آصف ڈار
18 نومبر، 2013
برطانیہ میں بالآخر برقع پر پابندی کے حوالے سے بحث کا آغاز ہوہی گیا ہے اور اب تک کئی برطانوی وزراء کے ساتھ ساتھ برطانوی میڈیا کےبعض حلقے بھی برقع پر پابندی کا مطالبہ کرچکے ہیں ۔ برقع پر پابندی کی یہ بحث کئی مرتبہ شروع ہوئی اور پھر ختم ہوگئی ۔ فرانس اور بیلجیم میں عوامی اجتماعات کے مقام پربرقع پہننے پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد بھی برطانیہ میں وقتی طور پر اس بحث کا آغاز ہوا تھا مگر برطانوی روایات کے پیش نظر یہ بحث ختم ہوگئی۔ پھر اس ملک میں کئی ایسے واقعات ہوئے جن کی وجہ سے مسلمان مین سٹریم میڈیا میں موضوع بحث بنتے رہے ہیں ۔ ان میں برمنگھم کے ایک کالج میں مسلمان اسٹوڈنٹس کی جانب سے کالج کے اندر برقع پہن کر گھومنے کے قواعد پر احتجاج اور اس احتجاج کے بعد کالج انتظامیہ کا جھک جانا ۔ اور اب چند روز قبل ایک مشتبہ دہشت گرد کا مسجد کے اندر سے برقع پہن کر فرار ہوجانے کے واقعات میں جب برقع پر پابندی لگائی گئی تو اسٹوڈنٹس نے اس شہری آزادیوں کے خلاف قرار دیا جب کہ انسانی اور شہری حقوق کی تنظیموں نے بھی اس کی مخالفت کی ۔
مگر دوسری طرف ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے بعض ارکان پارلیمنٹ نے مطالبہ کر دیا کہ اس معاملے پر بحث ہونی چاہیے کہ آیا برطانوی معاشرے میں برقع پہننے کی گنجائش موجود ہے یا نہیں۔ برطانوی مسلمان اور انسانی و شہری حقوق کے علمبردار اس کو انفرادی معاملہ قرار دیتے ہوئے یہ دلیل دیتے ہیں کہ مذہبی و کلچرل اقدار پر پابندی لگانا برطانوی معاشرے کی اقدار کے منافی ہوگا کہ کیونکہ اس معاشرے میں ہر کسی کو اپنے مذہبی و ثقافتی اقدار و عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی ضمانت دی گئی ہے ۔ یہی وجہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون او رڈپٹی وزیر اعظم نک کلیگ سمیت حکومت کے دوسرے اعلیٰ عہدیداروں نے بھی برقع پابندی کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے۔ البتہ مشتبہ دہشت گرد محمد احمد محمد کے مسجد سے برقع میں فرار ہونے کے بعد یہ معاملہ برطانوی پارلیمنٹ کے اندر بھی پہنچ گیا ہے اور برقع کی مخالفت میں زیادہ دلائل سامنے آنے لگے ہیں ۔ شاید ہی کوئی ایسا برطانوی اخبار ہو جس نے اس بارے میں رائے زنی نہ کی ہو۔
اگر چہ اب بھی لوگوں کی اکثریت اس بات کے حق میں ہے کہ برقع پر پابندی نہیں لگنی چاہیے مگر معاشرے کا ایک بڑا حصہ برقع پر پابندی کامطالبہ بھی کررہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ برقع برطانوی اقدار کے ساتھ چل نہیں سکتا ۔ اگر برطانیہ میں مسلمانوں کے ماضی قریب پر نظر دوڑائی جائے تو اندازہ ہوگا کہ اس ملک میں پندرہ بیس برس قبل شاید ہی کوئی ایسی عورت ہوگئی جو برقع پہنتی ہوگی۔ اگر چہ اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مسلمان لڑکیو ں کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق لباس پہننے کی اجازت تھی تا ہم اس رعایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لڑکیوں اور عورتوں نے برقع پہننے کو ترجیح نہیں دی۔ البتہ 9/11 کے بعد شاید مغرب میں رہنے والے بعض مسلمانوں کو اسامہ بن لادین کی صورت میں ایک ہیرو مل گیا اور انہوں نے مغرب کے ساتھ اپنی ‘‘پرانی دشمنی’’ کی بنیادوں پر لادن اور ان کے ساتھیوں کے اقدامات کو گلور یفائی کرنا شروع کردیا۔ اب یہ عالم ہے کہ دیکھا دیکھی برطانوی مسلم خواتین کی ایک بڑی تعداد نے برقع پہننا شروع کردیا ہے۔
ان کی اکثریت کو ہو سکتا ہے کہ یہ علم بھی نہ ہو کہ برقع پہننا مذہبی فریضہ ہے یا پھر اس کا تعلق کلچر کے ساتھ ہے۔ ابھی تین روز قبل اسی موضوع پر جنگ فورم میں ہونے والی بحث کے دوران علما ء دانشوروں اور کمیونٹی شخصیات نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ برطانیہ کی مسلمان خواتین کو انتہا پسندی کامظاہر نہ کرتے ہوئے ہسپتالوں ، اسکولوں، ائر پورٹس اور عدالتوں وغیرہ میں برقع اتار دینا چاہیے ۔ خصوصاً سیکورٹی اور طبی معا ملات پر تو انہیں ذرابرابر بھی لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہیے ۔ تاہم اس بات پر اختلاف رائے ضرور تھا کہ برقع پر پابندی کا قانون بننا چاہیے یا نہیں ؟ بعض شرکاء نے اس غلامی کی علامت سے تعبیر کیا تو بعض نے ایسے مذہبی فریضہ قرار دیا۔ جب کہ بعض کا کہنا تھا کہ برقع کو خواتین کی اپنی چوائس پر چھوڑ دیا جاناچاہیے ۔ فورم میں بعض برقع پوش خواتین نے بھی اظہار خیال کیا جن کا کہنا تھا کہ انہیں برقع پہن کر کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اس معاشرے کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ یہاں پر ہر کسی کو اپنی مرضی سے جینے او رکام کرنے کا حق حاصل ہے ۔ تاہم 9/11 کے بعد سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں چند ممالک نے برقع پر پابندی عائد کردی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انداز دہشت گردی کے قواعد کو بھی سخت کردیا گیا ہے۔
یہ سب کچھ مغربی ممالک میں ہونے والے بعض واقعات کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ اگر برطانیہ میں برقع کے حوالے سے مزید واقعات رونما ہوتے ہیں تو یقیناً یہ بحث بہت زیادہ آگے نکل جائے گی اور ا س ملک میں بھی برقع کو عورتوں کے استحصال کی علامت قرار دے کر اس پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے ۔ اگر برقع پر پابندی لگتی ہے تو اس میں بھی ان انتہا پسند مسلمانوں کاہاتھ ہوگا جو اس ملک کے اندر ہتے ہوئے یہاں کے ہیروز کی توہین کرتے ہیں اور پوسٹر تک کو نذر آتش کردیتے ہیں ۔ اس قسم کے واقعات سے جہاں ای ڈی ایل جیسی تنظیمیں پیدا ہوئی ہیں وہاں اسلامی اقدار کے خلاف کام کرنے والوں کو بھی آگے آنے کاموقع ملتا ہے ۔ اگر بعض انتہا پسند مسلمانوں نے برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک کے خلاف اپنا معاندانہ رویہ برقرار رکھا تو یہ ممالک اس روئیے کو سارے مسلمانوں کا رویہ تصور کر کے ان کے خلاف مزید پابندیاں لگانے پر غور کرسکتے ہیں ۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ برطانیہ اور مغربی ممالک کے اعتدال پسند مسلمان سامنے آئیں او رمٹھی بھر انتہا پسندوں کے ایجنڈے کو کامیاب نہ ہونے دیں ۔ اس وقت مغربی میڈیا اور کسی حد تک بڑے ایوانوں میں بھی انجم چوہدری ، عمر بیکری اور ابو حمزہ جیسے لوگوں کو مسلمانوں کے نمائندے تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے وقت میں کسی بڑے اعتدال پسند مسلمان لیڈر کا سامنے آنا ضروری ہے جو انتہا پسندوں کے ایجنڈے کو ناکا م بنانے میں کمیونٹی کی مدد کرے۔
18 نومبر، 2013 بشکریہ : روز نامہ صحافت ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/burqa-sign-slavery-religion-/d/34462