New Age Islam
Tue Sep 17 2024, 02:04 PM

Urdu Section ( 10 Dec 2011, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Islamic Religious Extremism and Democracy اسلامی مذہبی انتہاپسندی اور جمہوریت

اصغر علی انجینئر  (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن ،  نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)

مذہبی انتہا پسندی مذہب سے انکار کرتا ہے۔انتہا پسند اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ایسا کوئی مذہب نہیں ہے جو نفرت، غصہ اور انتقام لینے کی حوصلہ افزائی کرتا ہویا تباہ کن اصولوں کی تعلیم دیتا ہو۔تمام مذہبی انتہاپسندی کا نیتجہ ان سب کے روپ میں سامنے آ رہا ہے۔ہندو فلسفہ رواداری اور عدم تشدد کی تعلیم دیتا ہے اور پوری دنیا کو اپنا کنبہ تصور کرتا ہے اس کے باوجود بی جے پی کے امید وار ورون گاندھی نے انتہائی اشتعال انگیز تقریر میں کہا کہ جو ہاتھ ہندوؤں کے خلاف اٹھیں گے وہ اس کو کاٹ دیں گے۔وہ غصے والے ایک نوجوان ہو سکتے ہیں لیکن بی جے پی کی سینئر قیادت کا کیا کہنا ہے؟ان لوگوں نے اس کی مذمت نہیں کہ بلکہ پارٹی نے الیکشن کمیشن کی ان کو انتخابی امیداوار نہ بنانے کی درخواست کو درکنار کر دیا۔

ہندوتوادیوں کی گجرات اور اڑیسہ  (کاندھ مال ضلع میں عیسائی مخالف تشدد) میں کارروائی دوسری مذہبی اقلیتوں کے خلاف انتقام غصے اور عدم تشدد کی کارروائی تھی۔اس میں سیکڑوں مارے گئے اور ہزاروں بے گھر ہوگئے اور آج بھی ان انتہا پسندوں کی نفرت کا شکار ہیں جبکہ ان لوگوں کو شرم یا جرم کا احسا س تک نہیں ہے۔کیا اس کا مذہبی تعلیم کے ذریعہ کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟

ایک جانب طالبان اور دوسری جانب القاعدہ جہاد کے نام پر سیکڑوں معصوم لوگوں کی جانیں لئے جا رہے ہیں اور اپنے اس عمل کو وہ اسلامی نظریہ قرار دیتے ہیں۔القاعدہ اور طالبان عراق اور افغانستان میں امریکی پالیسیوں اور تشدد کے خلاف رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں۔یہ سچ ہے لیکن ان کی انتہا پسندی امریکی پالیسیوں کے جواز کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔پہلی بات، اگر جہاد کا استعمال جنگ (جو کہ نہیں ہے) سمجھ کر کیا جا رہا ہے تو یہ حقیقت ہے کہ جہاد انتقام کا عمل نہیں بلکی دفاع کا عمل ہے۔

القاعدہ اور طالبان دونوں نے ہزاروں معصوموں کو افغانستان، پاکستان اور عراق میں قتل کیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔یہ حساب لگانا مشکل ہے کہ خود کش بمباری اور بم دھماکوں میں پہلے ہی کتنے لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ ان میں مارے گئے زیادہ تر لوگ مسلمان ہوتے ہیں نہ کہ امریکی۔جہاد دفاعی جنگ کا نام ہے اور یقینی طور پرجارحانہ جنگ کا نہیں ہے اور انتقام کے لئے جنگ تو بالکل بھی نہیں ہے۔

انتقام لینا اپنے آپ میں غیر مذہبی عمل ہے۔قرآن دوسرے مذاہب کی ہی طرح مومنوں کوغصے کو ضبط کرنے کی تلقین کرتا ہے اور کاظم الغیض  (وہی جو غصے کو دبائے) کے طور پر ذکر کرتا ہے اور مومنوں سے توقع کرتا ہے کہ وہ اللہ کی ہدایت پر عمل کریں جو رحیم اور معاف کرنے والی ذات ہے۔ جو بھی انتقام لیتا ہے وہ اچھا انسان نہیں ہو سکتا ہے اور ایک اچھے مسلمان کے درجے سے وہ کم تر ہوگا۔اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ القاعدہ کے لوگ اور طالبان انتقام میں ان معصوموں کو قتل کئے جا رہے ہیں جنہوں نے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔جہاد کی تو بات ہی چھوڑیے، کس طرح یہ عمل اسلامی ہو سکتا ہے؟

ہم دیکھتے ہیں کہ آئے دن افغانستان، پاکستان اور عراق میں بم دھماکے ہو رہے ہیں اور معصوم لوگ مارے جا رہے ہیں حالانکہ اوباما امریکہ کی پالیسیوں مین ترمیم کی کوشش کر رہے ہیں اوربش پورے معاملے میں اب کہیں بھی دخل نہیں رکھتے ہیں۔ایک اچھے مسلمان کے ناطے ان لوگوں کو پہلے بش جب وہ تمام معاملات کی ذمہ دار تھے ان سے بات کرنی چاہیے تھی اورناکام رہنے پر کچھ جواز کے ساتھ ہی تشدد کا راستہ اختیار کرنا تھا۔

لیکن بش کے جانے کے بعد جب اوباما حالات کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں توبھی یہ لوگ بے پرواہی سے تشدد کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ان لوگوں میں ذرہ برابر بھی اچھائی ہے تو اس سے قبل کی بہت دیر ہو جائے ان لوگوں کو بات چیت کرنی چاہئیے اور جو بھی ممکن ہو کرنا چاہیئے تا کہ خطہ میں امن قائم ہو سکے۔دراصل القاعدہ اور طالبان ایک مسلمان نہیں بلکہ ایک قبیلائی کی حیثیت سے کا رروائی کر رہے ہیں۔یہ لوگ قبیلوں کی انتقام لینے کی روایت پر عمل کر رہے ہیں۔

جو لوگ بھی انتہا پسندی کی جانب راغب ہوتے ہیں وہ فرضی کہانیاں تیار کر لیتے ہیں اورحقائق سے انکار کرتے ہیں اور ایسے عمل کرتے ہین جو فرضی کہانیوں کو حقیقت ثابت کر سکے۔مثال کے طور پر ہندوتوادیوں نے ہندوستان مین مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف فرضی کہانیاں گڑھ لی ہیں اور فسادات، تشدد اور قتل و غارت کے اپنے عمل کے ذریعہ اسے سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔حقائق پر مبنی کتنے بھی دلائل ان کو دئے جائیں وہ مطمئن نہیں ہوں گے۔

ان لوگوں نے ایک فرضی کہانی گڑھ رکھی ہے کہ تمام مسلما ن دہشت گرد، جہادی ہیں اور پاکستان اور عرب ممالک کے وفادار ہیں اس کے برخلاف کوئی بھی دلیل ان کو مطمئن نہیں کر سکے گی۔ان لوگوں کا یہ بھی یقین ہے کہ عیسائی مذہب اختیار کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا ہے لیکن وہ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ عیسائی لوگوں کی تعدادمیں کئی دہایوں سے اضافہ نہیں ہوا ہے ، یہ تب ممکن ہے جب عیسائی بڑی تعدا میں لوگوں کا مذہب تبدیل نہ کرا رہے ہوں جبکہ ہندوتوادی یہ پروپگنڈہ کرتے ہیں کہ عیسائی ملک میں بڑی تعداد مین ہندوؤں کا مذہب تبدیل کرا رہے ہیں۔

تمام انتہاپسند حقیقت سے بہت دور ہوتے ہیں کیونکہ سچائی ان کی فرضی کہانیوں کو پوری طرح نیست و نابود کر دیگی۔کچھ انتہا پسند ان فرضی کہانیوں مین یقین رکھتے ہیں اور وہ زیادہ ترنچلے درجے کے کا ر کن ہیں، باقی کے انتہا پسند اس طرح کی کہانیاں پیدا کر تے ہیں تاکہ ان کے نچلے درجے کے کارکنان کو حوصلہ ملے اور وہ ان کے مطابق کام کر سکیں۔سیاسی لیڈران بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لئے اسی طرح کی کہانیاں پیدا کرتے ہیں لیکن نچلے درجے کے کارکنان اپنے یقین کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ ان کو اس بات کا یقین دلایا جاتا ہے تاکہ انہیں احساس ہو کہ وہ اپنے عقیدے کی حفاظت کر رہے ہیں۔

اسامہ بن لادین اور القاعدہ کے دوسرے لیڈران بڑے واضح طور پر جانتے تھے کہ ان کا مقصد کیا ہے اور اسے کیسے حاصل کر نا ہے۔لیکن وہ تمام نوجوان جو پیدل فوج کے حصے کے طور پر اپنی جانیں دیتے ہیں یا تو وہ اپنے لیڈران کے ذریعہ پیدا کی گئی فرضی کہانیوں میں یقین رکھتے ہیں یا پھر ان کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں جیسے غریبی، بے روزگاری یا خود اپنی جان کو خطرہ، اگر وہ خودکش بم بار بننے سے انکار کرتے ہیں۔ایسے حالات میں وہ ایسی موت مرتے ہیں جن کا کوئی ذکر نہیں ہوتا ہے لیکن اگر وہ خود کش بم بار کے طور پر خود کو اڑا دیتے ہیں تو ان کے خاندان والوں کا خیال رکھا جاتا ہے اور کئی معاملوں میں ان لوگوں کا یہ تصور ہو تا ہے کہ یہ سیدھے جنت میں جائیں گے اور وہاں ہمیشہ حوروں کے ساتھ رہیں گے۔

اس کے علاوہ انتہا پسندوں کے ذریعہ تشدد کے پس پشت کئی بار کچھ اقتصادی مفادات کا رفرما ہوتے ہیں۔یہ لوگ کسی مذہبی گروپ جہاد یا مذہب کی حفاظت کے نام پر سے اچھی خاصی تعداد میں روپیہ لیتے ہیں ۔ یہی نہیں وہ منشیات کا کاروبار بھی کرنا شروع کر دیتے ہین جیسا کہ طالبان والے بڑے پیمانے پر اس کاروبار کے لئے جانے جاتے ہین (طالبان کے معاملے میں انہیں سی آئی اے نے یہ کاروبار سکھایا)۔ اس طرح انتہا پسند بشمول سیاسی انتہا پسند بھی صحیح کا م کے لئے صحیح ذریعہ کے استعمال میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔

اس کے بر خلاف ان لوگوں کا یقین صحیح مقاصد کے لئے غلط ذرائع کے استعمال میں ہوتا ہے (ان کے مطابق صحیح مقصد ہوتا ہے لیکن دراصل بد اخلاقی ان کے مقصد کو بگاڑ دیتا ہے )۔ اگر یہ اخلاقی طور پر درست ہوتا ہے تو غلط طریقے کے سبب بگڑ جاتاہے۔منشیات کا نشہ ہزاروں خاندانوں کو تباہ کر رہا ہے اور طالبان منشیات کے کاروبار کے ذریعہ نشہ کرنے والے نوجوانوں کو منشیات دستیاب کرا رہا ہے اور دوسروں کو بھی اس نشے کا عادی بنا رہا ہے۔

مقصد اور ذرائع کو لے کر بحث بہت پرانی ہے اور ان لوگوں کے درمیان شدید اختلافات ہیں جو صحیح مقاصد کے لئے غلط طریقے کے جواز پیش کرتے ہیں اور جو صحیح مقاصد کے لئے درست طریقے پر زور دیتے ہیں۔ میرے مطابق صحیح مقصد کے لئے طریقہ بھی صحیح ہونا چاہیے۔ایک سچا مذہبی شخص کبھی بھی صحیح مقصد کے لئے غلط طریقے کو قبول نہیں کرے گا۔گاندھی جی نے بھی فیصلہ کن طور پر صحیح مقاصد کے لئے غلط طریقے کے اصول کو مسترد کر دیا تھا۔

مذہبی انتہا پسندی کے معاملے میں اگر ان کا مقصد بھی غلط ہو اور اس کے لئے غلط طریقے کا استعمال بھی ان کے لئے کوئی پریشانی پیدا نہیں کرتا ہے اور ایک بار ان لوگوں نے غلط طریقہ استعمال کیا تو پھر یہ اس میں اپنا ذاتی مفاد پیدا کر لیتے ہیں ، کیونکہ یہ بڑی رقم کے ساتھ ہی زندگی کی سہولتیں بھی فراہم کر دیتا ہے۔اس کے بعد یہ اس پیسے سے ایک بڑا نظام کھڑا کر لیتے ہیں اور پھر اس پر کنٹرول بنائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔مثال کے طور پر لشکر طیبہ کے چیف پاکستان میں ایک بڑے نظام چلاتے ہیں۔ اور یہ لوگ عرب کے بڑی فلاحی اداروں سے یہ جھوٹ بول کر مالی تعاون حاصل کرتے ہیں کہ وہ اس رقم کو مدارس۔ اسکولوں اور غریب لوگوں پر خرچ کریں گے۔

ان لوگوں پر یہ بہت کم رقم خرچ کرتے ہیں باقی دہشت گردانہ کارروائیوں پرخرچ کرتے ہیں۔ جدید ترین ہتھیاروں کو خریدا جاتا ہے اور نوجوانوں کو اسے چلانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ہندوتوادی بھی غیر مقیم ہندوستانیوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں  (کثیر قومی کمپنیاں)   سے دلتوں،قبائل اورغریبوں کی مدد کے نام پر کافی بڑی رقم امداد کے طور پر حاصل کرتے ہیں اوراسے نفرت پھیلانے کی اپنی مہم میں استعمال کرتے ہیں۔امریکہ مین کچھ سیکولر پسندوں نے اس سے متعلق تمام اعداد و شمار کو اکٹھا کیا اور سنگھ پریوار کوبے نقاب کر چکے ہیں ان کے مطابق متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں سے غریبوں، دلتوں اور قبائلیوں کی مدد کے نام پر رقم حاصل کرتے ہیں اور ان کے بجائے اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے پروپگنڈہ میں استعمال کرتے ہیں۔

اس طرح یہ انتہا پسند بڑی رقم پر کنٹرول کرتے ہیں اور یہ کبھی بھی امن کے لئے بات چیت نہیں کرنا چاہتے ہیں۔اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو انہیں بڑی غیر قانونی رقم سے ہاتھ دھونا پڑ ے گا۔وہ اس سنہری موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیناچاہیں گے ۔ان کا مفاد صرف تنازعہ کو کھڑا کرنے میں ہے جو اکثر وہ مصنوعی طور پر کرتے ہیں اگرچہ ہمیشہ نہیں۔

طالبان اور القاعدہ کے لوگ بڑی تعداد میں ہتھیاروں کے ڈھیر کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ ایل ٹی ٹی ای کے پاس نہ صرف آٹو میٹک بندوقیں تھیں بلکہ لڑاکو جہاز، اینٹی ایئر کرافٹ بندوقیں اور بحری جہاز بھی تھے۔ کیسے ان لوگوں نے یہ سارے ہتھیار حاصل کئے؟ ظاہر ہے حماےئتیوں سے تعاون کے علاوہ منشیات کی اسمگلنگ سے۔ اس کے علاوہ ان انتہا پسند گروپوں کا آپس میں اپنے جیسے گروپ کا نیٹ ورک بھی ہے۔بنگلہ دیش سے کام کرنے والی جہادی تنظیموں کے الفا اور ایل ٹی ٹی ای سے بھی روابط تھے۔

اس طرح انتہا پسند خاص طور سے مذہبی انتہا پسند عصر حاضر میں ایک بڑا چیلنج بن کر ابھرے ہیں۔یہ بھی قابل غور ہے کہ آج انتہا پسندی لاکھوں ڈالر کی صنعت ہے۔ ہتھیاروں کی صنعت بھی ان انتہا پسندوں کے روابط میں ہے۔اس کے علاوہ وہ کیسے جدید ترین ہتھیار حاصل کر سکتے ہیں؟حالانکہ حکومت ہتھیاروں کے بر آمد پر پابندی عائد کرتی ہیں لیکن صنعت اور انتہا پسند راستے نکال ہی لیتے ہیں اور کئی بار سرکاری مشینری کی مدد سے بھی۔

اگرچہ دہشت گردی کی مزمت میں زیادہ طاقت خرچ ہوتی ہے اور حکومت بھی خود بڑی رقوم دہشت گردی سے لڑنے مین خرچ کرتی ہے اور ہتھیاربنانے والے انہیں لوگوں کے اصلحوں کا استعمال کرتی ہے، لیکن کوئی یہ تفتیش نہیں کرتا ہے کہ ان انتہاپسندوں کے پاس آسانی سے یہ ہتھیار کیسے پہنچ رہے ہیں؟اس طرح ہتھیاروں کی صنعت دہشت گرد تنظیموں اور ان سے لڑنے والی حکومتوں کو ہتھیار فروخت کر کے دونوں طرف سے فائدہ حاصل کرتی ہے۔

کون ان تمام ذاتی مفادات کو بے نقاب کرے گا؟

سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکو لرزم،ممبئی

URL for English article: http://www.newageislam.com/islam,terrorism-and-jihad/islamic-religious-extremism-and-democracy/d/1695

URL: https://newageislam.com/urdu-section/islamic-religious-extremism-democracy-/d/6115

Loading..

Loading..