New Age Islam
Tue Dec 03 2024, 10:56 AM

Urdu Section ( 5 Nov 2011, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Concept of Heaven And Hell جنّت اور جہنّم کا تصور

اصغر علی انجینئر  (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن ،  نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)

میرے دوست اکثر مجھ سے جنت اور جہنم کے تصور کے بارے میں پوچھتے ہیں؟کیا یہ کہیں پر واقع ہے جہاں انسانوں کو ان کے اچھے یا برے کاموں کے مطابق داخل کرایا جائیگا۔یا یہ صرف ان لوگوں کے لئے علامتیں ہیں جو قرآن کے باطنی معنی میں یقین رکھتے ہیں؟ کیا یہ جگہیں مادّی معنوں میں ہیں جہاں لوگ ہمیشہ کے لئے رہیں گے؟اصل میںیہ اسی طرح ہے جیسے لوگ پیغمبر محمدﷺ سے قیامت کے دن کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے۔

یہ کافی اہم ہے کہ قرآن دوسرے صحیفوں کی طرح وضاحت کے مقابلے علامتی زیادہ ہے تاہم مکمل طور پر علامتی نہیں ہے۔ہمیشہ کے لئے رہنے والا کوئی بھی صحیفہ صرف وضاحت بیان کرنے والا نہیں ہو سکتا ہے۔علامتی ہونے کے سبب یہ قرآن کو کئی معنی والا اور ساتھ ہی ساتھ استعمال کے معاملے میں دائمی بناتا ہے۔صحیفے یکساں طور پرعام لوگوں کے ساتھ ہی ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے بھی معنی خیز ہونے چاہےۂ۔صحیفے اگر صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے ہی ہیں تو یہ عام لوگوں کو متاثر نہیں کریں گے اور اگر ہر چیز کی وضاحت ہوگی اور معنی کی کئی پرتیں نہیں ہوں گی تو اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو راغب نہیں کریں گی۔

اس طرح قرآن جنت اور جہنم کے بارے میں جو کچھ بھی کہتا ہے وہ عام لوگوں کے ساتھ ہی پڑھے لکھے افراد کو بھی متاثر کرنے والا ہونا چاہیے۔اور یقیناً قرآن میں جنت اور جہنم کادونوں لفظی اور علامتی کے ساتھ ہی ساتھ لفظی اور مخفی معنی کی تفصیل دی ہوئی ہے۔اس کے ایک اور پہلو کے بارے میں لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے اور صوفی حضرات نے اس پہلوپر خاصہ زور دیا ہے۔صوفیا ء کرام کا یقین ہے کہ کسی کو صرف لالچ یا خوف یعنی انعام اور سزا کے لئے عبادت نہیں کرنی چاہےۂ۔

معروف صوفی سنت رابعہ بصری کی کہانی میں یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ایک دن وہ ایک ہاتھ میں آگ اور ایک ہاتھ میں پانی کی بالٹی لئے جا رہی تھیں۔جب لوگوں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں، تو انہوں نے فرمایا میں اس شعلے سے جنت میں آگ لگانااور اس پانی سے جہنم کی آگ بجھانا چاہتی ہوں تاکہ لوگ صرف جنت کی لالچ اور جہنم کے خوف سے اللہ کی عبادت کرنا چھوڑ دیں۔ ایک سچا بندہ صرف ان سب چیزوں کے لئے اللہ کی عبادت نہیں کرے گا بلکہ وصف حاصل کرنے کے لئے کرے گا۔اس کہانی کا باقی حصہ مذید آگے۔

قرآن علامتی اور سیدھی وضاحت کرنے والی زبان کے معاملے میں حیرت انگیز طور پر متوازن کتاب ہے۔اس سے عام پڑھنے والا اسی طرح مستفید ہوتا ہے جیسے کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتا ہے۔صاحب عقل بھی اندھا عقیدہ کرنے والوں کی ہی طرح اسے مفید پاتے ہیں لیکن تفہیم کے لحاظ سے دونوں کے درمیان بہت فرق ہے ۔متضلہ(اسلام کے ذی عقل لوگ)، اسمٰعیلی(وہ لوگ جو قرآن کے پوشیدہ اور لفظی معنی میں یقین رکھتے ہیں) کے ساتھ ہی صوفیوں نے قرآن کو دوسرے ظاہری  (Literalist) لوگوں سے بہت الگ سمجھا ہے۔

ظاہری لوگوں کے نزدیک قرآن میں جنت اور جہنم کو مادّی معنی میں واضح طور پر تفصیلات بیان کی گئی ہیں،جیسے جنت ایک ایسی جگہ ہوگی جہاں دائمی باغات ہوں گے جس میں دودھ اور شہد کی ندیاں جاری ہوں گی وغیرہ وغیرہ، اور جہنم جہاں آگ ہوگی اور وہ جسمانی تکالیف دینے والی ہوگی اور اس سے کوئی بچ نہیں سکتا ہے۔ جنت کی تفصیلات لالچ پیدا کرنے والی اور جہنم کی خوف پیدا کرنے والی ہیں۔جہنم کا ذکر کچھ اس طرح کا ہے کہ کوئی بھی ڈر سے کانپنے لگے۔

تاہم جو اعلیٰ علم رکھتے ہیں اسے علامت کے طور پر لیتے ہیں اور معنی کے لئے اس کی گہرائی میں جاتے ہیں۔قرآن جنت کو امن و سلامتی کا مقام بتاتا ہے اور کہتا ہے: ’جو متقی ہیں وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ (ان سے کہا جائے گا کہ) ان میں سلامتی (اور خاطر جمع سے) داخل ہو جاؤ۔اور ان کے دلوں میں جو کدورت ہوگی ان کوہم نکال کر (صاف کر) دیں گے (گویا) بھائی بھائی تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔نہ ان کو وہاں کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔‘(15:45-48(

جنت میں رہنے والے مومن کو سب سے پہلے مکمل امن و سلامتی کی حالت میں ہوگا۔وہاں نہ خوف ہوگا اور نہ ہی شک، بے چینی اور خوف کا احساس ہوگا۔صرف ایک کامل انسان ہی اس ذہنی مرحلے سے گزر سکتا ہے۔شک کرنے والا اورمنکر اور غیر کامل انسان دل میں اس امن اور سلامتی کو محسوس نہیں کر سکتا ہے۔صوفی حضرات ایسے ہی انسان کامل کا ذکر کرتے ہیں۔ان کی تمام تر کاوشیں انسان کامل کی حالت کو پہنچنا ہے اور ایسا شخص مکمل امن کے ساتھ ہے۔

اس کے علاوہ کمال کے کئی مراحل ہیں اور سبھی کو کمال کے اعلیٰ سے اعلیٰ مراحل تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔یہ کہنا غلط ہے کہ جنت آرام اور مزے کرنے کی جگہ ہے۔اس سے بہت الگ یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں خود کو اعلیٰ مراحل کی جانب لے جانے کی مسلسل کوشش کی جاتی ہے۔اس سلسلے میں قرآن کہتا ہے: ’لیکن جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے لئے اونچے سے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالاخانے بنے ہوئے ہیں۔‘ (39:20) اس طرح جنّت ہمیشہ کے لئے آرام اور مزے کرنے کا مقام نہیں ہے بلکہ کمال کے مزید مراحل کے لئے روحانی کوششوں کوکرنے کی جگہ ہے۔

یہ اس معنی میں لاگو ہوتا ہے کہ یہ مسلسل کاوشیں ہیں اور ایک بار آپ نے کمال کے کسی مرحلے تک رسائی حاصل کر لی تو پھر مڑ کر دیکھنا نہیں ہوتا ہے اور وہ شخص مسلسل آگے بڑھتا رہتا ہے اور ایسی کاوشوں میں بہت لطف بھی آتا ہے۔جتنا کوئی کوشش کرتا ہے وہ اتنا ہی سکون حاصل کرتا ہے۔

اسی طرح جہنم عمیق علم رکھنے والوں کے لئے ایک مقام ہے۔ذہن کی ایسی کیفیت ہے جو اپنے مذہب میں یقین کی پختگی کے معاملے میں بہت کمزرو ہے لیکن ایسا شخص مسلسل شک اورانکار کی حالت میں رہتا ہے اور اس طرح عذاب کی حالت میں رہتا ہے اور یہ شک اورمنکر ہونے کی ہی آگ ہے جو اس پر عذاب کے طور پر نازل رہتی ہے اور جنت کے معاملے میں جس طرح لوگ کمال کے اعلیٰ درجات پر بڑھتے جاتے ہیں اسی طرح جہنم میں رہنے والے پستی میں مزید گرتے جاتے ہیں۔جتنا پستی میں کوئی جائے گا اتنا ہی عذاب اس پر ہوگا۔تاہم قرآن کہتا ہے کہ مخلصانہ طور پر توبہ کرنے والے کو اس طرح کے عذاب سے رہائی مل سکتی ہے۔

ایک شخص کے پاس ہمیشہ یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ کمال کے اعلی سے اعلی درجات پر پہنچے یا پھر پستی سے مزید پستی کی حالت کو پہنچے۔

اصغر علی انجینئر ممتاز اسلامی اسکالر ہیں ۔وہ سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکو لرزم،ممبئی کے سربراہ ہیں۔

URL for English article: http://www.newageislam.com/islam-and-spiritualism/on-the-concept-of-paradise-and-hell/d/5497

URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-concept-heaven-hell-/d/5842

Loading..

Loading..