اصغر
علی انجینئر (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن
، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
خوف
، لالچ ، یا سراسر محبت اور دینداری کے لئے خدا کی عبادت کے دو مختلف نقطہ نظر ہیں۔
عام مسلمان زیادہ ترسزا کے خوف یا جنت کے ثواب
کی لالچ مین خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ علم تصوف میں یہ بیان کیاگیا ہے کہ دوسری ہجری (8ویں صدی عیسوی)کی ایک عظیم صوفی خاتون رابعہ بصریؒ ، ایک بار ایک ہاتھ میں پانی کی بالٹی اور دوسرے ہاتھ
میں جلتی ہوئی مشعل لے کر جا رہیں تھیں۔جب لوگو نے آپ کو دیکھا تو آپ سے دریافت کیا،
اے! رابعہؒ پانی کی بالٹی اور جلتی ہوئی مشعل لے کر کیوں پھر رہی ہو؟
آپ
نے کہا میں اس مشعل سے جنت میں آگ لگا نے اور پانی کی بالٹی سے دوزخ کی
آگ بجھانے جا رہی ہوں تاکہ لوگ جنت کی لالچ
اور جہنم کے خوف سے خدا کی عبادت نہ کریں
بلکہ خالص اللّٰہ کی محبت میں عبادت کریں حضرت رابعہ بصریؒ خدا سے اس قدر محبت کرتی
تھیں کہ وہ کہتی تھیں کہ انکے پاس شیطان سے نفرت کرنے کے لئے وقت ہی نہیں ہے۔ میرا دل خدا کی محبت سے بھرا ہوا ہے اور
اس میں نفرت کے لئے بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ خالص محبت ہے اور خدا کی عبادت کا سب
سے شاندار طریقہ ہے۔
تمام
بزرگ اور اولیاء اللہ (نیک روحیں، اللہ کے ولی) صرف محبت کی بات کرتے ہیں نہ کہ خوف کی بات کرتے ہیں۔ بھارت میں حضرت رابعہ بصریؒ کی ہم منصب میرا ہیں۔ وہ بھگوان شری کرشن کی شکل میں خدا کی
بہت بڑی بھکت تھیں جنہیں وہ مختلف نامو ں ، گردھر، گوپالا، کرشنا، نٹور، وغیرہ سے پکارا کرتی تھیں۔انہوں نے عام لوگوں کی
زبان راجستانی ، مارواڑی ، گجراتی، برج بھاشا وغیرہ میں دوہے تخلیق کئے۔ان کی موت کے پانچ سو سال کے بعد
بھی لوگ انہیں بہت پیار کرتے ہیں۔
یہ شری
کرشن کے تئیں ان کی محبت تھی جس نے انہیں بے خوف بنایا اور وہ تمام شاہی روایات کو توڑ سکیں۔
کرشن کی بھکتی کے سبب انہیں اپنے راج محل اور یہاں تک کی سبھی چیزوں سے دست
بردا ہو جانا پڑا، انہوں نے عام لوگوں کی طرح زندگی بسر کی اور سادھو سنتوں کے ساتھ گھومتی رہیں۔ ان کے شاہی خاندان نے ان پر
بہت زیادہ دباؤ ڈالا لیکن وہ اپنے ارادوں سے نہیں ہٹیں۔ محبت واقعی ایک انسان کوحقیقی معنوں میں بے خوف بنا دیتا ہے۔آج
بھی لاکھوں لوگ ان کے بھکتی گیت گاتے ہیں۔ان
کی شاعری میں محبت کی وہ شدت ہیکہ کسی کو بھی
حیرت ہوتی ہے۔اور جس سے ہم سب محظوظ
ہوتے ہیں ۔
مولانا
روم محبت اور عقیدت کی ایک
اور روشن مثال ہیں ۔وہ عظیم عالم اور ماہر فقیہ تھے۔وہ خطبات دیا کرتے تھے اور شہنشاہ کے دربار میں انہیں اعلی مقام حاصل تھا۔
ہزاروں کی تعداد میں ان کے شاگرد ان کو اور
ان کے خطبات کو سننے کے لئے آیا کرتے تھے۔ اگر ان کی ملاقات حضرت شمس تبریز نامی ایک درویش سے نہ ہوئی ہوتی توبے پناہ علم
کے باجود دنیا انکو نہیں جان پاتی ۔ اور ایک دن وہ معمول کے مطابق اپناخطبہ دے رہے
تھے اور ان کے سامنے ان کتابوں کا ڈھیر تھا جن کا ذکر وہ اکثر کے حوالوں میں کیا کرتے
تھے۔
درویش
نے مداخلت کی اور کتابوں کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟مولانا روم نے اس
سے ناراض ہوکر کہا کہ تم نہیں سمجھو گے۔حضرت شمس تبریز نے کتابوں پر دوبارہ نظر ڈالی
اور ان میں آگ لگ گئی۔ مولانا روم نے کہا
کہ یہ کیا ہے توحضرت شمس تبریز نے کہا کہ تم نہیں سمجوج گے۔ مولانا روم سمجھ گئے کہ
یہ درویش کوئی معمولی انسان نہیں ہے اور ان کے پیچھے چلے گئے۔حضرت شمس تبریز نے مولانا
روم کو مکمل طور پر ایک عالم سے ایک قلندرمیں تبدیل کر دیاجو ہر چیز سے دست بردا ر ہو
گئے، دربار میں اپنے مقام، اپنی دولت اور آرام دہ اور پرسکون رہائش کو چھوڑ دیا اورحضرت
شمس تبریز کی ہی طرح در ویش بن گئے۔
مولانا
روم محبّت میں بے قرار ہوگئے
اور اسی حالت میں کئی غزلیں کہہ ڈالیں جنہیں بعد میں دیوان شمس تبریز کے نام سے جمع کیا گیا۔ اور اس کے بعد مولانا روم نے کئی جلدوں میں اپنی مثنوی لکھی جسے فارسی کا
قرآن کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کے کلاسیکی لٹریچر میں سے ایک ہے۔ یہ اللہ کی محبت اور عبادت ہی ہے جس نے
انہیں لافانی بنا دیا ہے۔ میرا کی طرح آپ
بھی محبت میں اس قدر ڈوبے ہوئے تھے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ ان کی شناخت
صرف محبت ہے، نہ کوئی مذہب،
علاقہ اور نہ ہی دنیا اور جنت۔
دوسری
جانب جو لوگ خدا کے خوف پر زور دیتے ہیں ،وہ
عام طور پر پادری اور مذہبی قوانین
کے ماہرین ہیں ، جو خوف خدا کے نتیجے میں باقی سب کے لئے نفرت پیدا کردیتے ہیں ۔اپنے اختیارات کا خوف اپنے ماننے
والوں میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جہنم کی
آگ کا خوف ہم میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اوراگر ہم ان کی اتھاریٹی کو نہیں مانتے ہیں تو یہ بتانے کی
کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں کس طرح سزا ملے گی
۔ یہ سچ ہے کہ قران جہنم کی آگ کی بات کرتا ہے لیکن یہ بے حس گنہگاروں کے لئے ہے
جو دوسروں پر مظالم کرنا بندنہیں کرتے ۔اور
جو اپنے مال و دولت اور اقتدار کے سبب تکبر کرتے ہیں۔
عام
گنہگاروں کے لئے اللہ عظیم معاف کرنے والا، مان جانے والااور رحم کرنے والا ہے۔اللہ کی محبت
اور رحمت ان لوگوں کے لئے ہمیشہ جاری رہنے والی ہے جو توبہ کرتے ہیں اور نیک بننے کے لئے تیار ہیں۔ہر
کسی کو محبت اور دین داری سے اللہ کی رحمت اور فضل حاصل کرنی چاہیے۔ یہ محبت ہی ہے جو برے کردار والے شخص کو بھی مکمل طور پر تبدیل
کر دیتا ہے۔وہ لوگ جو میرا اور مولانا روم کی طرح محبت کی طاقت کا احساس کر لیتے ہیں وہ ، کبھی اقتدار کی محبت چھوڑ نے میں نہیں ہچکچاتے ۔
یہ اقتدار،
تکبر ، اور مال و دولت ہی ہےجو کہ دنیا میں
تمام برائیوں کو فروغ دیتی ہیں۔ اور یہ محبت کی طاقت ہے جو ان تمام برائیوں کی نفی
کرتا ہے اور اس دنیا کو ہی ایک جنت بنا دیتا ہے۔ جو محبت کرتا ہے وہ حقیقی طور پر بے
خوف ہو جاتا ہے اوربے شک محبت ہی خدا ہے اور خدا ہی محبت ہے۔
مصنف
اسلامی اسکالر اور سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکو لرزم، ممبئی کے سر براہ ہیں۔
URL for English article: http://www.newageislam.com/spiritual-meditations/love-god-or-fear-god?-/d/3520
URL: