اصغر
علی انجینئر (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن
، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
مذہبی
ہونے کا صحیح تصوّر کیا ہےاس کے متعلّق مومنوں
اور غیر مومنوں دونوں کے درمیان بہت غلط فہمیاں ہیں ۔ زیادہ ترمومنوں کے نزدیک دین
کا مطلب کچھ رسومات ، ظاہری روپ اور یہاں تک
کہ کچھ قاعدے اور توہم پرستی ہے جبکہ غیر مومنوں کے نزدیک(معقولا ت اور عملی باتوں
میں یقین رکھنے والےہیں ) مذہب کا مطلب وہ
غیر معقول عقائد اور توہم پرستیاں ہیں جو
انسانی کی ترقی کو روکتی ہیں اور جنکی
وجہ سے تشدد پھو ٹتاہے ا ور تباہی آتی ہے ۔یہاں تک کہ ان لوگوں
کا یقین ہے کہ دہشت گردی مذہب کی ہی وجہ سے
ہے۔
پھر
سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس کے باوجود لاکھوں لوگ مذہب میں کیوں یقین رکھتے ہیں؟معقولا
ت میں یقین رکھنے والوں کے مطابق مذہب میں یقین ناخواندگی اور غیر معقول تصورات کے سبب ہے۔ لیکن کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ
بھی مذہب
میں یقین رکھتے ہیں، تو مذہب میں یقین کے لئے صرف ناخواندگی کو ہی ایک وجہ نہیں کہہ سکتے ہیں۔اورکچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو دین میں تو یقین رکھتے ہیں مگرتوہم پرست نہیں ہیں ۔ ان میں سے بہت سے لوگ بہت منطقی ہیں اور یہاں تک کہ بغیر اعتراض کے سائنس اور سائنسی طریقوں کو قبول کرتے ہیں۔سر سید
نے یہ بھی کہا کہ خدا کے الفاظ (قرآن) اور
خدا کی فطرت (قدرت اور قدرت کے قوانین) کےدرمیان تضاد نہیں ہو سکتاہے۔ اس کے علاوہمذہب
میں بہت سے عظیم سائنس دانوں کا یقین رہا ہے۔
پھر
سوال یہ اٹھتا ہے کہ واقعی مذہبی ہونے کا کیا
مطلب ہے؟ عام لوگوں کے لئے (بشمول تعلیم یافتہ کے) مذہب ایک
مخلوط چیز ہے جس میں کچھ قاعدے، رسومات اور روایتیں شامل ہیں جو مذہب کے بجائے
ہماری ثقافت کا حصّہ ہیں ۔ ایک بار جب مذہب ایک طاقتورنظام بن جاتا ہے تو یہ مذہبی تعلیمات
اور اقدار کے مقابلے میں ذاتی مفادات کی زیادہ نمائندگی کرتا ہے۔ یہ اس کے تحرک کوکھو دیتا ہے۔ مذہب کی اصل روح کے مقابلے میں مفادات
زیادہ اہم بن جاتے ہیں۔
اور
مذہبی قاعدوں کو وہ مرکزیّت حاصل ہو جاتی کہ اس میں تبدیلی کی کو ئی
گنجا ئش نہیں رہتی ۔کیونکہ مؤمنوں کے نزدیک
تبدیلی عدم تحفظ اور غیر یقینی احساس کو پیدا
کرتی ہے جبکہ وہ مذہب میں یقین باطنی تحفظ کے لئے رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ مذہبی قائد لیڈرشپ کو بھی برقرار رکھنے کو یقینی
بناتے ہیں کیونکہ کوئی بھی تبدیلی قدامت پسند قیادت سے جدید قیات کو سامنے لاتی ہے اور قدامت پسند قیادت
جوڑ توڑ اور لوگوں کو قابو میں کرنے میں زیادہ ماہر ہوتے ہیں، کیونکہ زیادہ تر لوگوں کے نزدیک مذہب
یقین کا معاملہ ہے نہ کہ غور و فکر کا ہے۔
حالانکہ
اعلیٰ سطح پر مذہب نہ تو توہم پرستی ہے، نہ
ہی صرف قاعدہ اور نہ ہی محض رسومات ہیں۔ جب
انسان کو مختلف ضروریات کا سامنا ہوتا ہے تب مذہب
انکےمفادات کو پورا کرنے کیلۓ مسائل
بیان کر تا ہے ۔ جیسے پانی اپنی سطح خود تلاش
کر لیتا ہے اسی طرح مذہب بھی غیر یکساں طور کے معاشرے میں اپنی سطح تلاش کر لیتا ہے۔ان
لوگوں کے لئے جو ناخواندہ اور پسماندہ رہیں ان
کے لئے مذہب دل جوئی کا ایک ذریعہ بن جاتا
ہے ، جو غور فکر اور تبدیلی کے مقابلے صرف قاعدے اور توہم پرستی میں خوش رہتے ہیں۔
تاہم
مذہب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ معاشرے کے لئے اقدار اور فلسفہ کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے اور
انہیں خدا کی تخلیق پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن بار بار کہتا ہے کہ تم فکر کیوں نہیں کرتے ہو؟ تم خدا کی تخلیق پر غور و فکر کیوں نہیں کرتے ہو؟ قرآن کو اگر اس کی
اصل روح میں سمجھا جائے تو یہ جمود
اور صرف قاعدے کے مقابلے سے دانشورانہ نشو
نما کو پیدا کرتا ہے۔قاعدے فقہاء نے پیدا کئے ہیں اور ان لوگوں نے ان قاعدوں پر بنیادی
طور پر زور دیا، کیونکہ یہ انکی ضروریات اور مفادات کو پورا کرتے تھے۔
اس کے
علاوہ ، بہت سے لوگوں کے لئے مذہب اقدار کے بجائے
رسم پر مبنی ہے۔ بعض رسومات پر عمل کر اور اور اپنے ظاہر کو مخصوص انداز میں
کر کے وہ سوچتے ہیں کہ وہ مذہبی ہیں۔ کئی دوسرے لوگوں کے لئے ، مذہب رسومات سے زیادہ
اقدار کا ایک ذریعہ ہے۔ رسومات ایک طبقے کے احساس اور اس کے تشخص کی ضرورت کو پورا
کرتا ہے اور یہ ایک مشینی مشق بن جاتا ہے جو بمشکل ہی کسی اندرونی تبدیلی کی حوصلہ
افزائی کرتا ہے۔
ان حالا
ت میں
لوگ مذہب کو کس طرح سمجھے اور مذہبی
کیسے بنیں؟حقیقی طور پر مذہبی ہونےکے لئے پانچ
بنیادی خصوصیات ہیں جس کے بغیر کوئی مذہبی
ہونے کا دعوی تو کر سکتا ہے لیکن واقعی اس کا اس
زمرے میں ہونا مشکل ہے۔یہ چار بنیادی
خصوصیات ہیں (1) حق کی مسلسل تلاش ، (2) شائستگی ، (3) رحم دلی ، (4) نظام
ماخلف ہونا اور(5) بصارت میں افضل ہونا۔
ہم یہاں ان ضروری خصوصیات پر کچھ روشنی ڈالیں گیں جو
مذہبی ہونے کے لئے ضروری ہیں۔ ہر مذہبی روایت میں خدا کا نام حق ہے۔اسلامی روایت میں اللہ کا ایک نام حق یعنی
سچائی ہے۔ایمانداری اور حق کی مسلسل جستجو کے بغیر کسی کا مذہبی ہونا مشکل ہے ۔ بدھ سے نبی
کریم محمدﷺ تک تمام عظیم مذہب کے بانیوں نے حق کو حاصل کرنے کے لئے اپنی زندگی
کے کئی سال لگائے اور حق کو سمجھنے کی ترغیب حاصل کی۔حق کو اس کی تمام تجلیوں میں تلاش
کرنا ایک شخص کی زندگی کا مشن ہونا چاہیے۔
اور حق کا صرف ایک روپ اور ایک ہی تجلی نہیں ہے۔ اور مذہب نہ توکسی
جمود کا نام ہےاور نہ ہی کسی قاعدےکا بلکہ ؛مذہب تحریک پیدا کرنے اور ذہن کو چیلنج پیش کرنے والا ہے۔
(2)
حق کی مسلسل جستجو کے ساتھ ہی خشوع کی بھی ضرورت ہے۔حق کے بارے میں کسی کی اجارہ داری
کا تصورتکبر کی جانب لے جاتا ہے اور سچ کےمعیار کو خارج کر دیتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن
کریم میں آتا ہے کہ تمام گزشتہ نبی کرام حق کے ساتھ آئے اور مسلمان ان کے درمیان کوئی تفریق نہ کریں اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ سچے مومنوں
میں سےنہیں ہیں۔ تمام انبیاء کرام اور عظیم مذہبی دانشوران حق کی جستجو کے لئے
وقف تھے۔ قرآن بھی فرماتا ہےکہ اللہ نے اجتما عیت کو پیدا کیا ہے نہ کہ انفرادیّت کو تاکہ
کوئی تکبرکے بغیر مختلف اقسام کے حق
کو سمجھ سکے۔جو بھی حق کی مسلسل جستجو میں
مصروف ہے اس میں خشوع کی کا پایا کانا ضروری ہے۔ قرآن پر زور انداز میں مستکبرین (طاقتور اور تکبروالا) کی مذمت کرتا ہے۔ قرآن میں
جن انبیاء کرام کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے
زیادہ تر متحمل مزاج تھے۔
سچّا مذہبی ہونے کے لئے تیسری اہم خصوصیت رحم دلی ہے
یعنی دوسروں کی تکالیف کے تئیں حساس ہونا
ہے۔ جو کوئی رحم دل نہیں ہے وہ مذہبی تو چھوڑئے مکمل انسان بھی نہیں ہو سکتا ہے۔قرآن
میں اللہ تعالیٰ کانام الرحمان الرحیم ہے اور
پیغمبر محمد ﷺ کو رحمت للعالمین کے طور پر
ذکر کیا گیا ہے۔ کوئی بھی مسلمان جو انتہائی رحم دل نہیں ہےوہ ایک سچا مسلمان کبھی
نہیں ہو سکتا ہے۔
اسی
طرح ایک سچّے مذہبی شخص کو نظام
کے خلاف ہونا چاہیے کیونکہ زیادہ تر
نظام اقدار کے مقابلے ذاتی مفادات کی نمائندگی
کرتے ہیں۔ بعض لوگ اس نظام کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اور اس پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے کے لئے کچھ بھی
کر جاتے ہیں۔ایسے لوگ آمرانہ نظام کو قائم
کرتے ہیں اور اپنے مخالفین کو نیست و نابود
کر دیتے ہیں۔اس کے علاوہ ،ایک حقیقی مذہبی
شخص ہمیشہ کیا دیا ہے کے مقابلے میں مستقبل کی بصیرت سے ترغیب حاصل کرتا ہے۔اور ایسا انسان نئی دنیا
کی تشکیل میں مصروف ہوگا، کیونکہ جو حاصل ہوتا
ہے وہ کامل نہیں ہوتا ہے۔جس شخص میں یہ خوبیاں ہوں گی وہ واقعی میں سچّا مذہبی انسان ہوگا۔
مصنف
سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرازم ، ممبئی کے سربراہ ہیں۔
بشکریہ:
ڈان، پاکستان
URL for English article: http://www.newageislam.com/spiritual-meditations/what-it-means-to-be-religious/d/3468
URL: