New Age Islam
Sun Apr 02 2023, 11:23 AM

Urdu Section ( 10 Nov 2011, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The End Of Multi-Cultural Environments In The UK برطانیہ میں کثیر ثقافتی ماحول کا خاتمہ


By Asghar Ali Engineer (Translated from English by Samiur Rahman, NewAgeIslam.com)

The British Prime Minister called it ‘pure criminality’. It is too superficial an observation and cannot be accepted as a comprehensive explanation from a responsible person like Prime Minister. Indeed criminals are also involved but it is not doing of criminals only. Criminals just joined in when disturbances started as always happen. In communal rots too in our country criminals too take benefit of rioting and indulge in looting and even settling scores with their rivals. One did not expect from the Prime Minister of a country to give such over-simplistic explanation.

A comprehensive explanation would include political, economic as well as cultural aspects. It also has to be seen in the background of rising intolerance and rejection of multi-culturalism in Europe in the wake of revival of rightwing politics and revival of rightwing politics is mainly on account of deep economic crisis western world is going through. It has been observed since Second World War that economic downturn brings in its wake revival of racism and neo-fascism.

This again shows that tolerance or intolerance is not a religious phenomenon as often thought but quite a complex phenomenon which include several factors including cultural ones and those of identity and power-sharing. We unfortunately think it is religion which makes one tolerant or intolerant. The way blacks have killed Asians not only during these disturbances in London and Birmingham but also in earlier riots in England shows it is not merely racial but also economic.

Asians, especially those from Indian sub-continent have done well economically as they run businesses and have better standard of living than blacks, blacks bear grudge towards more successful Asians and take it out during such disturbances. The widespread looting of shops in which some whites were also involved as in India many middle class people, especially women loot shops during communal riots, shows how our values have collapsed.

URL for English article: http://www.newageislam.com/current-affairs/end-of-the-road-for-multi-culturalism-in-britain?-/d/5286


 

برطانیہ میں کثیر ثقافتی ماحول کا خاتمہ

اصغر علی انجینئر

لندن اور برطانیہ کے دیگر شہروں برمنگھم ،مین چیشٹر ،لیسسٹر ،لیورپول میں فسادات مغرب میں کثیر ثقافتی ماحول کے خاتمے کا اشارہ کرتے ہیں۔ گزشتہ ماہ ناروے میں ہوا قتل عام بھی اس جانب ہی اشارہ کرتا ہے۔ ہمیں سنجیدگی سے ان واقعات کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ برطانیہ کے زیر حکومت رہے علاقوں کے ایشیائی اور افریقی جب ہجرت کر کےمغربی ممالک میں منتقل ہونے لگے تب یوروپ کثیر نسلی اور کثیر ثقافتی بننے لگا جو مغرب کے لوگوں کے لئے نیا تجربہ تھا۔ دوسرے الفاظ میں وہ اب نو آباد یاتی حکمت عملی کے لئے قیمت چکارہے ہیں جو اب تک صرف ان کے زیر حکومت رہے ممالک ہی چکارہے تھے۔

جب اچھی خاصی تعداد میں افریقی اور ایشیائی ممالک کے لوگ برطانیہ کے زیر حکومت رہے ملکوں جیسے فرانس ، انگلینڈ ، جرمنی ، نیدر لینڈ اور دوسرے کئی اور ممالک کا حصہ بن گئے تب سماجی اور سیاسی معاملات کے سائنسدانوں نے کثیر ثقافتی اصول تیار کیا۔ اس سے قبل تک ان ملکوں میں صرف ایک مذہب ،ایک زبان اور ثقافت تھی۔ لیکن اب ان ممالک میں مختلف ثقافت ،مذہب اور زبان کو بولنے والے لوگ ہیں اور اسی لئے اس رجحان کو کثیر ثقافتی کہا گیا ۔

یہ بڑا دلچسپ ہے کہ یہ لوگ اپنے ملک کو کثیر مذہبی کے بجائے کثیر ثقافتی کہتے ہیں، کیو نکہ ثقافت کا مذہب کے مقابلے انسان کے برتاؤ اور دانشور انہ واقفیت پر گہرے اثرات ہیں۔ مغربی ممالک میں جو لوگ ہجرت کر کے پہنچے ان میں کئی ان کے اہم مذہب عیسائی تھے لیکن افریقہ اور ایشیائی ثقافتی پس منظر والے لوگ جو ان کے ہم مذہب تھے ان کو ناقابل قبول تھے۔ اس کے علاوہ ،ان کی نسلی نژاد (جلد کا رنگ ) بھی بہت مختلف تھا۔

اس طرح ہندو، مسلمان یا عیسائی بمشکل ہی یوروپ کے گوروں کے لئے کوئی معنی رکھتا تھا۔ یہ لوگ خود کو ثقافتی ، نسلی اور تعلیمی اعتبار سے اعلیٰ سمجھتے تھے اور کالے لوگوں کو کمتر سمجھتے تھے۔ اس طرح ان کے لئے دوسرے مذہب کی جگہ ثقافت اور نسل زیادہ اہم تھے۔

اس کے علاوہ ان کا خیال تھا کہ وہ افریقی اور ایشیائی نژاد کے لوگوں کے مقابلے زیادہ روادار ہیں جبکہ افریقی اور ایشیائی نژاد کے لوگ زیادہ مذہبی ،قدامت پسند اور کم روادار ہیں۔ تاہم یہ حقیقت کے مقابلے بیان بازی زیادہ تھی۔ جب تارکین وطنوں کی تعداد ایک اہم حد تک پہنچنے لگی تو  ان کی عدم رواداری خود بخود باہر آگئی ۔ جب تک ان کی (تارکین وطن) تعداد کم تھی تب تک مغرب کے لوگ اپنی رواداری کی ڈینگیں مارتے تھے لیکن جب ان کی تعداد ایک حد کو تجاوز کرنے لگی ان کی عدم رواداری باہر آنے لگی اور ان  ممالک کی حکومتیں ایسے سخت قانون وضع کرنے لگے جو تارکین وطن کی تعداد پر قابو حاصل کرنے میں مدد کرسکے۔ ہالینڈ میں حکومت نے مسلمان تارکین وطنوں کو برہنہ خواتین کی تصاویر دکھانے کا فیصلہ کیا اور جاننا چاہا کہ یہ لوگ اس کو قبل کرتے ہیں یا نہیں ۔ ان لوگوں نے خواتین کی حرمت کا بھی لحاظ نہیں رکھا۔

ناروے میں قتل عام بھی دیگر مذاہب اور ثقافتی کے تئیں عدم رواداری کا ہی نتیجہ تھا۔ اینڈرس بہر نگ بریوک اس لئے ناراض تھا کیو نکہ بڑی تعداد میں تارکین وطن (خاص طور سے مسلمان ) اس کے ملک میں آرہے تھےاور حکمراں جماعت کا اس معاملے میں رویہ مثبت تھا اور اس لئے بریوک کا خیال تھا کہ اسکور وکنا ہوگا۔ یہ بڑا دلچسپ ہے کہ عدم رواداری کے ایک دوسبق اس نے ہندتو ا طاقتوں سے بھی سیکھا تھا اور اس کا ذکر اس نے 1500صفحات پر مشتمل اپنے منشور میں کیا ہے۔ اس طرح یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دائیں بازو کی طاقتیں جن کا مذہب یا کلچر کچھ نہیں ،ان کی فکر یکساں ہوتی ہے۔

عدم رواداری اقتصادی بحران کے وقت او ربھی زیادہ شدید ہوگئی ۔ مغربی ممالک کی معیشت بحران کا شکار ہے اور وہاں بے روزگاری بڑھ رہی ہے، جو بےروزگار نوجوانوں میں مایوسی پیدا کررہا ہے اور مایوسی اور غصہ ان لوگوں کو تشدد میں ملوث ہونے کے لئے حوصلہ افزائی کررہا ہے ۔ ان لوگوں نے اب یہ سوچنا شروع کردیا ہے کہ ان کی بے روزگاری کا اصل سبب تارکین وطن ہیں جو ان سے ان کے روزگار چھین رہے ہیں حالانکہ یہ اصل وجہ نہیں ہے۔ یہ سرمایا دارانہ نظام کا بحران ہے اور ساتھ ہی امریکہ کی جنگ پرمبنی معیشت ہے لیکن تارکین وطن ان کے عتاب کا شکار ہورہے ہیں۔

کچھ دنوں قبل لندن میں جو کچھ ہوا جو برطانیہ کے دوسرے شہروں میں بھی پھیل گیا، خاص طور سے برمنگھم اور مین چسٹر میں جہاں برصغیر کی بڑی آبادی رہتی ہے اور اس کی پیچیدگیوں کے ساتھ اسے سمجھنا چاہئے ۔ اس کی شروعات 30سال کے ایک کالے شخص کی پولس کے ذریعہ قتل سے ہوئی جو شادی شدہ تھا اور تین بچوں کا باپ تھا۔ جس طرح یہ معاملہ نہ صرف لندن بلکہ دیگر شہروں میں پھیلا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہاں کے بارے میں مبصرین نے جو کچھ لکھا اس کے مقابلے معاملات کچھ اور بھی تھے۔

برطانوی وزیر اعظم نے اسے خالص جرم قرار دیا ۔ یہ ایک سطحی جائزہ ہے اور ا سے وزیر اعظم کے جیسے ذمہ دار عہدے پر فائض شخص سے جامع وضاحت کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔ درحقیقت اس میں مجرم بھی شامل تھے لیکن یہ صرف مجرموں کا کام نہیں تھا ۔ جیسا  کہ ہمیشہ ہوتا ہے حالات جسے ہی خراب ہوئے مجرموں نے بھی اس کی شرکت شروع کی ۔ ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کے وقت وہ بھی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہیں او رلوٹ کو انجام دینے اور اپنے دشمنوں سے بدلہ بھی لے لیتے ہیں۔ کوئی بھی ایک ملک کے وزیر اعظم سے اس طرح کے وضاحت سے زیادہ سادہ جواب کی توقع کرے گا۔

ایک جامع وضاحب میں سیاسی اقتصادی اور ثقافتی پہلو شامل ہوگا۔ دائیں بازو کی سیاست کی حیات نوکی روشنی میں یوروپ میں کثیر ثقافتی ماحول سے انکار اور بڑھتی ہوئی عدم روداری کے اسباب تلاش کرنے ہوں گے اور دائیں بازو کی سیاست کی حیات نومغربی ممالک کے گہرے اقتصادی بحران سے گزرنے کے سبب ہورہا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے ہی یہ مشاہدہ کیا جارہا ہے کہ اقتصادی بحران کے وقت نسل پرستی اور نیو فاسزم کو حیات نوملتی ہے۔

یہ پھر واضح کرتا ہے کہ رواداری یا عدم رواداری مذہبی رجحان نہیں ہے، جیسا کہ عام طور پرسوچا جاتا ہے بلکہ یہ ایک پیچیدہ رجحان ہے جس میں ثقافتی پہلو کے ساتھ ہی شناخت اور اقتدار میں شراکت کا پہلو بھی شامل ہے۔ بدقسمتی سے ہم یہ سوچتے ہیں یہ مذہب ہے جو کسی رواداریاں عدم روادار بناتا ہے۔ جس طرح سے کالے لوگوں نے ایشیا کے لوگوں کو لندن اور برمنگھم میں اس دنگے کے دوران مارا بلکہ انگلینڈ میں ہوئے پہلے کے فسادات بتاتے ہیں کہ یہ صرف نسل کو لے کر نفرت نہیں تھی بلکہ اس کی اقتصادی بنیادیں بھی تھیں۔

ایشیائی خاص طور سے ہندوستانی برصغیر کے لوگوں نے اقتصادی طور پر بہتر کاکردگی کو انجام دیا ہے اور یہ لوگ اپنا کاروبار چلاتے ہیں ، ان کا معیار زندگی کالوں کے مقابلے میں بہتر ہے۔ کالے لوگ اس کے سبب ان ایشیائی لوگوں سے حسد رکھتے ہیں اور دنگوں کے دوران اسے باہر نکالتے ہیں ۔بڑی تعداد میں دکانوں میں لوٹ کو انجام دینے والوں میں گورے بھی شامل تھے جس طرح ہندوستان میں بھی متوسط طبقے کے لوگ بھی شامل رہتے ہیں ،لیکن خاص طور سے فسادات کے دوران دکانوں پر لوٹ میں خواتین کا شامل ہونا بتاتا ہے کہ اخلاقی اعتبار سے ہم کس قدر پست ہیں۔

ہمارے تعلیمی نظام کوبھی اس کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے ۔ جس طرح سرمایا دارانہ نظام میں ہر جگہ تعاون کے بجائے مقابلے پر زور دیا جاتا ہے ۔ مقابلہ کا تصور ہمارے تعلیمی نظام کی بنیاد رہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے دو سطونوں ،مقابلہ اور صارفیت میں سے ایک ہے۔ صارفیت سے حسد پیدا ہوتی ہے اور لوگ امیر او ربہت ہی زیادہ رئیس لوگوں کی نقل کرنا چاہتے ہیں اور بطور صارف سب کچھ حاصل کرنا چاہتے اور یہی انداز تمام طرح کے جرم کی جانب لے جاتا ہے۔

ایک چھوٹی چنگاری پورے شہر یا کئی شہروں کو نظر آتش کرسکتی ہے۔ اور یہ ایسے ہوتا ہے جیسے لوگ اسی کا انتظار کررہے ہوں اور سب کچھ جل کر خاک ہوجاتا ہے ۔ کچھ سال قبل لاس اینجلس (امریکہ) میں ایسی ہی آگ بھڑک اٹھی تھی جب ایک گورے پولس والے نے معمولی ٹریفک قاعدو ں کو توڑ نے پر ایک کالے کی پٹائی کردی تھی، اس واقعہ کی ویڈ یوریکارڈنگ کی گئی تھی اور اس کی نمائش بھی کی گئی تھی۔ پورا لاس انجیلس آگ کی لپٹوں میں جل رہا تھا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے تہذیبی اور ثقافتی اقدار کس قدر گہرے ہیں۔

لندن کے دنگے اور ناروے کا قتل عام مغرب کے لوگوں کو آئینہ دکھاتا ہے کہ ان کی اپنے تہذیب اور ثقافتی کی سمجھ کس قدر سطی ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کو پرتشدد اور جمہوریت میں یقین نہ رکھنے والا ہونے کا الزام لگاتے ہیں کہ لیکن یہ خود کس قدر پر تشدد ہیں اور ان کو تعصب کس قدر ہے۔ ہٹلر کو اپنے ناری فلسفے سے جرمنی کے لوگوں کے تخیل پر قبضہ کرنا قطعی مشکل نہیں تھا جب کہ جرمنی کے تہذیب کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ ،برطانیہ اور دوسرے ممالک کے اشتراک سے ایشیا او رافریقہ میں جنگ کررہے ہیں ۔ اس مقصد کے لئے فوجیوں کی تقرری جاری ہے اور اس تشدد کو جائز ٹھہرانے کے پروپگنڈہ میں لگے ہیں اور اس کا اثر ان  نوجوانوں پرہورہا ہے جس اس جنگ میں بطور فوجی شرکت کررہے ہیں۔ یہ ان کی نفسیانیت کو بتاتا ہے ۔ امریکہ کا قرض کا بحران ،حالانکہ وہ اسے قبول نہیں کرتا ہے، کے سبب عراق اور افغانستان میں غیر ضروری جنگ نے پوری یوروپ میں اقتصادی بحران پیدا کردیا ہے اور اس سے اقتصادی سماجی پریشانیاں اور نوجوانوں میں مایوسی پیدا ہوگئی ہیں۔

ہم سب میں پرتشدد رجحانات ہیں او رہم سبھی کو اسے قابو میں رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہمیں بار بار اپنے تعلیمی نظام کے ذریعہ ہمدردی ، انصاف ، انسانی وقار ،اچھائی میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا اور انکساری وغیرہ جیسے بنیادی اقدار پرزور دینا چاہئے ۔لیکن اگر ہم ہر وقت مقابلہ کرنے ،دوسروں کی قیمت پر خود حاصل کرنے ،اپنی طاقت کا اظہار کمزور طبقات پر کریں گے تو یہ پرتشدد رجحانات کو ہی فروغ دے گا اور یہ رجحانات ہمیں بھی نقصان پہنچائیں گے۔ پرانی کہاوت ہے کہ جو دوسروں کے لئے گڑھا کھودتا ہے وہ خود بھی اس میں گرتا ہے، اور یہ کہاوت عقل پر منبی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی سماج نے انسانی وقار اور انسانی حقوق کے تصور کو تیار کیا ہے لیکن ان کا حکمراں طبقہ ہی خود ان معیار اور اقدار کا سب سے بڑا خلاف ورزی کرنے والا ہے۔ مغربی سماج جو ہمیشہ رواداری کی بات کرتا ہے وہ دوسروں کے تئیں عدم روادار ہورہا ہے ۔ کیا یہ لوگ ناروے اور لندن کے واقعے سے کچھ سیکھیں گے؟

اصغر علی انجینئر ممتاز اسلامی اسکالر ہیں اور ممبئی کے سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرزم کے سربراہ ہیں۔

انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن ،نیو ایج اسلام ڈاٹ کام

URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-end-multi-cultural-environments/d/5889

Loading..

Loading..