New Age Islam
Thu Dec 12 2024, 11:27 PM

Urdu Section ( 22 March 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Need of Interfaith Dialogues بین مذہبی مکالمے کی ضرورت

اصغر علی انجینئر (ترجمہ سمیع الرحمٰن،  نیو ایج اسلام)

آج کی دنیا  انتہائی متنوع ہے۔ دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جویکساں اور بغیر تنوع کے ہو۔ اگرچہ ماضی میں بھی تنوع موجود تھا لیکن نو آبادکاری، سائنسی ترقی اور نقل و حمل کے ذرائع کی ترقی نے دنیا کے تنوع میں اضافہ کیا ہے اور گلوبلائزیشن نے اس کی شدت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ ماضی میں عام طور پر لوگ بہتر امکانات کے لئے اندرون ملک ہی منتقل ہوا کرتے تھے، آج لوگ روزگار اور تعلیم کے لئے دور دراز کے ممالک میں یا اس سے بھی آگے براعظموں میں جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ، یہ اپنی مخلوق کے درمیان تنوع پیدا کرنے کی اللہ کی مرضی ہے۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے، " اور اگر خدا چاہتا تو سب کو ایک ہی شریعت پر کر دیتا مگر جو حکم اس نے تم کو دیئے ہیں ان میں وہ تمہاری آزمائش کرنا چاہتا ہے سو نیک کاموں میں جلدی کرو"(5:48)۔ اس طرح تنوع اللہ کی مرضی ہے اور یہ ہمارے لئے امتحان ہے کہ ہم اس تنوع کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اللہ چاہتا ہے کہ ہم دوسروں سے برتری کا دعوٰی نہ کریں بلکہ نیک اعمال میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کریں۔

اس کے علاوہ، اگر کہیں تنوع ہے تو وہاں ممکن ہے کہ ایک دوسرے سےاختلافات اور غلط فہمیاں ہوں گی جو اکثر تنازعات اور امن کی خلاف ورزی پیدا کر سکتی ہے۔ یہ دونوں پر لاگو ہوتا ہے: بین العقائد اور بین المذاہب طبقے۔ بین العقائد تنازعہ بھی جیسے شیعہ اور سنی یا بوہرا یا غیر بوہرا مسلمانوں کے درمیان یابریلویوں اور دیوبندیوں کے درمیان عام ہے۔ ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کا واحد راستہ ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔

اس طرح جمہوریت، تنوع، اور  مکالمے تینوں بہت اہم ہو جاتے ہیں۔ جمہوریت اور تنوع ایک دوسرے کے اضافی ہیں،  اگرچہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کی یکسانیت ایک طاقت ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ یکسانیت کے نتیجے میں آمریت پیدا ہو سکتی ہے جبکہ تنوع جمہوریت کے لئے لائف لائن (خط حیات) بن جاتی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ جتنا زیادہ تنوع ہوگا جمہوریت اس قدر مضبوط ہوگی۔

لیکن تنوع بھی ایک چیلنج پیش کرتا ہے اور اس چیلنج کا مقابلہ ایک دوسرے کے ساتھ آپسی بات چیت کے ذریعے مناسب تفہیم حاصل کر کیا جا سکتا ہے۔  قابل غور یہ ہے کی  مکالمے بشمول بین المذہبی مکالمے جدید یا معاصر تصور نہیں ہیں۔ قرون وسطی کے زمانے کے ہندوستان میں اکثر صوفی حضرات اور یوگیوں کے درمیان مکالمے ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ، صوفی حضرات کے عیسائی مذہبی رہنمائوں اور یہودی سنتوں کے ساتھ  بھی باہمی بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ ان میں سے کچھ نے کئی سال دوسروں کی مذہبی روایت کو سمجھنے میں گزارے۔ مثال کے طور پر  دارہ شکوہ یا مظہر جان جنان کو ہندو روایات کا مکمل علم تھا۔ دارہ شکوہ نے تو اپنشد کو سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کیا اور اس کا نام رکھا ...   میں نے  دارالمصنفین، آعظم گڑھ میں اس کا قلمی نسخہ دیکھا ہے۔ انہوں نے مجمع البہرین نام کی ایک کتاب لکھی ہے۔ یہ ہندو مذہب اور اسلام کے درمیان مکالمے کی ایک عظیم کتاب ہے۔

تاہم،  بات چیت کو کامیاب بنانے اور مطلوبہ نتیجہ حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کچھ قوانین پر  عمل درآمد کیا جائے۔ سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ مکالمے میں حصہ لینے والوں میں دوسرے پر برتری کا رویہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ مذاکرات کی روح کے خلاف ہوتا ہے۔ دوسرے، بات چیت کچھ ٹھوس مسائل جیسے خواتین کے حقوق یا جنگ یا عدم تشدد وغیرہ پر ہونی چاہئے۔ آج ان مسائل پر بہت سی غلط فہمیاں ہیں۔  زیادہ تر غیر مسلموں اور خاص طور پر مغرب کے لوگوں کا خیال ہے کہ اسلام عورتوں کو کوئی حق نہیں دیتا ہے اور انہیں محکوم بناتا ہے اور یہ سب مسلمانوں کے درمیان بعض رواجوں جیسےحجاب یا کئی شادیوں یا عزّت کے نام پر  قتل وغیرہ کے سبب ہے۔

اسی طرح، جہاد کے تصور کے بارے میں بڑے پیمانے پر غلط فہمیاں ہیں اور یہ کچھ فتوٰی یا اسامہ بن لادن کے بیانات ہیں جس میں اس نے نیو یارک کے ٹون ٹاورز پر حملے کے جواز کے طور پر جہاد کو پیش کیا ہے۔ اصل میں مسلمان اور مسلم علماء کے درمیان کئی شادیوں اور جہاد جیسے مسائل کے بارے میں بہت زیادہ اختلافات ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ بھی بات چیت کی ضرورت ہے۔ اور غیر مسلموں کے ساتھ بہت زیادہ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔

بات چیت کے عمل میں مذہبی کارکنوں، ایسے علماء کرام جن کو مسائل کا عمیق علم ہو، صحافیوں (جو  غلط تصورات کو لکھتے اور پھیلاتے ہیں) اور عام لوگوں کے ساتھ ساتھ ایسےلوگ جو غلط فہمیوں کے اکثر شکار رہے ہیں، اس میں شامل ہونا چاہئے۔ دوسرے، ان لوگوں میں  سیکھنے کی انکساری ہونی چاہئے نہ کہ علم کے بجائےجہالت کی بنیاد پر بحث کرنے والے ہوں۔ لیکن شرکاء کو شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لئے سوالات  اٹھانے کا حق ہونا ضروری ہے۔

تیسرے، ان لوگوں میں اپنے ایمان کی روایت کی مضبوط بنیادیں ہونا ضروری ہے اور اسے خاص عمل کی وجوہات کی وضاحت یا تعلیم کی دلیل دینے کےقابل ہونا چاہئے۔ کوئی شک یا جہالت مذاکرات کی روح کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بحث کے دوران اٹھائے گئے شکوک و شبہات کو اپنے مکمل علم، اعتماد اور وضاحت کے ذریعے دور کرنے کے قابل ہونا چاہئے۔

چوتھے، ان میں زبردست صبر و تحمل، دوسروں کو سننے کی صلاحیت اور دوسروں کے حالات کو سمجھنے، اور ظاہر کئے گئے شکوک و شبہات کو دور کرنے کے قابل ہونا چا ہئے اور بحث کرنے کی مہارت کے ذریعہ دوسرے کو خاموش کرنے اور مناظرہ کا استعمال کرنے کی کوشش نہیں ہونی چاہئے۔  یہ بات چیت کے خیال کو ہی تباہ کر دیگا۔ بحث اور مکالمے کے درمیان بنیادی فرق ہے۔

اس کے علاوہ اپنے ایمان کی روایتوں میں  مضبوط بنیاد رکھتے ہوئے بھی دوسروں کو ان کے اختلاف پر تنقید کئے بغیر ہی ان کے اختلافات کو قبول کرنا چاہئے۔ مکالمے افہام و تفہیم کو فروغ دینے کے لئے ہیں اور نہ کہ دوسرے کے عقیدے کو مسترد کرنے یا دوسروں کے عقیدے میں غلطی کو تلاش کرنے کے لئے ہے۔ مکالمےکبھی دوسروں کو تبدیل کرنے کے لئے نہیں ہونے چاہئے بلکہ صرف دوسرے کو سمجھنے کے لئے ہونے چاہئے۔ دونوں یا بات چیت میں شامل ایک سے زیادہ شراکت داروں کو اپنے ایمان کی روایت کی روشنی میں متعلقہ معاملے پر روشنی ڈالنی چاہئے اور سوالات سے سلیقے اور نفاست کے ستھ نمٹنا چاہئے۔

اس طرح منعقد مکالمے واقعی کرامات کر سکتے ہیں اور دوسرے کے عقیدے کو سمجھنے کے دوران اپنے عقیدے کے بارے میں حقیقی تفہیم کو فروغ دینے کا کام کر سکتے ہیں۔ میں 40 سال سے بھی زیادہ سے مذاکرات کے عمل کا ایک حصہ رہا ہوں اور اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بات چیت ایک متنوع معاشرے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ علم، اعتماد اور وضاحت اور دوسروں کے نظریے کی تعریف بات چیت کے لئے بہت مفید ذرائع ہیں۔

اصغر علی انجینئر اسلامی اسکالر ہیں اور سینٹر فار اسٹڈی آف سیکولرزم اینڈ سوسائٹی،  ممبئی کے سربراہ ہیں۔

URL for English article: http://www.newageislam.com/radical-islamism-and-jihad/islamic-radicalism-going-mainstream-throughout-the-east,-says-sultan-shahin-in-a-conference-at-united-nations-in-geneva/d/6865

URL: https://newageislam.com/urdu-section/need-interfaith-dialogues-/d/6901

Loading..

Loading..