اصغر
علی انجینئر (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
حال
ہی میں پاکستان میں ہوئے ایک طیارہ حادثے میں ایک ہندو نوجوان جو یوتھ پارلیمنٹ کا
ایک رکن تھا ، مر گیا اور کسی نےاس کے تابوت پر ‘کافر’ لکھ دیا جس نے ایک تنازعہ کو ہوا دے دیا
اور کئی پاکستانیوں نے اس نقطہ نظر کی مذمت کی اور اس کی جگہ ایک انسانیت بھرا کام
کرتے ہوئے ان لوگوں نے ، ‘ہم تمہیں پیار کرتے ہیں ’ لکھ دیا۔ اس کے باوجود اس سے پتہ
چلتا ہے کہ کتنے مسلمان غیر مسلموں کو
کافر مانتے ہیں اور ان کے ساتھ ویسا
ہی برتائو کرتے ہیں۔ لہذا ، یہ ضروری ہےکہ اس معاملے پر کچھ روشنی ڈالی جائے۔
لفظ
کافر کو لسانی، تاریخی اور علم دین کی رو سے سمجھنا ضروری ہے ۔ سب سے پہلے آئیے اس کے معنی کو سمجھتے
ہیں۔ کفارہ کا لفظی معنی [چھپا نا ]ہے اور اسی وجہ سے امام راغب کی کلاسیکی تصنیف مفراضات القرآن میں وہ
کہتے ہیں کہ ایک کاشت کار بھی کافر ہے کیونکہ وہ
فصل اگانے کے لئے بیج کو مٹی کے نیچے چھپاتا ہے اور رات بھی کافر کہی جاتی ہے
کیونکہ وہ روشنی کو چھپاتی ہے۔
اور
علم دین کے مطابق جو حق کوچھپائے انہیں کافر کہا جاتا ہے۔ ہرایک نبیؑ اللہ کی
کی طرف سے حق لے کر آئے، جو لوگ اسے قبول کرتے ہیں وہ مومن کہلاتے ہیں اور
جو اسے قبول نہیں کرتے ہیں وہ کافر کہلاتے
ہیں کیونکہ وہ حق کو قبول کرنےسے انکار کرتے
ہیں اور اسے چھپاتے ہیں۔لیکن قرآن کے مطابق
وہ لوگ جو اللہ کی بھیجے ہوئے گزشتہ نبیوں
پر ایمان رکھتے ہیں وہ بھی مومن ہیں
کیونکہ یہ تمام انبیا ء بھی اللہ کے عطا کردہ حق کو ساتھ لائے تھے۔ چونکہ اللہ کی طرف سےعطاکی گئی
کتاب حق مشتمل تھی، انہیں بھی اہل کتاب کہا گیا۔
ان میں
سے کچھ کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے لیکن بہت سے دیگر کا نام نہیں دیا گیا ہے۔خود قرآن کے مطابق نبیوں کے نام کی فہرست مدلل
ہے، جامع
نہیں ہے۔مسلمانوں کا یقین ہے کہ تقریبا 124.000 انبیاء کرام اس دنیا میں آئے اور
قرآن بتاتا ہے کہ اللہ نے ہر امت کے لئے ایک گائیڈ (ہادی) بھیجا ہے۔
اس طرح ، اگر ایک قوم یا کتاب کا کوئی ذکر نہیں ہےتو اس کا خود
بخود یہ معنی نہیں ہونا چاہیےکہ اس قوم یا برادری کے لوگ حق چھپانے کی وجہ
سے کافر ہیں۔
18ویں صدی میں دہلی کے معروف صوفی بزرگ مظہر جان جانا ں سے
ان کے ایک شاگرد نے دریافت کیا کہ، چونکہ ہندو بت پرستی کرتے ہیں تو کیا ہمیں بطور
کافر ان کی مذمت کرنی چاہیے؟صوفی بزرگ مظہر جان جانا ں نے اس شاگرد کو علمی اور فکری
جواب لکھا۔ انہوں نے کہا کہ ہندو ، اپنے شاشتروں کے مطابق خدا میں یقین رکھتے ہیں جو
نرنکار اور نرگن ہے (یعنی بغیر روپ اور صفات کا مالک ہے) اور یہ توحید کی اعلیٰ شکل
ہے۔ ان کی مقدس کتابوں میں بت پرستی کا ذکر نہیں ہے۔
پھر
وہ قران کی اس آیت کا حوالہ دیتے ہیں جس میں
کہا گیا ہے کہ اللہ نے ہر ایک قوم میں اپنا رہنما بھیجا ہے اور وہ دلیل دیتے
ہیں کہ اللہ ایک عظیم ملک ہندوستان کو کیسے بھول سکتا ہے اور وہاں اپنا رہنما نہ بھیجے۔
رام اور کرشن بھی اسی طرح کے رہنما تھا جن کاہندو بے انتہا احترام کرتے ہیں ۔وہ یہ
بھی کہتے ہیں کہ ہندو بھی حق میں یقین رکھتے ہیں کیونکہ وہ بھی خدا کو ستیم (حق) کہتے ہیں۔جیسا کہ داراشکوہ نے اپنی تصنیف مجمع
البحرین میں اشارہ دیا ہے کہ ہندو اپنے ایشور
کو ستیم ، شیوم اور سندرم (حق، پروردگار اور
خوبصورت)کہتے ہیں ، اور قرآن میں اللہ کے
یہ تینوں نام حق ، جبار اور جمیل ہیں۔
اس طرح
صوفی بزرگ مظہر جانی جاناں دلیل دیتے ہیں کہ علم دین کے مطابق ہندو ایک خدا میں یقین رکھتے ہیں اس لئے انہیں حق کو چھپانے والا یا کافر نہیں کہہ
سکتے ہیں۔اور جہاں تک بت پرستی کی بات ہے تو اس کے لئے ایک بہت ہی دلچسپ وضاحت دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہ
ایک مقبول عمل ہے کیونکہ عام لوگوں کو خدا جو بغیر شکل کا اور صفات کا مالک ہے کو تصور کرنے میں مشکل آتی تھی انہیں عبادت کے لئے ایک ٹھوس شے درکار تھی اس لئے ان لوگوں نے ایک شکل تیار کر
لی اور اس میں ایک خدا کے عکس کو دیکھتے ہیں۔جان جنان کے مطابق جو یہ لوگ عبادت کرتے ہیں وہ ایک پتھر کا ٹکڑا نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ ایک ایشور ہے۔
پھروہ
صوفیوں کی مثال دیتے ہیں جنہیں ایک شیخ کی
ضرورت ہوتی ہے ۔ جس کی مددسے وہ اللّہ تک پہونچتے ہیں ۔ایک شیخ کی توسط کے بغیر ایک صوفی
شاگرد اللہ تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔ اسی طرح ایک عام ہندو کے لیے مورتی ایک شیخ ، ایک
توسط بن جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ مسلمان صوفی
سنتوں کی قبروں پر جا کر دعائیں کرتے ہیں اور انکے توسط کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
یہ توجہ
دینے کے قابل ہے کہ مظہر جانی جنان نے سخت موقف اختیار نہیں کیا کہ ہندو کافر ہیں بلکہ
ان کے مذہبی عقیدے کو اور عام ہندوئوں کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ وہ بت
پرستی کیوں کرتے ہیں، ۔ یہ سب کچھ جانی جاناں
کے اپنے شاگرد کو لکھے خط میں دستیاب ہے۔ خط کی تحریر بہت دلچسپ ہے۔اس کے علاوہ ، مولانا عبدالکلام آزادنے ترجمان
القرآن میں وحدت دین پر لکھی اپنی تحریروں میں تمام مذاہب میں ضروری اتحاد کو ظاہر
کرنے کے لئے ویدوں کے کئی حصوں کو بطور حوالہ پیش کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے بھی اپنی
کلاسیکی تصنیف حجت اللہ البلاغہ میں وحدت دین
کے نظرئے کو جامع طور پر پیش کیا ہے۔
تاریخی
اعتبار سے قرآن میں یہ اصطلاح مکہ کے ان لوگوں
کے لئے استعمال کی گئی ہے جنہوں نے نہ صرف
نبوت کا اور آپ ﷺ کےمشن کو ردکیا تھا
بلکہ فعال طور پر آپ ﷺ کی مخالفت کی تھی ،
آپ ﷺ اور ان کے امتیوں پر مظالم کئے
تھے۔ ان میں آپ ﷺ کے چچا ابو لہب بھی تھے جو نبی کریم ﷺ کے خلاف مہم کی قیادت کر رہے
تھے۔ تاہم ، وہاں پر ایسے بھی لوگ تھےجو غیر
جانبدار تھے اور مسلمانوں نے ان کے ساتھ معائدہ
کیا اور ان کی مدد مانگی۔
اس طرح
کافر کی اصطلاح بڑی احساس زمہ داری کے ساتھ کرنی
چاہئے نہ کہ اسلام میں یقین نہ رکنے والے تما غیر مومنوں کے لئے کیا جانا چاہیے۔ ہر انسان کے
ساتھ با وقار برتائو ہونا چاہیے وہ چاہے جس طریقے سے حق میں یقین رکھتا ہو۔ حق کی مختلف
ثقافتوں میں تجلیاں الگ الگ ہیں۔
اصغر
علی انجینئر اسلامی اسکالر اور سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکو لرزم، ممبئی کے سربراہ ہیں۔
URL for English article: http://www.newageislam.com/islamic-ideology/on-being-kafir/d/3330
URL: