔ نیو ایج اسلام)
نیو ایج اسلام میں ایک حالیہ مضمون پر تبصرے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ مضمون شب براءت پر تھا بدعت کی بنیاد پر جس کے منانے کی وہابیوں کے ذریعہ مخالفت کی جاتی ہے ۔
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ وہابی اس بات سے بے خبر لگتے ہیں کہ ان کے اکثر نظریات کو بھی بدعت قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر حدیث پر مبنی ہے جو کہ اسلام کے قیام کے 200 سال سے زیادہ کے بعد سامنے آیا ۔ بلا شبہ یہ اسلامی تاریخ میں سب سے زیادہ بااثر بدعت ہے۔
وہابیوں کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ وہ اسلام کو مکمل طور پر جنت کا ایک راستہ ہی سمجھتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ ایسے لوگوں کی تشکیل ہے جو جنت میں جانے کے حقدار نہیں ہیں ۔ یہ بنیادی طور پر اس تصور کا باعث ہے کہ ہم نیک ہیں اور جنت میں جائیں گے، اور ہمارے ،مخالفین برے ہیں اور جہنم میں جائیں گے۔ شاید اس نقطہ نظر کا اگلا قدم وجوب القتل کا تصور ہے۔
یہ جانتے ہوئے کہ قرآن نے واضح طور پر یہ بیان کیا ہے کہ اس قسم کا فیصلہ صرف خدا کے ذریعہ لیا جائے گا، (یقینی طور پر وہابیوں کا کوئی پینل نہیں )، کیا یہ بدعت نہیں ہے ؟
اس کی تفصیل میں جانے کے لئے ہمیں 'اسلام کی روح' اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے بارے میں سوچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہر کوئی اس سے اتفاق کرتا ہے کہ اسلام کا موقف امن ہے ۔ ایسے ذہن کے لوگوں کے درمیان امن کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ یکسر مختلف نقطہ ہائے نظر کے لوگوں کے درمیان یہ ایک مسئلہ ہے کہ پرامن طریقہ اہمیت کا حامل ہے ۔ ان خطوط پر سوچ کر انسان 'اسلام کی روح' کی ایک جھلک حاصل کرتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کا موقف امن ہے ۔ بنیادی طور پر یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن تھا۔ مجھے یہ یقین ہے کہ مذہب کے بارے میں ان کا نقطہ نظر پوری دنیا کومہذب کرنے کے لئے ایک تحریک تھی ۔ جہاں بہت سارے لوگ مختلف نقطہ نظر کے ساتھ پر امن طریقے سے رہنے کے قابل ہوں گے ۔
اسے اس نقطہ نظر سے دیکھنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قرآن پاک کی رہنمائی کا بنیادی فریم ورک ایک مہذب زندگی ہے ۔ عملی طور پر، فطرتاً مختلف حالات کی بنیاد پر مختلف تشریحات ہوں گی جن کا مصدر ایک ہی بنیادی فریم ورک قرآن ہو گا ۔
ایسا ہونے کے لئے جدت طرازی، یا بدعت بالکل ضروری ہے۔ ایک ثقافت کو پوری دنیا کے لئے زندہ رہنے کے قواعد مقرر کرنا ناممکن ہے۔ اس سمت میں ہر کوشش دنیا کے حکمرانوں کے چہرے پر مار دی گئی ہے۔ اگر ہم امن میں رہنا چاہتے ہیں تو اختلافات کا احترام کرنا پڑے گا۔ بدعت انسانی ترقی کے لئے ایک لازمی ضرورت ہے۔ اس پر پابندیاں عائد کرنا شاید ہماری موجودہ پسماندگی کی ایک وجہ ہے۔
قرآن مجید ایک زندہ کتاب ہے، اور تمام زندہ موجودات کی طرح یہ بھی مسلسل تبدیلی سے گزر رہا ہے۔ اگر تبدیلی رک جاتی ہے تو یہ اس کی موت ہو گی اور وہ خس و خاشاک ہو جا ئے گا اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا ۔ بیشک ہم قرآن کا ایسا مستقبل نہیں چاہتے؟
وہ تمام مواقع جب لوگ ایک دووسرے کے قریب آتے ہیں، خواہ وہ تقریبات کا موقع ہو یا جنازہ کا، تعلقات مضبوط کرنے کے لئے مواقع ہیں۔ یہ تعلقات کو فروغ دینے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے مفید مواقع ہیں۔ ان کا اثر انسانیت کا پیغام ہے مذہب یا ثقافت سے قطع نظر ان مواقع کو سراہا جانا چاہئے ۔ یہ اسلام میں ممنوع نہیں ہے۔ مسلمانوں کو دوسروں کے سکھ اور دکھ میں شریک ہونا چاہیے۔ ہم سب کو راکھی پورنما، شرد پورنما، بدھ پورنما، کرسمس، نیا سال، بیساکھی اور پتیتی ، وغیرہ جیسے تہواروں میں شرکت کرنی چاہئے ۔ ہم رب العالمین – تمام کائنات کا پالن ہار، کے طور پر خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں، رب پر ہماری کوئی اجارہ داری نہیں ہے۔ ہمیں اسے تمام کا خدا ماننا ہو گا ۔
جیسا کہ اس گیت میں ہے:
‘‘جیوت سے جیوت جلاتے چلو
پریم کی گنگا بہاتے چلو ’’
URL for English article:
https://newageislam.com/ijtihad-rethinking-islam/how-bida’ah-be-un-islamic/d/12320
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/how-bida’ah-(innovation)-be-un/d/12535