اصغر علی انجینئر
(انگریزی سے ترجمہ‑
سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
(اسلام اینڈ ماڈرن ایج، اپریل، 2012)
وہ لوگ جو تصوف کو مغالطے کے طور
پر اس کی مخالفت کرتے ہیں ایک سوال کھڑا کرتے
ہیں- کیا اسلام وہی ہے جو تصوف ہے؟ تو پھر
تصوف کیوں، اسلام ہی کافی ہے، اور کیا تصوف اسلام کے خلاف ہے؟ تو پھر ہمیں تصوف کی
ضرورت نہیں ہے۔ ایسے بہت سے لوگ جو نہ تو اسلام اور نہ ہی تصوف کے بارے میں جانتے ہیں
وہ مغالطے کے طور پر اس طرح کے سوال کھڑے کرتے
ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسرے مذاہب یا نظریات کی ہی طرح اسلام میں کئی رجحانات ہیں اور
اسلام میں بھی کئی رجحانات، فرقہ اور نظریہ ہیں۔
تصوف ان میں سے ایک ہے۔
اصل میں کوئی بھی اس طرح کے رجحانات
کے لئے سوالات کھڑے کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کیا وہابی نظریہ وہی ہے جو اسلام ہے؟
پھر ہمیں اسلام کی ضرورت ہے نہ کہ وہابی نظریہ کی یا کیا وہابی نظریہ اسلام کے خلاف
ہے؟ تب ہمیں اسلام کی ضرورت ہے نہ کہ وہابی نظریہ کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی مغالطہ آرائی
کا اظہار جہالت کو دھوکہ دیتا ہے، جیسا کہ مندرجہ بالا میں نشاندہی
کی گئی ہے۔ اصل میں ہر رجحان کچھ وجوہات کی بناء پر ابھر کر سامنے آتا ہے۔ جو لوگ
اسے سماجی، سیاسی اور تاریخی نقطہ نظر سے نہیں لیتے اور ہر چیز کو
فقہہ کے طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں وہی اس طرح کی غلطی کرتے ہیں۔
کوئی مذہبی یا نظریاتی رجحان
دئے گئے سماجی تاریخی یا سماجی و سیاسی حالات میں ابھر کر سامنے آتا ہے اور ایک مخصوص
رجحان کو سمجھنے کے لئے ان حالات کو جاننا ضروری ہے۔ تصوف بھی کچھ ٹھوس حالات میں ابھر
کر سامنے آیا اور اسی طرح تصوف جو وہابی نظریے کی مذمت کرتا ہے۔ دونوں بالکل ہی مختلف
سماجی و سیاسی حالات میں ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ اور یہ حالات میں ایک دوسرے کے بالکل
برعکس تھے۔
صوفی حضرات کے مطابق نبی کریم
محمد صلی علیہ وسلم پہلے صوفی تھے اور کچھ کے مطابق حضرت علی پہلے تھے۔ بہر حال جو
بھی رہا ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور
حضرت علیؓ میں وہ خصوصیات تھیں جن سے صوفی حضرات ترغیب پاتے ہیں۔ ہم اس کے بارے میں
تھوڑی دیر بعد بات کریں گے۔ لیکن پہلے یہ قابل غور ہے کہ وہ حالات جن میں اسلام میں یہ رجحانات پیدا ہوئے وہ ایک دوسرے کے برعکس تصور
کئے جاتے ہیں۔ یہ بھی قابل ذکر ہونا چاہئے کہ اگرچہ فقہی اعتبار سے یہ ایک دوسرے کی
مخالفت کر سکتے ہیں لیکن ہم سماجی اور نفسیاتی
نقطہ نظر سے اس پر بات کریں تو ایسا ہونا ضروری
نہیں ہے۔ کسی بھی رجحان کو اس کی تمام تر پیچیدگییوں کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔
تصوف دوسری صدی حجری میں تب
ظہور پزیر ہوا جب دو مسلم شاہی گھرانوں بنو امیّہ اور
عباسیوں کے درمیان سیاسی جدوجہد اپنے
عروج پر تھی۔ یہ سیاسی اقتدار کے لئے ایک دوسرے سے جدو جہد کر رہے تھے اور اپنی لڑائی
کو جائز ٹھہرانے کے لئے اسلام اور بعض نام نہاد مذہبی اصولوں کا استعمال
کرتے تھے۔ اقتدار کی اس جنگ میں بہت زیادہ خون بہا اور لاکھوں مسلمان اس میں جاں بحق ہوئے۔
اس طرح اسلام اقتدار کی اس
جنگ میں اپنی روحانیت کو کھو رہا تھا اور اقتدار
پر قبضہ کرنے کے لئے ایک سیاسی آلے کے طور پر محدود ہوتا جا رہا تھا۔ کچھ لوگ جو سیاسی
اقتدار کے خلاف تھے اور جن کے لئے مذہب طاقت کے ذرائع سے زیادہ روحانی معاملہ تھا، مسلمانوں کے درمیان اس خون خرابے سے برہم تھے
اور اس طرح کے جدوجہد سے خود کو الگ کر لیا اور روحانی ہونے کے لئے ضروری سادہ زندگی
بصر کرنا شروع کر دیا۔
اس مدت کے دوران ہمارے سامنے
دو عظیم نام ابھر کر سامنے آتے ہیں اور دلچسپ طور پر ان میں سے ایک مرد
اور ایک عورت یعنی حضرت حسن بصریؒ اور حضرت رابعہ بصریؒ ۔ دونوں کا انتہائی احترام
کیا جاتا ہے اور دونوں نے خود کو سیاسی جدوجہد سے دور رکھا اور روحانی طریقہ زندگی
گزارنے کے لئے خود کو وقف کر دیا۔ تاہم حضرت رابعہ بصریؒ نے اپنی زندگی کو بنیادی طور
پر روحانی طریقے پر وقف کیا تھا، اور حضرت
حسن بصریؒ بھی سماجی طور پر فعال تھے اور عالمانہ سرگرمیوں میں لگے ہوئے تھے۔ لیکن
ان کے کوئی بھی سیاسی عزائم نہیں تھے۔
حضرت حسن بصریؒ بنو امیّہ کے قسمت کے اصول کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا اور اس کی بجائے
حضرت امام حسنؓ کے ذریعہ حضرت معاویہ کو لکھے گئے خط کا حوالہ دیتے ہوئے آزادانہ مرضی
کے نظریے کی حمایت کی۔ بنو امیّہ قسمت کے اصول کو فروغ دے رہے تھے تاکہ ان کے اقتدار
کو مسلمان اللہ کی مرضی مان کر قبول کر سکیں۔
حضرت حسن بصریؒ کا مسلمان انتہائی احترام کرتا تھا اور آپ نے بہت ہی سادہ اور روحانی
زندگی گزاری۔ وہ بڑی تعداد میں لوگوں کو قرآن
کی تعلیم دیتے تھے اور ان کے ہی ایک شاگرد نے
المعتذلۃ فرقے کی بنیاد رکھی۔
حضرت رابعہ بصریؒ کا بھی انتہائی
احترام کیا جاتا تھا اور بہت سادہ زندگی آپ نے گزاری اور آپ کے بہت سے ماننے والے
بہت سے معجزات ان سے منسوب کر تے تھے۔ ایک اہم اصول جس پر صوفی حضرات یقین رکھتے ہیں
توکّل یعنی اللہ پر مکمل انحصار۔ ان میں سے بہت سے لوگ روزی روٹی حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کوشش نہیں کرتے ہیں کیونکہ اللہ انہیں سب کچھ فراہم کرے گا۔ وہ انتظار
کرتے ہیں کہ کوئی ان کے لئے کھانا لائے گا
اور بھوکے رہ جاتے ہیں اگر کوئی ان کے لئے کچھ بھی نہیں لاتا ہے۔ اسے بھی اللہ کی مرضی
تصور کرتے ہیں۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ
'صوفی' لفظ صف سے بنا ہے جس کا عربی میں مطلب اون سے ہے کیونکہ یہ
صوفی حضرات ڈھیلہ اونی لباس پہنتے تھے کیونکہ
یہ لوگ سادگی سے زندگی گزارنے میں یقین رکھتے تھے۔ اگرچہ بعض علماء کرام اس لفظ کی
اس اصل کو رد کرتے ہیں لیکن باوجود اس کے یہ
ایک مقبول عقیدہ ہے۔ یہ قابل غور ہے کہ صوفی حضرات عام طور پر حکمران خلیفہ یا بادشاہ
کی عدالت میں حاضری نہیں دیتے تھے۔ کچھ تو تب بھی نہیں جایا کرتے تھے جب حکمران کی
طرف سے طلب کیا جاتا تھا۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے
بارے میں مشہور کہانی ہے جنہوں نے نہ صرف بادشاہ کی عدالت میں جانے سے انکار کر دیا
بلکہ اپنے شاگرد حضرت خسروؒ کو بتایا کہ جب انہیں بتایا گیا کہ بادشاہ خود ان سے ملنے
آ ئیں گے تو " اگر بادشاہ ایک دروازہ سے میری خانقاہ میں آتے ہیں تو میں دوسرے دروازے سے نکل جائوں گا .. " ان صوفی حضرات کا یقین تھا
کہ حکمران استحصال کرنے والے ہیں اور سیاسی
طاقت حاصل کرنے کے لئے خون بہانے سے بھی نہیں ہچکچاتے ہیں۔ وہ لوگوں کی خدمت نہیں کرتے
ہیں بلکہ لوگ ان کی خدمت کرتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ بہت سے صوفی حضرات
نے حکمرانوں سے زمین بطور تعاون قبول کیا تھا لیکن غریب لوگوں کے لئے کھانے کا نظم
کرنے کے لئے اس زمین سے حاصل ہونے والی آمدنی
کا استعمال کیا۔ ان لوگوں نے بھی عوام کی روحانی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار
ادا کیا۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں صرف اپنے قانونی مسائل کے لئے علماء کے پاس
جاتے ہیں اس کے علاوہ ان کا احترام نہیں کرتے ہیں۔ ہم کسی عالم کی ایک ایسی
قبر تلاس نہیں کر پاتے ہیں جہاں لوگ جاتے ہوں جبکہ صوفی سنتوں کی قبریں لوگوں
کی عظیم توجہ کے مراکز ہیں۔
اس وجہ سے خاص طور پر بہت
سے علماء صوفی حضرات سےحصد کیا کرتے تھے کہ وہ عوام میں اپنی زندگی کے دوران اور موت کے بعد بھی
انتہائی مقبول تھے۔ علماء عام طور پر حکمرانوں
کی عدالت میں ( بے شک چند مستثنیات کے ساتھ) عہدوں کو قبول کیا اور اس طرح وہ استحصال
کرنے والے طبقے کے حصے کے طور پر مانے گئے جبکہ صوفی حضرات نے نیک اور روحانی ہونے
کے سبب حکمرانوں سے دوری بنائے رکھا۔
دوسری جانب اسلام کے وہابی
فرقہ، 18ویں صدی میں اب کے سعودی عرب میں ظہور پزیر ہوا۔ جب محمد عبد الوہاب نام کے
ایک'عالم' نے مسلمانوں کو مدینہ میں
پیغمبر محمد صلی علیہ وسلم کے روضہ
مبارک پر عبادت، نوحہ اور وسیلہ حاصل کرتے اور بہت سے معجزات کو ان سے
وابستہ کرتے دیکھا۔ وہ اپنے انداز میں کٹر تھے اور لوگوں کو پیغمبروں اور سنتوں سے اپنی پریشانیوں کو دور کرنے
والا بتانے سے برہم تھے۔ ان کا یقین تھا کہ کوئی سنتوں سے وسیلہ کے لئے دعا نہیں کر
سکتا ہے اور صرف اللہ سے دعاء کر سکتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ 18 ویں صدی تک صوفی حضرات کے عمل میں بہت زوال آ گیا تھا۔ تصوف
کو مطلب بدعنوان طاقتوں اور اس میں شامل مومنوں کی بے وجہ خون بہا کے خلاف بغاوت تھی کیونکہ
تصوف کا پورا زور سادگی، ایمانداری، اور نیک زندگی گزارنے پر تھا۔
یہ تقوی اور بے غرضی ہے جس نے صوفی
حضرات کو عوام کے درمیان مقبول بنایا اور وہ عوام کے لئے مثالی بن گئے۔ اس طرح تصوف
نے اسلام کو دوبارہ موزوں بنا کر، جس کے لئے
اسلام کا ظہور ہوا تھا کے ذریعہ ایک نہایت
اہم ضرورت کو پورا کیا، کیونکہ خود مومنوں نے اقتدار کی جدوجہد کے لئے اس کا غلط استعمال
کیا اور تصوف نے اس کی جگہ لے لی۔ اس طرح ایک وقت پر تصوف نے عظیم سماجی اور تاریخی
ضرورت کو پورا کیا۔
وہابی نظریہ نے بھی ایک حد
تک ایک مذہبی ضرورت کو پورا کیا لیکن اس نے تصوف کی مذمت کی اور اسے پوری طرح مسترد
کر دیا۔ وہابی نظریہ انتہا پسند بن گیا اور عوام کو ان کے روحانی ضرورت سے محروم کر
دیا۔ بے شک تصوف معجزات میں توہّم پرستی کے
عقائدکے بارے میں نہیں ہونا چاہئے بلکہ عوام کے درمیان بعض مقبول عمل اور عقیدے میں اصلاحات کے لئے ہونا چاہئے اور نہ کہ
اسے مکمل طور پر مسترد کیا جانا چاہئے جو مذہب کے اصل
اور اسلام کے روحانی پہلو پر زور دیتا ہے۔
لیکن وہابی نظریہ کے ماننے
والے صوفی اسلام کو نہ صرف مسترد کرتے ہیں اس میں یقین رکھنے والوں کو کافر کہتے ہیں۔ ہندوستان میں وہابی دیوبندی کے طور
پر جانے جاتے ہیں کیونکہ دارالعلوم دیوبند وہابی تعلیمات کا مرکز ہے اور صوفی اسلام
میں یقین رکھنے والے بریلویوں کے طور پر جانے
جاتے ہیں، کیونکہ صوفی اسلام کا مرکز اتر پردیش
کے بریلی میں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی مذمت کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے تعلق رکھنے والی مسجد میں یا ایک دوسرے
کے پیچھے نماز ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ صوفی
اسلام ان تہذیبوں میں پھلا پھولا جن کی طویل
ثقافتی تاریخ ہے اور وہابی اسلام نجد میں پھلا
پھولا جو ایک خشک ریگستان تھا جس کی کوئی خاص ثقافت نہیں تھی۔ تصوف ایک انسان کی اندرونی
شخصیت اور جو کچھ اس سے وابستہ ہے، پر زور
دیتا ہے اور داخلی بصیرت کسی کےوجود میں تب پیدا ہو سکتی ہے جس کی ثقافت
کی زرخیز تاریخ والی ہو اور جس شخص کے اندر
غور و فکر اور فلسفیانہ بصیرت ہو۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ صوفی
اسلام عراق، ایران، مصر، وسطی ایشیائی علاقوں، ہندوستان اور جنوبی مشرقی ایشیا میں
سر سبز ہوا کیونکہ یہ علاقے بہت زرخیز تہذیبی تاریخ اور ثقافت والے تھے۔ صوفی فکر کے
تمام عظیم مکتب فکر ایران، عراق، اور وسطی ایشیا کے علاقے میں پیدا ہوا۔ صوفی حضرات
قرآنی آیات کے باطنی معنی میں یقین رکھتے ہیں، اور ان کے مطابق یہی باطنی معنی قرآن
کا نچوڑ تھا۔
قرآن آیات کا یہ باطنی مطلب
بغیر فلسفیانہ اور زرخیز روحانی روایات کے ریگستانی حالات میں سامنے
نہیں آ سکتا تھا۔ یہ زرخیز تہذیبی علاقوں
میں ہی ممکن تھا جو صوفی اسلام کے مراکز بن گئے تھے۔ مثال کے طور پر محی الدین ابن العربی اور ان کے مکتب فکر جسے وحدت
الوجود کہا جاتا ہے، کو لیں، جو صوفی مکتب فکر کے سب سے مقبول مکتب فکر میں سے ایک
ہے اور جو جنوبی ایشیائی خطے میں ترقی پایا۔
ان کی تصنیف فصوص الحکام فلسفیانیہ بصیرت انسان کے باطنی وجود کے بارے میں ہے۔
ابن العربی توحید کے اصول
پر زور دیتے تھے (خدا کی وحدانیت کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی وجود صرف ایک ہے اور ہم سب کا وجود بھی اس سے ہی ہے)۔ اس طرح ایک ہی وجود سے
تمام بنی نوع انسان کے ہونے کا فلسفہ سب کو شامل کرنے کا فلسفہ ہے اور اس نے علیحدگی
کی تمام دیواروں کو منحدم کر دیا۔ صوفی، خاص طور سے وحدت الوجود مکتب فکر کے صوفی کافی آزاد خیال اور
سب کو ساتھ لے کر چلنے والے رہے ہیں۔ ابن العربی نے بھی پوری انسانیت سے محبت کرنے
پر زور دیا ہے۔ انہوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ حبّی میری شریعت اور میرا مذہب ہے۔
ایک اور عظیم صوفی مولانا
روم جو اپنی مثنوی کے لئے مشہور ہیں اور جسے
فارسی زبان کا قرآن کہتے ہیں۔ مولانا روم نے بھی پوری انسانیت سے محبت کرنے پر زور
دیا ہے اور یہاں تک کہا ہے کہ میری اصل پہچان محبت ہے۔ مولانا روم کی مسلمانوں کے علاوہ تمام مذاہب‑ یہودی، عیسائی اور
آتش پرست احترام کرتے ہیں اور انکی آخری
رسومات میں سبھی مذاہب کے لوگ شامل تھے۔ وہ
سبھی آہ و زاری کر رہے تھے کہ آج ان کا پیغمبر نہیں رہا۔ صوفی حضرات کی سب کو شامل
کرنے کا عمل ان کاعظیم کام تھا۔
جنوبی ایشیا کے چشتی صوفی
حضرات- بابا فرید، اجمیر کو خواجہ حضرت معین
الدین چشتی اور دہلی کے حضرت نظام الدین اولیاء
اور گلبرگا شریف کے بابا گیسو وغیرہ کا پورے ہندوستان میں تمام مذاہب کے ماننے والے
احترام کرتے ہیں۔ آج بھی مسلمانوں کے مقابلے ہندو ان کی درگاہ پر زیادہ جاتے ہیں۔ ان صوفی حضرات نے تمام مذاہب کے برابر احترام کا مظاہرہ کیا کیونکہ
ان کے لئے روحانیت تمام مذاہب کی مشترک خصوصیت ہے۔ ان کے لئے دین ایک ذریعہ نہیں بلکہ ایک روحانی مقصد تھا۔
یہ صوفی سنت مقامی ثقافتوں اور
زبانوں کے خلاف کبھی نہیں تھے بلکہ مقامی ثقافتوں، رسوم و رواج اور روایات کے ساتھ
خود کو مربوط کیا۔ خواجہ حسن نظامی نے اپنی کتاب فاطمی دعوت اسلام میں تفصیل سے ذکر کیا ہے کہ کس طرح صوفی حضرات مقامی
رسوم و رواج اور روایات کو اپنایا اور انہیں صوفی عمل کا حصہ بنا دیا۔ خواجہ حسن نظامی
کےمطابق پالکی میں چندن کی لکڑی کو لے جا کر
صوفی کی قبر کو غسل کرانے کی رسم، ہندو مندروں کی رسم تھی جسے صوفی حضرات نے اپنایا
تھا اور مورتی کی جگہ صوفی سنت کی قبر سے منتقل
کر دیا تھا۔
ناگور ، راجستھان کے صوفی
سنت حمید الدین ناگوری نے مقامی ہندوئوں کے جذبات کا احترام کرنے کے لئے گوشت کھانا
چھوڑ دیا اور ہمیشہ اپنے پاس ایک گائے رکھتے تھے۔ وہ اپنے ان شاگردوں سے بات نہیں کیا
کرتے تھے جو گوشت کھانے کے بعد ان کے پاس آتے
تھے۔ انہوں نے اپنے شاگردوں کو ہدایت کی تھی کہ ان کے پاس نہ آئیں اگر انہوں نےگوشت کھایا ہے۔ اگرچہ تمام صوفی حضرات اس
حد تک نہیں گئے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے طریقے سے مقامی ثقافت اور مذہبی روایات کا
احترام کرتے تھے۔
علماء کے برعکس ان صوفی حضرات
نے کسی بھی مذہب، ذات یا طبقے کے خلاف کسی بھی طرح کے تعصب کا اظہار نہیں کیا اور امتیاز
کی تو بات ہی مت کیجئے۔ انہوں نے سبھی کا برابر
سے احترام کا برتائو کیا۔
دوسری جانب علماء نے نہ صرف
ہندوؤں کو کافر سمجھ کر ان سے دوری بنائے رکھی اور اسلام کو مقامی رسوم و رواج اور روایات جو کفر کی جانب لے جاتی
ہیں ان سے پاک کرنے کے لئے مہم چلائی۔
دوسری جانب صوفی حضرات نے
اپنے طریقہ کار میں انہیں اپنایا اور سمویا۔
صوفی حضرات کی اس کشادہ خیالی کے نتیجے میں
مختلف مذہبی فرقوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں مدد کی۔ شہنشاہ اکبر جنہوں
مختلف مذاہب کے علماء کرام کو اپنے دربار میں
بات چیت کے لئے مدعو کیا اور وہ دو صوفی بھائیوں ابوالفضل اور فیضی سے بہت متاثر تھے
جو روایتی علماء کے ظلم کا شکار رہے اور اس
سے بچنے کے لئے اکبر کے دربار میں پناہ چاہتے تھے۔
ایک اور عظیم مثال شاہ جہاں کے بڑے بیٹے دارا شکوہ نے قائم کی، جس
نے مغلیہ سلطنت کو اورنگ زیب کے ہاتھوں میں
جانے دیا۔ داراشکوہ نے ہندو صحیفوں جیسے اپنیشد
کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور یہاں تک کہ ان
میں سے کچھ کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ انہوں
نے ایک دلچسپ کتاب لکھی اور اس کا نام بہت نمایاں طور پر مجمع البحرین کہا۔ انہوں
نے نتیجہ نکالا کہ دونوں مذاہب کی تعلیمات
یکساں ہیں لیکن فرق صرف زبان میں ہے، ان میں
سے ایک سنسکرت میں اور دوسرا عربی میں ہے۔
اس طرح دارا شکوہ لاہور کے
عظیم صوفی سنت میاں میر کے شاگرد کے شاگرد
تھے جنہیں ہر مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے مدعو کیا، جسے گولڈن ٹیمپل بھی کہا جاتا
ہے۔ صوفی حضرات کا موسیقی کے میدان میں بھی
اہم شراکت ہے جسے انہوں نے ہندوستانی
کلاسیکی راگوں سے اپنایا تھا۔
علماء ہمیشہ موسیقی کی مذمت کرتے تھے اور اسے حرام قرار دیتے
تھے اور اسے سیکھنا یا بجانا گناہ سمجھتے تھے۔ تاہم، صوفی سنت محفل سماع کا اہتمام
کیا کرتے تھے، جسے سن کر وہ سرمستی کے عالم
میں چلے جاتے تھے۔ اس سیشن کو تکنیکی طور پر
قوّالی کے طور پر جانا جاتا تھا جو ہندوستانی کلاسیکی راگوں پر مبنی ہوتا تھا اور جسے حضرت نظام الدین اولیاء کے مشہور شاگرد حضرت امیر
خسرو نے ایجاد کیا تھا۔ قوالی صوفی محفل سماع جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ
مقبول ہو گیا اور زیادہ تر صوفی حضرات اس میں شرکت کرتے تھے۔
حضرت نظام الدین اولیاء کی
مقبولیت سے حسد کرنے والے علماء کرام نے ان پر اسلامی شریعت کی خلاف ورزی کا الزام تھا کیونکہ وہ باقاعدگی
کے ساتھ ان محفلوں میں شرکت کرتے تھے۔
علماء کرام نے بادشاہ سے اس کی شکایت کی اور جس نے جواب طلب کرنے کے لئے دربار میں
بلایا گیا، صرف اسی موقع پر وہ بادشاہ کے دربار میں آئے۔ انہوں نے کچھ احادیث کی بنیاد
پر اپنے رخ کا دفاع کیا اور چلے گئے۔
اصل میں اسلام بنیادی طور پر موسیقی پر پابندی نہیں عائد کرتا ہے جسے 11-12 ویں
صدی کے اسلام کے عظیم مفکر امام غزالیؒ نے
بڑے شاندار طریقے سے پیش کیا ہے۔ اسلام موسیقی پر تبھی پابندی لگاتا ہے جب یہ صرف تفریح کے
لئے ہو اور جسے قرآن کے مفہوم کے مطابق جو کچھ بھی
بغیر کسی سنجیدہ مقصد کے بجائے کھیل اور تفریح کے
لئے کیا جاتا ہو۔ موسیقی جو فطرت میں مذہبی
ہو اور جو ایک شخص کو اللہ پر اپنی توجہ مرکوز کرنے میں مدد کرتی ہو اسے حرام کے زمرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا ہے۔
امام غزالیؒ نے تفصیل سے اپنے رسالہ میں اس پر گفتگو کی ہے۔
چھوٹی ذات کے ہندوئوں جو مرکزی
دھارے کے ہندو مذہب سے خارج کئے گئے ہیں اور جنہیں حاشیہ پر ڈال دیا گیا تھا، ان کے تئیں بھی سوفی حضرات نے وقار اور احترام کا اظہار کیا ہے اور اسی کے سبب
نچلی ذاتوں کے ہندوؤں بھی اسلام کی طرف متوجہ
ہوئے اور ان میں سے بہت سے لوگوں نے اپنے مذہب
کو تبدیل کر دیا تھا، تاہم اس بات کے کوئی
دستاویز نہیں ملتے ہیں کہ صوفی حضرات نے ان
لوگوں کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کے لئے حوصلہ
افزائی کی۔ مذہبی تبدیلی اس لئے زیادہ ہوئی کیونکہ ان خارج کئے گئے اور پسماندہ ہندوؤں نے بہت مساوات کے اصول بہت پرکشش
پایا۔ تاہم، مرکزی دھارے کی اسلامی معاشرے نے بھی ان کے خلاف امتیازی سلوک کا عمل کیا
اور جس سے وہ اعلی مقام حاصل نہیں کر سکے۔
دور سلطنت کے ایک معروف
مؤرخ اور عالم ضیاء الدین برنی انہیں
تعلیم حاصل کرنے کے لائق بھی تصور نہیں کرتے تھے۔ انہیں صرف اتنا سکھایا جائے
جو کہ نماز اور تلاوت قرآن اور دوسرے اسلامی رسومات کے لئے ضروری ہو گیا تھا۔ انہوں
نے بھی ان لوگوں کو کتوں اور سوئروں کے مساوی
بتایا۔ لیکن صوفی حضرات کا ان لوگوں کے بہت
احترام اور مہذب انداز کا رویہ تھا۔
یہ وحدت الوجود مکتب فکر کے
صوفی نظریہ کی بہت بڑی عنایت ہے
وہ تمام لوگوں کو ایک اللہ کی مخلوق تصور کرتے ہیں اور اس لئے سب برابر اور قابل احترام
ہیں۔ یہ اصل میں دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے والےمعاشرے کی تخلیق کرتا ہے اور تمام قابل قبول بن گئے۔ دیگر دوسرے نہیں رہ گئے جنہیں
ناپسند کیا جا سکے۔ دیگر نہ صرف قابل قبول بلکہ احترام کے قابل بن گئے۔ دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے والے معاشرے کی تخلیق
کے لیے ہمیں اور کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
صوفی حضرات جو طاقت سے دور
رہتے ہیں ان کے نزدیک کوئی بھی حقیقی طور پر
دوسرا نہیں ہے اور دیگر کا بھی اس کے دوسرے پن کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو مذہب کے ساتھ اقتدار کو
منسلک کرتے ہیں، ان کے لئے مومن غیر مومن سے زیادہ اہم ہے یا غیر مومن
کو مسترد یا کم تر سمجھا جاتا ہے۔ اس
طرح یہ صوفی اسلام کا نقطہ نظر ہے کہ معاشرے پرامن رہا ہے اور ملی جلی ثقافت کو ترقی ملی ہے جو ہمیں وراثت میں ملی ہے اور جو
ہمارا قیمتی ورثہ ہے اور جو آج بھی ہمیں ہمارے معاشرے میں امن اور استحکام کو برقرار
رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
اس طرح کے نظریہ سے مذہب لوگوں کو جوڑنے نہ کہ تقسیم کرنے والی قوت بن جاتا ہے۔ یہ طریقہ سب سے زیادہ انسانی اور جدید
آئینی نقطہ نظر کے مساوی ہے۔
اصغر علی انجینئر اسلامی اسکالر
اور سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکو لرزم، ممبئی کے سربراہ ہیں۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islamic-ideology/sufism-a-great-contribution-to-islamic-civilization/d/7020
URL: