اصغر علی انجینئر (انگریزی سے ترجمہ۔سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام
ڈاٹ کام)
اسلام میں حالانکہ مذہبی رسومات
ادا کرانے والے کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن ایک طبقہ سامنے آیا ہے جسے علماء کہتے ہیں
اور انگریزی میں جسے کلیرک (Cleric)کہتے ہیں۔اسلام میں کوئی
بھی شخص جسے کافی علم ہو وہ شادی،موت یا مسلمانوں کی دوسری ذمہ داریوں سے جڑے تمام
اراکان اور رسومات کو ادا کرا سکتا /سکتی ہے اسے عالم کہتے ہیں۔عالم (جمع علماء)کے
معنی ہیں جو جانتا ہو۔اس طرح طبقے،ذات،نسل یا قومیت سے قطع نظر پورا زور قرآن اور حدیث
کے علم پر ہے۔چونکہ علم اس طبقے کا مرکزی کردار ہے اس لئے انہیں علماء کہا گیا۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا
ہے کہ ان لوگوں کو کون سا علم سکھایا جائے جن سے مسلم طبقے کی رہنمائی کی توقع کی جاتی
ہے۔علماء اکثر ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ نبی کریم محمد ﷺ آخری پیغمبر ہیں اور
ان کے بعد علماء تاروں کی مانند ہیں اور مسلمانوں کو ان سے رہنمائی حاصل کرنی چاۂیے
کیونکہ اندھیری رات میں تارہ رہنمائی کرتا ہے اور روشنی کا ذریعہ بن جاتا ہے اور جہالت
اندھیرے کے مترادف ہے۔
جن دنوں میں علماء کا قبیلہ
وجود میں آ رہا تھا ان دنوں میں قرآن اور حدیث کا علم سب سے اہم تھا جس میں طبقے کی
رہنمائی کے تمام علوم شامل تھے۔اور جزیرہ عرب میں جہاں اسلام سے قبل ادبی روایت نہیں
تھی، قرآن اور حدیث نے یہاں کے لوگوں کوعلم کی انقلابی روایت سکھائی۔جس کسی کو بھی
اس کا علم ہوتا تھا اس کی گنتی عظیم عالم میں ہوتی تھی۔اس کے علاوہ شرعی قوانین کی
بنیادقرآن اور حدیث میں تھی اس لئے اس کا علم ،تمام علموں کااہم ذریعہ تھا۔
تاہم ۔جیسے ہی اسلام دوسرے
ملکوں میں پھیلا، ان علماء جن کے علم کا ذریعہ صر ف قرآن اور حدیث تک ہی محدود تھا
ان کے مقابلے قدیم تہذیب اور تمدن اور قانون کے دوسرے ذرائع کا علم رکھنے والے دوسرے
قسم کے علماء کا وجود سامنے آیا یعنی ایسے علما جنہوں نے دوسرے ذرائع جیسے فلسفہ،حساب،آپٹکس،علم
کیمیا،طبیعیات اور علم نجوم وغیرہ سے علم حاصل کیا تھا ،روایتی ذریعہ قرآن اور حدیث
کے مقابلے عقل اور شعور پر زور دیتے تھے۔
وقت کے ساتھ یہ عقلی علوم
اس قدر اہم ہو گئے کہ یہ علماء کی تربیت کے نصاب کا حصہ بن گئے اور جسے علوم العقل
کے طور پر جانا گیا۔جو یونانی فلسفہ اور دیگر علوم پر مبنی ترجمہ پر مشتمل تھا۔ان دنوں
یونانی سائنس کا علم سب سے زیادہ اعلی درجے کا تھا اور ان عقلی علوم نے علماء کے نظریہ
کو وسیع کرنے میں مدد کی ہوگی۔یہ اس قدر اہم تصور کئے جاتے تھے کہ سقراط کو پیغمبروں
میں سے ایک تصور کیا جاتا تھا۔سقراط کا ایک شاگرد پلیٹو (افلاطون)تھا۔
مسلمانوں نے کئی عظیم فلسفیوں
کو پیدا کیا جنہوں نے علم میں کافی اہم تعاون کیا اور جن کے یونانی فلسفوں پرتبصر ے
کو قرون وسطیٰ کے دور میں یوروپی یونیورسیٹیوں اور عیسائی مذہب کے مدارس میں پڑھایا
جاتاتھا۔اس طرح عیسائی پادریوں نے اپنے مدارس میں الفرابی،ابن سنا ،ابن رشد کو پڑھا۔اس
طرح تمام طرح کے عقلی علوم کواسلامی دنیا میں قرون وسطیٰ کے دور میں فروغ حاصل ہوا
اور مسلمان علماء نے ان علوم کو حاصل کیا۔
اب یہ یونانی علوم صرف تاریخی
اہمیت کا حامل رہ گیا ہے اور انسانوں نے سماجی اور علم طبیعیات میں زبر دست پیش رفت
کی ہے۔کوئی بھی ان موجودہ ترقیات کے ا ن علوم کے بارے میں جانے بغیر خود کے عالم ہونے
کا دعویٰ نہیں کر سکتا ہے۔بد قسمتی سے نو آبادیاتی دور اور یوروپ میں ان علوم میں ترقیات
دونوں ایک ہی وقت میں ہوئی،کیونکہ مسلم ممالک ہی یوروپی ممالک کی نو آبادی بنے،جس سے
عمومی طور پر مسلمان اور خصوصی طور پر علماء تما م مغربی یا یوروپی علوم سے متعصب ہو
گئے۔بنیادی طور پر ان کا اہم ذریعہ نوآبادکاری تھی۔
اس کے علاوہ اسلامی مدارس
نوآبادیاتی آقاؤں سے اپنے غصے کے اظہار میں نوآبادیاتی حکمرانوں اور سائنس دانوں کے
درمیان فرق کو بھول گئے جبکہ ان میں سے کئی سائنس دانوں کو حکمرانوں نے سزا دی تھی
۔سائنس کو ترقی حکمرانوں نے نہیں دی تھی بلکہ سائنس دانوں نے دی تھی اور یہ علما ء
یونانی فلسفے اور سائنس کو اب بھی اپنے مذہب کا لازمی حصہ مانتے تھے، جو کہ غلط تھا۔ان
علماء نے یونانی علم کی مزاحمت کی اور کئی فلسفیوں پر مقدمہ چلایا لیکن بعد میں اسے
قبول کر لیا اور ان علوم کو اپنے نصاب کا حصہ بنا لیا اور پھر اپنے مذہب کا۔
اسی طرح ان لوگوں نے جدید
سماجی اور طبیعیاتی علوم کوغیر مذہبی اور مغرب سے درآمد کہہ کر مخالفت کی اور ان علوم
کو مسترد کر دیا۔تاہم،بعد میں ان علوم کو قبول کرنا شروع کیا لیکن اسلامی مدارس میں
پڑھانا شروع نہیں کیا۔اب بھی یہ روایتی یونانی فلسفے کو اسلامی علوم کے جز کے طور پر
پڑھاتے ہیں۔اسلامی مدارس نصاب کے طور پر آپس میں ضم ہو جائیں جس طرح پہلے یونانی علوم
کے وقت تھا۔
آج ان مدارس میں روایتی علوم
اور فقہی مسائل پر پورا زور دیا جاتا ہے جو بلا شک ضروری ہے لیکن صرف تربیت کے حصے
کے طور پر۔ان فقہی مسائل کے ساتھ ہی طالب علموں کو جدید سماجی اور طبیعیاتی علوم کی
بھی تعلیم دی جانی چاہیے جو ان کے نظریے کو وسیع کرنے میں مددگار ہوگا۔ان لوگوں کو
قرآن کی تشریح نو کی بھی تربیت دی جانی چاہیے تاکہ یہ جدید علوم کو اپنے میں شامل کرسکے۔پہلے
کی تفسیر اور تشریحات اس وقت موجود علم کی روشنی میں کی گئی تھی۔اس بنیاد پر طالب علموں
کو تفسیر کاپڑاھایا جانا جاری نہیں رکھا جا سکتا ہے ، کہ قرآن ہی نہیں بلکہ تفسیر بھی
خدادا دہے، ۔جبکہ قرآن خداداد ہے اور تفسیراسے سمجھنے کے لئے انسانی علوم کے دائرے
کے اندرایک انسانی تخلیق ہے۔
موجودہ احادیث میں کچھ مستند
اور کچھ مشکوک بنیاد والی احادیث دونوں شامل ہیں۔طالب علموں کو موجود احادیث میں جدید
تنقیدی طریقہ بھی سکھانا چاہیے اور ان لوگوں کو ان ہی احادیث کاا نتخاب کرنا چاہیے
جو مستند ہیں اور عقل کے معیار کو بھی پورا کرتی ہیں۔راوی کی راست بازی ہی صرف کافی
نہیں ہے بلکہ اسے عقل اور سمجھ کے معیار کو بھی پورا کرنا چاہیے۔ شعور اور عقل خداداد
تحائف ہیں اور قرآن عقل کے کردار کو قبول کرتا ہے۔
اس کے علاوہ ان مدارس میں
فرقہ واریت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اس لئے مستقبل کے علماء کا رواداری اور اعتدال
پسندی سیکھنا بہت ضروری ہے۔قرآن کے بنیادی اقدار سچائی(حق)،انصاف(عدل) اچھا عمل(احسان)،رحم،حکمت
پڑھایا جانا چاہیے اوراس پر زور بھی دیا جانا چاہیے۔کثرت مذہب والی موجودہ دنیا میں
دوسرے مذاہب کا تقابلی مطالعہ بھی ضروری ہونا چاہیے۔
اس طرح کا جامع نصاب مستقبل
کے علماء پیدا کر سکتا ہے۔
اصغر علی انجینئر، چیئرمین،سینٹر
فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکو لرزم،ممبئی
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islamic-ideology/re-education-and-retraining-of-“ulama”-essential/d/4183
URL: