اصغر
علی انجینئر (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
کچھ
دنوں قبل خاندانکے عنوان پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کے لئے ترکی جانے کا میرا اتفاق ہوا۔ میں نے ترکی کے اپنے سفر کے بارے میں لکھاتھا لیکن یہاں
میں اس کانفرنس میں اپنی پریزنٹیشن (پیشکش)
کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔یہ ایک شاندار بین الا قوامی کانفرنس تھی جس میں دنیا
بھر کے 50 ممالک کے 300 علماء کرام ، سماجی سائنسدانوں اور کارکنان نے شرکت کی۔ اس موقع
پر خاندان کے مختلف پہلوئوں پر مقالے پڑھے
گئے اور ان پر تبادلہ خیال کیا گیا۔کانفرنس کے دوران عام تشویش یہ تھی کہ خاندان کی بنیا دیں کمزور ہو رہی ہیں جو کہ ہماری
تہذیب کی بنیاد ہے ۔ہمیں خاندان کوٹوٹنے سے بچانا چاہیے۔
کانفرنس
میں مجھے اسلام اورخاندان کے ادارے کے بارے میں
بولنے کے لئے کہا گیا۔در حقیقت پیغمبر اسلام ﷺ نے بعض حالات کے سوائے
کنوارے پن کی حالت والی زندگی کو پسند نہیں کیا ہے۔آپ ﷺ نے رہبانیت کو ناپسند
کیا ہے اور آپ ﷺ نے دنیا میں رہنے اور تمام
حالات کا سامنا کرنے کو ترجیح دی ۔ قرآن کے
مختلف اعلانات خاندانی زندگی ، شادی ، طلاق اور بچوں سے متعلق ہیں۔ قرآن یہ بھی کہتا ہے
کہ اگر آپ کے پاس شادی کرنے اور زندگی گزارنے
کے لئے وسائل نہیں ہیں۔ تو اس وقت تک نیک زندگی
گزاریں جب تک کہ اللہ آپ کو ضروری وسائل نہ عطا کر دے۔ اس کے علاوہ ، قرآن ناجائز تعلقات ، حرام کاری ،
زنا اور بد کاری کے لئے سزا مقرر کرتا ہے۔
اسلامی
تعلیمات کے مطابق ، جنسی تعلقات صرف شادی کی
بنیاد پر ہی جائز ہیں ۔اور صرف لطف اندوزہونے
کے لئے جنسی تعلقات بنانا جائز نہیں
ہے ۔ جنسی تعلقات بنیادی طور پر خاندان کو بڑھانے کے لئے ہے۔مغربی ممالک میں آج لوگ خاندان کو بڑھانے کی ذمہ داری نہیں اٹھانا چاہتے ہیں بلکہ لطف اٹھانے کے لئے جنسی
تعلقات قائم کرتے ہیں اور اس وجہ سے‘ لیو ان’ (Live in) تعلقات موجودہ فیشن بن گیا ہے اور‘ لیو
ان’ (Live in) تعلقات کے اس تصور نے خاندان کی بنیادوں کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔اس طرح کے تعلقات میں
دونوں مرد اور عورت جب چاہیں علیحدہ ہو سکتے ہیں۔
لہٰذا
اسکا اصل مقصد ایک دوسرے کےتعلّق سے غیر ذمّہ دار ہو نا ہے ۔ بچوں کی تو بات ہی چھوڑئے۔
در اصل اس طرح کی تمام کوششیں بچوں کی پیدا ئش
سے بچنے کے لئے ہیں اور اگر بچے پیداہو جاتے
ہیں ، تو پوری ذمہ داری ماں باپ میں سے کسی
ایک پر اور عام طور پر ماں پر آجاتی۔مرد جنسی تعلقات کا لطف لینے کے لئے ایک سے زیادہ جوڑی بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور نتیجے میں بچوں کی ذمہ داری عورتوں پر آ جاتی
ہے اور انہیں نفسیاتی صعوبتیں اور تنائو کا
سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جنسی
تعلقات بذات خود منزل نہیں ہو سکتا ہے جیسا کہ
لیو ان (Live in)
تعلقات میں ہوتا ہے۔ قرآن کریم کے مطابق شادی کے دو اہم مقاصد ہیں ،- خاندان کو بڑھانا اور ایک دوسرے کو رفاقت فراہم
کرنا ہے۔ شادی کا بنیادی فلسفہ محبت اور رفاقت پر مبنی ہے۔ قرآن کہتا ہے، ‘اور اسی کے نشانات (اور تصرفات) میں سے
ہے کہ اُس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس کی عورتیں پیدا کیں تاکہ اُن کی طرف (مائل ہوکر)
آرام حاصل کرو اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کر دی جو لوگ غور کرتے ہیں اُن کے
لئے ان باتوں میں (بہت سی) نشانیاں ہیں’ (30:21)۔
اس
طرح قرآن کے مطابق خاندان کی بنیاد زندگی کی اعلی اور نیک اقدار پر مبنی ہونا چاہئے۔
صرف جنسی خواہشات کی تسکین کبھی اعلیٰ تہذیب
کی جانب نہیں لے جا سکتا اور نہ ہی کسی کی زندگی میں استحکام لا سکتی ہے۔ رحم اورمحبت انسانی تہذیب کی بنیاد یں ہیں اورخاندان تہذیبوں کی اہم بنیا دہے ۔جہاں تک ممکن ہو خاندان
نہیں ٹوٹنے چاہیے اور نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ کے مطابق طلاق ، جائز چیزوں
میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز ہے اس کے علاوہ ایک اور حدیث کے مطابق جب مرد لفظ طلاق اپنی زبان سے ادا کرتا ہے تو یہ
آسمانوں کو ہلا دیتا ہے ، کیونکہ طلاق خاندان
بنیادوں کو دھچکا پہنچاتا ہے۔
عصر
حاضر کی دنیا میں خاندان کی بنیا دیں آج تیزی
سے کمزورہو رہی ہیں اور ایسا ہماری زندگی میں جدیدیت کے سبب پیدا ہونے والے بعض تضادات کی وجہ سے ہے۔عصر
حاضر میں خواتین بھی کام کرتی ہیں اور کافی
حد تک خود مختار بن جاتی ہیں اور اسی وجہ سے اپنے شریک حیات کی خواہشات کے آگے جھکنے سے انکار کر دیتی ہیں۔ماضی میں خواتین اقتصادی
طور پر مردوں پر انحصار کرتی تھیں اور اسی لئے مردوں کی خواہشات کے آگے جھکنے میں زیادہ محفوظ محسوس کرتی تھیں۔ شوہر کو اس کا مالک
اور اس کے سر کا تاج مانا جاتا تھا۔آج متوسط طبقے کی خواتین اعلی تعلیم یا فتہ ہیں اور
کافی موٹی تنخواہ پر کام کرتی ہیں اور اس لئے وہ
اپنے شوہروں کے سامنے جھکنے سے انکار کرتی ہیں۔
اکثر قدامت پسند مسلمانوں کو یہ لگتا ہے کہ ایسا خواتین
کے تعلیم یافتہ اور اپنے لئے کمائی کرنے کے
سبب ہے۔ جو کہ خاندانوں کو غیر مستحکم کر رہا ہے۔ یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کیونکہ ہم میں پدرانہ
نظام کے اقدارسرایت کر گئے ہیں۔ اصل
میں اگر خواتین با وقار اور غیرت مند ہے تو ایسی خواتین کو شوہر کے اختیارات کے آگے خود سپردگی کے لئے نہیں
کہا جانا چاہیے۔جسکی بھی بنیا داعلی اقدار کے بجائے اتھارٹی پر ہوگی وہ مستحکم نہیں ہو سکتی ہے اور
نہ ہی اعلی تہذیب کی جانب لے جانے والی ہو سکتی
ہے۔ قرآن خواتین کو جہاں کمانے اور
جائیداد حاصل کرنے کا حق عطا کرتا ہےوہیں اسے
وقار اور خودداری بھی برابر عطا کرتا ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ خاندان شوہر کی اتھارٹی پر مبنی نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایک دوسرے کے لئے محبت اور رحم دلی پر مبنی ہونا
چاہئے۔
اگر
ان اقدارپر احتیاط کے ساتھ عمل کیا جائے توشوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کا احترام
کریں گےاور کوئی اہم فیصلہ لینے سے قبل ایک
دوسرے سے مشورہ کریں گے۔ عورت کی تعلیم اور کمائی خاندان کو بہت زیادہ مستحکم اور خوشحال بنا دے گی۔ اگر ہماری
ثقافت پدرانہ نظام والی رہتی ہے اور شوہرکی اتھارٹی سب سے اوپر رہتی ہے تو ایسے خاندان جس میں عورتیں اعلی تعلیم
یافتہ ہیں اور اپنی خودداری کی پرواہ کرتی ہیں تو ان میں کشیدگی آسکتی ہے اور
ایسے خاندان ٹوٹ بھی سکتے ہیں۔یہاں تک کہ انتہائی جدید معاشروں میں بھی خواتین کا اہم
معاملات پر فیصلہ کرنے میں کوئی کردار نہیں ہے اور اسی وجہ سے خاندان کی زندگی میں
شدید کشیدگی آتی ہے اور طلاق کا فیصد بڑھ جاتا ہے کیونکہ خواتین جھکنے سے انکار کر دیتی ہیں۔
اس
مسٔلے کا حل خاندان کی بنیا دوں کو چھوڑ نے
اور لیو ان (Live
in) تعلقات قائم کرنے میں نہیں ہے۔ ایسے میں حقیقی محبت
اور رحم دلی نہیں رہے گی ۔ حل خواتین کو برابر
وقار اور فیصلہ سازی میں برابر کا کردار دینے میں ہے۔یہی صرف خاندان کی بنیادوں کو مضبوط کرے گا۔ اس طرح اگرقرآن کے اعلان کردہ خاندان کےفلسفے پر عمل کیا جائے تو خاندان
کی بنیادیں ٹوٹ نہیں سکتی ہیں بلکہ اس کے بجائے اورمضبوط ہو گی۔
مصنف
اسلامی اسکالر اور سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکو لرزم، ممبئی کے سربراہ ہیں۔
URL for English article: http://www.newageislam.com/islamic-society/islam,-family-and-modernity-/d/3980
URL: