New Age Islam
Sun Apr 02 2023, 12:15 PM

Urdu Section ( 11 Oct 2011, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Is Islam and Socialism Compatible? کیا اسلام اور سوشلزم ایک دوسرے کیلئے موزو ں ہیں؟

اصغر علی انجینئر   (انگریزی سے ترجمہ۔سمیع الرحمٰن،نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
ایک دوست نے مجھے کہا کہ میں ا سلام سوشلزم کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے یا نہیں، موضوع پر لکھوں۔ جیسا کہ بہت سے لوگوں کے نزدیک سوشلزم کے معنی کافرانہ فلسفے کے ہیں اس لئے سوشلزم کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔اسلام کی بنیادی تعلیم ایک خدا پر یقین ہے ایسے میں سوشلزم اور اسلام کیسے ساتھ ساتھ چل سکتاہے۔مجھے یہ خیال درست نہیں لگتا ہے۔ یہاں تک کی کئی قابل قدرعلماء نے سوشلزم کو اسلامی تعلیمات کے اہم حصے کے طور پر قبول کیا ہے۔اس برّ صغیر کے دو جیّد علماء مولانا حسرت موہانی اور مولانا عبید اللہ سندھی نے پرجوش طریقے سے کمیونسٹ تحریک کی حمایت کی ۔واضح رہے کہ مولانا حسرت موہانی تو ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کے بانیوں میں سے تھے۔مولاناعبید اللہ سندھی جو خلافت تحریک کے دوران افغانستان ہجرت کر گئے تھے، انہوں نے وہاں پرہندوستان کی عبوری حکومت کا قیام کیا اورجب برطانوی حکومت کی طرف سے افغانستان کے شاہ پر اس عبوری حکومت کے اراکین کو اپنے ملک سے نکال باہر کرنے کا دباؤ پڑا تو مولانا، مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے ساتھ روس چلے گئے اور وہاں لینن سے ملاقات کی اور ہندوستان سے برطانوی سامراجیت کے خاتمے کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا۔مولانا سندھی کافی وقت تک زمین دوز رہے اور پچھلی صدی کی چوتھی دہائی کے اوائل میں ہندوستان واپس آئے۔
شاعر اور فلسفی اقبال نے بھی اپنی تصنیف ’خضر راہ‘ میں سوشلزم کوخراج تحسین پیش کی ہے۔اسے علامہ اقبال نے ترکی میں عثمانی مملکت کے خاتمے اور روسی انقلاب کے موقع پر لکھا تھا۔علامہ اقبال نے مارکس کو بھی خراج تحسین پیش کی ہے اور انہیں پیغمبری سے عاری باکتاب آدمی کہا ۔انہوں نے ایک دلچسپ نظم’لینن خدا کے حضور میں‘لکھی ہے۔اس کے علاوہ بائیں بازو کے نظریات کے قائل ایک عیسائی پادری نے جو 1930کی دہائی میں لاہور کے گورنمنٹ کالج میں پڑھاتا تھا اور اسلامی اسکالر بھی تھا، اس نے اپنی کتاب ’اسلام ان ماڈرن ورلڈ‘ میں لکھا ہے کہ اسلام دنیا میں پہلی منظم سماجی تحریک تھی۔ اور یہ بے وجہ نہیں تھی۔
اسلام نے نہ صرف غریبوں اور پسماندہ لوگوں کے لئے گہری ہمدردی کا اظہار کیا ہے بلکہ قرآن کی کئی مکّی سورتوں میں دولت کے ایک جگہ جمع کرنے کی سخت مذمت کی ہے۔مکّہ ان دنوں بین القوامی تجارت کا ایک اہم مرکز تھا اور وہاں بھی آج کے دنوں کی طرح ایک طرف بہت امیر لوگ (قبائل کے سربراہ)  تھے تو دوسری جانب نہایت غریب بھی تھے۔اس لئے ہم سورہ نمبر104اور107 (دونوں مکّی) میں اس طرح کی مذمت پاتے ہیں ۔اور ایک مدنی سورہ  (9:34) میں ہم دولت کے جمع کرنے کی مذمت پاتے ہیں۔اس آیت میں ہے کہ: ’اور جولوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خدا کے رستے میں خرچ نہیں کرتے ہیں ان کو اس دن عذاب الیم کی خبر سنا دو۔
اس آیت میں بھی مال و دولت کے جمع کرنے کی مذمت کی گئی ہے صحابی رسول ﷺحضرت ابو زرؓ یہ آیت اکثر ان لوگوں کے سامنے پڑھا کرتے تھے جو مال کو جمع کرتے تھے اور وہ ایسے لوگوں سے مصافحہ کرنے سے انکار کرتے تھے۔اس لئے حضرت ابو زرؓ جس سے بھی مصافحہ کرتے تھے وہ فخر محسوس کرتا تھا اور اس مصافحہ کے بارے میں لوگ خود ستائش بھی کرتے تھے۔حضرت ابو زرؓ مصالحت نہ کرنے والوں میں سے تھے اسی لئے جس وقت ربضا کے سہرا میں انکا انتقال ہوا اس وقت ان کے ساتھ کوئی نہ تھا اور وہ اس جگہ پر جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ان کی اہلیہ کو کفن خریدنے کے لئے پیسے نہ مل سکے اس لئے انہیں ان کے کپڑوں کے ساتھ ہی دفن کر دیا گیا۔
قرآن مومنوں کو مشورہ دیتا ہے کہ جو کچھ بھی کسی کے پاس ضرورت سے زیادہ ہے اسے خرچ کرو۔قرآن نے’ عفو‘ لفظ کا استعمال کیا ہے جس کے معنی ہیں کسی کی بنیادی ضروریات کے بعد جو بچا ہوا ہے۔ قرآن کی آیت (2:219) کہتی ہے ’اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ  (خدا کی راہ میں) کون سا مال خرچ کریں،کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔‘اس طرح یہ سوشلسٹ نظریے کے بہت قریب ہے ۔سوشلسٹ نظریہ کہتا ہے کہ سب کو اس کی ضرورت کے حساب سے ملے۔قرآن نے بنیادی طور پر عدل پر زور دیا ہے اور اللہ کا ایک نام عادل بھی ہے جسکے معنی عدل کے ہیں۔اس لئے غیر منصفانہ معاشرہ کبھی اسلامی معاشرہ ہو ہی نہیں سکتا ہے۔بد قسمتی سے آج کوئی بھی اسلامی ملک قرآن کے اس معیار کو پورا نہیں کر پا رہاہے۔
قرآن میں انصاف کی اہمیت اس قدر ہے کہ یہ کہتا ہے ’ (5:8) انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیز گاری کی بات ہے۔‘قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ انصاف کرو خواہ یہ تمہارے خلاف اور تمہارے دشمنوں کے حق میں ہی کیوں نہ ہو۔قرآن کہتا ہے ’اے ایمان والوں، انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچّی گواہی دو خواہ (اس میں) تمہارا یا تمہارے ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے‘ (4:135)۔سوشلزم کا بغیر عام انصاف کے جامع معنوں میں کیا مطلب ہے۔ اور اگر ان آیتوں کو سورہ نمبر104اور107کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو عام انصاف کو الگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
قرآن اپنی نیت کو واضح کرنے کے لے دوسری اصطلاحات کا بھی استعمال کرتا ہے،جیسے مستکبرون اور مستعضیفون جس کے معنی طاقتور اور استحصال کرنے والے، کمزور اور استحصال کئے جانے والے کے ہیں۔اس سلسلے میں یہ اہم اصطلاحات ہیں۔اللہ کے بھیجے تمام پیغمبر کمزور طبقات سے تعلق رکھتے تھے،جیسے حضرت ابراہیمؑ ، حضرت موسیٰؑ اور دیگر جنہوں نے نمرود اور فرعون جیسے طاقتور اور استحصال کرنے والوں کے خلاف لڑائی لڑی تھی۔قرآن کے مطابقمستکبرون اور مستعضیفون کے درمیان جدو جہد جاری رہے گی اور آخر میں مستعضیفون ہی فاتح ہوں گے اور وہی اس زمین کے وارث ہوں گے۔(28:5(
بے شک قرآن سماج کے کمزور طبقات کے حق میں ہے اور اور یہ عام لوگوں ( تاناشاہی کی نہیں) کی قیادت کی پیشن گوئی کرتاہے۔امام خمنا ای نے سب سے پہلے ان آیات کی جانب ہماری توجہ مبزول کروائی (28:5) اور انہوں نے ہی امیروں کی دولت ضبط کر لینے کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے اسی کی مدد سے مستعدفون کی بنیاد رکھی۔بد قسمتی سے دوسرے انقلابات کی طرح ایرانی انقلاب پر بھی ذاتی مفادات والے لوگ اثر انداز ہو گئے تھے ۔اکثرجیسے ہی کوئی سیاسی نظام وجود میں آتا ہے ذاتی مفادات والے لوگ اس کے چاروں جانب پیدا ہو جاتے ہیں اور اس پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ اس لئے کسی بھی انقلاب کوکمزور طبقات کی مسلسل نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔پیغمبر اسلام محمدﷺ کے وصال کے کچھ ہی برسوں کے اندراسلامی انقلاب کا بھی یہی حشر ہوا تھا۔
سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرزم، ممبئی۔

URL for English article:

http://www.newageislam.com/islamic-society/is-islam-compatible-with-socialism?/d/5048

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/is-islam-socialism-compatible-/d/5675

 

Loading..

Loading..