اصغر علی انجینئر
1 فروری 2013
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام )
دنیا بھر کے لاکھوں مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ شرعی قوانین ناقابل تغیر ہیں اور خدا کی مرضی کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ یہ ایک سنگین غلط فہمی پر مبنی ہے۔ شریعت تغیر پذیر نہیں ہے اور نہ ہی ہو سکتی ہے ۔
حال ہی میں مجھے جے پور ادبی میلے میں صداقت قادری لندن ،کی کتاب ، ‘‘زمین پر جنت’’ پر ایک مباحثے میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا تھا ،جو پوری مسلم دنیا میں شرعی قوانین کے اطلاق پر ہے ۔ انہوں نے مختلف مسلم ممالک کا سفر کیا ، اور شریعت کے بارے میں مختلف علماء اور مفتیان کرام سے شریعت کے بارے میں بات کی جو کہ انہوان نے اپنے اپنے ملک میں لاگو کر رکھا ہے۔
ان میں سے ہر ایک قدامت پسند شرعی ضابطوں کا دفاع کرنے والے تھے اورانہوں نے کسی بھی تبدیلی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ انہوں نے کہا کہ شریعت الہی ہوتے تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ یہ ہمارے علماء کی درشتی ہے کہ عام مسلمانوں کے درمیان یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شریعت الہی ہےاور اسی وجہ سے نا قابل تغیر ہے ۔
در اصل ہمارے علماء یہ بھول جاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اجتہاد کی اجازت بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی اور معاذبن جبل سے متعلق حدیث اچھی طرح مشہور ہے ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کا گورنر مقرر کیا اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو چھوڑنے کے لئے آئے ، معاذ سے پوچھا گیا کہ وہ کس طرح حکومت کریں گے۔ معاذ نے کہا کہ قرآن کے مطابق ۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اگر وہ قرآن مجید میں مسئلہ کا حل نہیں پائیں گے تو کیا کریں گے ، تو معاذ نے کہا کہ سنت کے مطابق حکومت کریں گے ۔ لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اگر وہ سنت میں بھی اس کا حل نہیں پا سکےتو کیا کریں گے ، اس پر معاذ نے کہا ‘‘انا اجتہد ’’ (میں خود سے حل تلاش کرنے کی کوشش کرونگا ) ۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پیٹھ تھپ تھپائی اورفرمایا کہ تم نے صحیح کہا ۔
تمام علماء اس حدیث کو قبول کرتے ہیں اور ابھی تک، نظریاتی طور پر اجتہاد کی اباحت کو تسلیم کرتے ہوئے ، اس میں مشغول ہونے سے انکار کرتے ہیں یا یہ کہتے ہوئے اس کی اجازت دیتے ہیں کہ کوئی ایساکرنے کے قابل نہیں ہے ۔ اصل میں، جو چیزیں نا قابل تبدیلی ہیں وہ شریعت یعنی فقہ کے بنیادی اصول اور اقدار ہیں۔ لیکن ان صول پر مبنی قوانین کو، سماجی اور ثقافتی تناظر میں تبدیلی کے عمل سے گزارنا ضروری ہے۔ در اصل ، ثقافتی حالات شریعت کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ عرب کے عادات (رسوم و روایات ) شریعت کی تشکیل میں ایک اہم حصہ ہیں۔
مرحوم عبد الرحمٰن وحید، جو انڈونیشیا کے مذہبی تنظیم نہدلت ا لعلماء کے سربراہ تھے اور انہوں نے اس ملک کے صدر کے طور پر بھی خدمات انجام دی ہیں ، انہوں نے مجھے ایک بار کہا کہ انڈونیشیا کے علماء کے درمیان ایک بہت بڑی بحث چھڑی ہوئی تھی کہ کیا انڈونیشیا کے رواج اور روایات اس میں لاگو ہونے کے لائق شریعت کا حصہ بن سکتے ہیں ، جن لوگوں نے انڈونیشیا کے عادات کی وکالت کی بالآخر جیت گئے ۔
ہمیں یاد رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جسے امت مسلمہ (کمیونٹی) کہا جاتا تھا وہ عرب تک ہی محدود تھا۔ لیکن جب اسلام مختلف علاقوں میں پھیل گیا تو امت صرف عربوں تک ہی تک محدود نہیں تھی، اس نے ایرانیوں ، ازبک، ترک، چینی ، ہندی اور دیگر کو بھی اپنے حصار میں لے لیا ۔ اس طرح اسلام کے اندر مختلف لسانی اور ثقافتی گروہ ہو گئے تھے۔
شریعت ان عوامل سے متاثر ہو چکی تھی ۔ اس طرح امت اب کوئی ایک رنگ گروپ میں محدود نہیں تھی بلکہ اس نے اپنے اندر صدیوں پرانے رواج اور روایات کے ساتھ مختلف ثقافتی کمیونٹیز کو بھی شامل کر لیا ۔
تاہم، اقدار، مقاصد (ارادے) اور انسان کے مصالح (فلاح و بہبود) تبدیل نہیں ہوئے ۔ مقاصد الشریعۃ اور مصالح الشریعۃ تبدیل نہیں ہوئے ، لیکن ان اقدار کو برقرار رکھنے کے پیش نظر ، مقاصد اور مصالح ، جیسے تھے ویسے ہی رہ گئے ، علماء کے ذریعہ بنائے گئے قوانین کو تبدیل کرنا چاہیے۔ جب امام شافعی حجاز سے مصر چلے گئے ، جو عرب اور قبطی ثقافتوں کا ایک سنگم تھا ، انہیں اس کا احساس ہو اور کئی امور پر اپنے نقطہ نظر کو تبدیل کر دیا ۔
تاہم، جو میں کہہ رہا ہوں ان کا اجراء عبادات یعنی ، دنیا اورآخرت وغیرہ سے متعلق مسائل میں نہیں ہو گا ، لیکن اس کا اجراء صرف معاملات یعنی آپسی تعلقات سے متعلق مسائل یعنی شادی، طلاق، وراثت اور اسی طرح بہت سے دوسرے سماجی و اقتصادی معاملات میں ہو گا ۔
ان کے درمیان سب سے زیادہ اہم مسئلہ شادی، طلاق وغیرہ کا ہے ، جے پور میں میں نے بنیادی طور پر قرآن مجید میں اور شریعت عورتوں کے مقام و مرتبہ پر بات کی ۔
حقیقت یہ ہے کہ پنڈال لوگوں کی بھیڑ سے بھر گیا تھا ۔ میں نے تبصرہ کیا کہ یہ کتاب جس کا ابھی حوالہ دیا گیا ہے وہ صرف جاگیر دارانہ اور پدرانہ اسلامی معاشروں کے شرعی قوانین کی صورت حال اور نفاذ سے بحث کرتی ہے ۔ جسے میں ماورائے عقل قرآنی نقطہ نظر کہتا ہوں وہ بہت زیادہ چوکتا ہے ۔ قرآن نے بلا کسی تفریق کے مرد اور عورت کو بالکل مساوی حقوق فراہم کرتا ہے۔
تاہم، قرآن ایک انتہائی پدرانہ نظام ہر مبنی معاشرے میں نازل کیا گیا تھا، جو کہ بعد میں ، جب خلافت سلطنت میں بدل گئی تو اسے ایک جاگیر دارانہ نظام کے تحت کر دیا گیا ۔ اس طرح جاگیردارانہ اور پیدرانہ نظام نے صنفی مساوات ،خواتین کی انفرادیت اور وقار کے بنیادی قرآنی نقطہ نظر کو پوری طرح مسخ کردیا ۔
جب تک ہم ان سماجی اور ثقافتی پہلوؤں کو نہیں سمجھتے ہیں اور انہیں مذہب سے مربوط نہیں کرتے ، ہم اس انقلابی کردار سے چوک جائیں گے ، جسے اسلام نے خواتین کی حیثیت کو تبدیل کرنے میں ادا کرنا چاہا ہے ۔
تاہم، یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ مسلم معاشرے ایسے علماء پیدا نہیں کر سکے جن کے پاس سماجیات کو فقہ سے منسلک کرنے کی صلاحیت ہو ۔ یہاں تک کہ جدید اور مابعد جدید معاشروں میں بھی ہمارے علماء اسلام کے اندر ارفع و اعلیٰ بصیرت کی مکمل کمی ہے۔ وہ ماضی کے قیدی بن گئے ہیں اور ایک جاگیردارانہ، اور پدرانہ حالت میں اسلام کو منجمد کر دیا ہے ۔
ہمیں موجودہ دور میں جو کہ ناانصافی سے بھرا ہوا ہے قرآن کے مشن کو پورا کرنے کے لئے ایسے مذہبی علماء کی ضرورت ہے جو صاحب بصیرت ہوں ۔ ہمارا معاشر ہ صنفی ناانصافیوں سے لبریز ہے اور قرآن کا مرکزی اقدار انصاف ہے - زندگی کے تمام شعبوں میں انصاف ۔ صنفی انصاف پر بھی ، سماجی اور اقتصادی معاملات میں انصاف کی طرح بہت شدو مد کے ساتھ زور دیا گیا ہے۔
صنفی انصاف پر زور دینے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہے کہ ہم عربی زبان میں ماہر مذہبی عالمات پیدا کریں ۔ اس لئے کہ انتہائی قدامت پسند علماء بھی مذہبی عالمات کے تصور کی مخالفت نہیں کر سکتے۔
اصغر علی انجینئر ایک اسلامی سکالر ہیں اور وہ سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اور سیکولرازم ، ممبئی ، کے سربراہ بھی!
ماخذ: http://dawn۔com/2013/02/01/is-sharia-immutable/
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/sharia-be-immutable/d/10219
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/sharia-be-immutable-/d/10773