اصغر علی انجینئر (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام
ڈاٹ کام)
اسلامی قانون یا جسے مسلم
پرسنل لاء کہتے ہیں یہ صرف ہندوتوا طاقتوں کے حملے کی زد میں نہیں آتا ہے بلکہ اسے
سیکولر جو صنفی مساوات میں یقین رکھتے ہیں وہ بھی اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ہندوتوا
طاقتیں اس پر حملہ صرف صنفی مساوات سے پریم کی بناید پر نہیں بلکہ اسلام دشمنی کے سبب
کرتی ہیں۔لیکن ایسا سیکولر طاقتوں کے لئے نہیں کہا جا سکتا ہے۔ان لوگوں کے مطابق مسلم
پرسنل لاء صنفی تعصب اورمردوں کے حق میں ہیں۔
ہم میں سے زیادہ تر لوگوں
کا تصور ہے کہ آج ہندوستان میں جو پرسنل لاء نافض ہے وہ شرعی قانون ہے۔حالانکہ ایسا
نہیں ہے۔جو مسلمان مسلم پرسنل لاء کو شرعی قانون کے طور پر دفاع کرتے ہیں وہ آج نافض
مسلم پرسنل لاء اور شرعی قانون میں فرق کو نہیں سمجھتے ہیں۔دراصل اسے آزادی سے قبلاینگلو
محمڈن لاء کہا جاتا تھا اورآزادی کے بعد اس کانام مسلم پرسنل لاء کر دیا گیا۔
مغلوں سے اقتدار پر قبضے کے
بعد برطانوی حکومت نے اپنی عدالتوں کا قیام کیا اور اس میں مسلمانوں کی شادی، طلاق
اور وراثت سے متعلق معاملات کو بھی سنا جاتا تھا۔ان میں سے زیادہ تر عدالتوں میں برطانوی
یا غیر مسلم جج ہوا کرتے تھے جو شرعی قوانین سے ناواقف ہوتے تھے اور اگر مسلمان منصف
ان معاملات کو سنتے بھی تھے تو وہ برطانوی قانون کی تربیت حاصل کئے ہوئے ہوتے تھے۔
یہ تمام جج ایک حنفی عالم
میر غیانی کی تحریر کردہ ہدایت سے رجوع کرتے تھے جس کا انگریزی ترجمہ مسٹر ہیملٹن نے
کیا تھا۔اکثر فیصلہ سنانے سے قبل کسی مولوی سے بھی مشورہ کر لیا کرتے تھے۔معاملات چونکہ
ان برطانوی عدالتوں میں سنے جاتے تھے اور ان فیصلوں پر عمل درآمد انگریزی قانون کے
مطابق ہوتا تھا اور قانون کا بڑا حصہ ہدایت پر مبنی تھا اس لئے یہ انگلو محمڈن لاء
کہلایا۔
اعلیٰ عدالتوں میں ہوئے ان
معاملات میں فیصلے بعد کے معاملوں کے لئے نظیر بنے اور اس طرح پورا قانون ان فیصلوں
پر مرتب ہوا جسے اینگلو محمڈن لاء کہا گیا اور بعد میں اس کا نام مسلم پرسنل لاء تبدیل
کر دیا گیا، کیونکہ اسے اینگلو محمڈن لاء کہنا اب شرمناک ہو چکا تھا۔ اس طرح اسے شرعی
قانون کہنا غلط نام دینا ہوگا۔
بد قسمتی سے ہم مسلمان اور
مسلم پرسنل لاء بورڈ جس مقدس قانون کا دفاع کر رہا ہے وہ کچھ اور نہیں اینگلو محمڈن
لاء ہے جس کاصرف نام تبدیل کر دیا گیا۔ کئی معاملات میں یہ خواتین کے ساتھ غیر منصفانہ
ہے اور ہم اسلام کے نام پر ان ناانصافیوں کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔دراصل
اسلامی قانون کو قرآن اور سنت پر مبنی ہونا چاہیے اور تبھی ہم اسے شرعی قانون کہہ سکتے
ہیں اور اس طرح مرتب کیا ہوا قانون ناانصافی نہیں کرے گا۔
تمام مسلم ممالک میں بھی روایتی
قوانین میں اس طرح ترمیم کی گئی ہے کہ تاکہ وہ قرآن اور سنت کے مطابق ہوں اور اس طرح
خواتین کو زیادہ حق دئے گئے جیسا کہ قرآن میں ہے۔ترکی میں بھی جسے تنظیمات کہا جا تا
ہے یہ ان تمام شکوں پر مبنی ہیں جو متعدد مکتب فکر حنفی، شافعی، مالکی، ہنبلی وغیرہ
سے لیا گیا ہے۔ہندوستان میں بھی نکاح کے فسق ہونے سے متعلق 1939 کا قانون مالکی مکتب
فکر پر مبنی تھا کیونکہ حنفی مکتب فکر کے مطابق ایک خاتون کواگر اس کا شوہر تلاش کرنے
کے باوجود نہ مل رہا ہو تو اسے90سالوں تک اس کا انتظار کرنا چاہیے۔
اگر موجودہ قانون کو ترتیب
دیں گے تو قانون میں موجود کئی کمیوں کو دور
کیا جا سکتا ہے جو اس کو کسی کے بھی ساتھ بہتر انصاف کرنے والا بنائے گا اور موجودہ
صورت سے بہتر ہوگا۔دراصل اسلامی قوانین کی اصل روح شادی، طلاق اور وراثت وغیرہ کے معاملے
میں سب سے زیادہ ترقی پسند تھا اور اس نے خواتین کو دوسرے قوانین کے مقابلے زیادہ اختیارات
عطا کئے۔حالانکہ وقت گزرنے کے ساتھ ہی قوانین کی یہ روح اس وقت رائج سماجی مزاج اور
اقدار کے سبب کھوتی گئی۔قرآن اور پیغمبر ﷺ کے اعلان کے مقابلے روایتی قانون زیادہ اہمیت
حاصل کرتے گئے۔قانون کے نئے سرے سے ترتیب دینے سے وقت کے ساتھ سراعت کر آئی ان کمیوں
کو دور کیا جا سکتا ہے اور قرآن کی اصل روح کو بحال کیا جا سکتا ہے۔
ہم ان وجوہات کی بناء پر قانون
کے ترتیب کی بات کہہ رہے ہیں۔اور ہماری ٹیم معروف علماء و مفتیان کرام، مسلم وکلاء
اور مسلم خواتین کارکنان سے رابطہ کر رہا ہے تاکہ ان کی رائے اور درپیش مسائل کو جان
سکیں۔اسلامی قانون کے ماہرین کے مشورے کے بعد تیار کئے گئے سوال نامے پر ہماری ٹیم
نے ان لوگوں کے انٹرویو ریکارڈ کئے ہیں۔قابل غور یہ ہے کہ ہم ہندوستان میں جن کی موجودگی
ہے ان تمام مکتب فکر کے علماء کا انٹرویو ریکارڈ کر رہے ہیں ، یعنی حنفی، شافعی، اتھنا
اشاری، اہل حدیث وغیرہ۔
حتمی ترتیب دیتے وقت ان خیالات
کو ذہن میں رکھا جائے گا۔اس کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ ترتیب اسلامی فریم
ورک کے دائرے میں ہوگا اور اس سے باہر قطعی نہیں ہوگا تاکہ تمام لوگوں کو قبول ہو۔یہ
اسلامی قوانین سے باہر کسی بھی چیز پر مبنی نہیں ہوگا۔تام ترتیب دینے کا یہ کام کسی
ایک مکتب فکر کی اتباع نہیں کرے گا کیونکہ کچھ مکتب فکر میں دوسرے مکتب فکر کے مقابلے
خواتین کے لئے سازگار شکیں موجود ہیں۔ ترکی میں تنظیمات کوجس طرح تیار کیا گیا ہم جزوی
طور پر اس کی اتباع کریں گے۔
یہ قابل غور ہے کہ اب تک کے
کئے گئے انٹرویوں کا فی حاصلی بخشنے والے رہے ہیں اور دیو بند، لکھنؤ، علی گڑھ،اعظم
گڑھ اور دوسرے مقامات کے علماء نے موجودہ مسلم پرسنل لاء کو صنفی انصاف کرنے والا اور
قرآن کی اصل روح اور پیغمبر ﷺ کی سنت کے قریب لانے کے ہمارے خیالات کی حمایت کی ہے۔حقیقت
میں یہ تاثر ہمارے لئے خوشگوار اورحیران کر دینے والا ہے۔ حالات کو پہلے جیسے ہی برقرار
رکھنے اور خواتین کے لئے مسائل پیدا کرنے کے معاملے میں یہ علماء بھی مسلم پرسنل لاء
بورڈ سے متفق نہیں ہیں۔
کچھ اعتراضات کے ساتھ تقریباً
زیادہ تر علماء ہم سے اس بات پر متفق ہیں کہ بغیر قید کے ایک سے زائد نکاح کی اجازت
نہیں دی جا سکتی ہے جیسا کہ قرآن بھی اسے سختی کے ساتھاس شرط پر اجازت دیتا ہے جب مرد
اپنی بیویوں کے ساتھ برابر انصاف کر سکے،قرآن نے واضح طور پر آیت4:3اور 4:129 میں ارشاد
فرمایا ہے کہ اگر انصاف نہیں کر سکتے تو ایک ہی نکاح کرنا چاہیے ۔آیت4:129میں انصاف
کرنے پر خاص زور دیا گیا ہے جو کہتی ہے کہ اگر تم انصاف کرنا بھی چاہو گے تو نہیں کر
سکو گے اور ایسے میں پہلی بیوی کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
اس طرح قرآن میں تعداد کو
ترجیح نہیں دی گئی ہے بلکہ انصاف کو دی گئی ہے۔حالانکہ ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء
کے معاملے میں انصاف کی روح ختم ہو گئی ہے اور اس کی جگہ تعداد نے لے لی ہے۔قرآن نے
چودہ سو برسوں قبل انصاف پر اتنا زور دیا تھا اور آج جب اکیسویں صدی میں خواتین زیادہ
تعلیم یافتہ اور اپنے حقوق کو لے کر زیادہ بیدار ہیں تب انصاف کو پس پشت ڈال دیا گیا
ہے۔
یہ قابل غور ہے کہ کچھ علماء
کے مطابق پہلی بیوی کی رضامندی لینے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ مرد کا حق ہے کہ وہ چار
شادیاں کرے اور یہاس بات سے بھی انکار کرتے ہیں کہ ایک سے زائد نکاح پر آیت جنگ احد
کے بعد نازل ہوئی۔اس جنگ میں دس فیصد سے بھی زائد مرد ہلاک ہو گئے تھے اور بیواؤں اور
یتیموں کا خیال بھی رکھا جانا تھا۔
ان کی لاعلمی حیران کرنے والی
ہے کیونکہ ان لوگوں کے مطابق ایک سے زائد نکاح مرد کی جنسی ضرورت کے مد نظر ضروری ہے
اور اگر ایک سے زائد نکاح کی اجازت نہیں دی گئی تو جسم فروشی کو فروغ ملے گا۔اگر ایک
بیوی کو حیض ہو رہا ہے ،یا وہ حاملہ ہے یا اس نے بچے کو جنم دیا ہے تو ایسے میں اس
مرد کی اور بھی بیویاں ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنی جنسی ضرورت پوری کر سکے۔اس کا ذکر قرآن
میں نہیں ہے یہاں تک کہ بالواسطہ طور پر بھی نہیں اس کے باوجود کچھ علماء ان غیر قرآنی
بنیادوں پر ایک سے زائد نکاح کا جائز ٹھہراتے ہیں۔
ہمارے حیرت کی انتہا نہیں
رہی کہ دیو بند، لکھنؤ اور علی گڑھ کے بعض معروف علماء نے تین طلاق کے ختم کرنے کی
حمایت کی اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذریعے اسے برقرار رکھنے پر تنقید کیا۔ان میں سے
ایک نے کہا کہ اگرایک بار میں تین طلاق کا صرف اس لئے جائز ٹھہرایا جا رہا ہے کہ دوسرے
خلیفہ حضرت عمرؓ نے اس کی اجازت دی تھی تو پھر یہ لوگ اس پر کیوں نہیں غور کرتے کہ
بعد میں جن لوگوں نے طلاق کے لئے اس کا سہارا لیا اسے انہنوں نے سزا دی تھی۔
ان علماء کا کہنا تھا کہ طلاق
تین الگ الگ مواقع پر کہنا چاہیے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے تاکہ اس دوران اگر ممکن ہو
تومفاہمت ہو سکے۔کچھ علماء کا یہ کہنا تھا کہ پوری زندگی میں یہ صرف تین بار ہی ہونا
چاہیے۔سبھی اس بات پر متفق تھے کہ قرآن کی تعلیمات کے مطابق طلاق سے قبل مصالحت کی
کوشش ہونی چاہیے اور ناکام ہونے پر ہی طلاق کا عمل شروع ہونا چاہیے (4:35)۔یہ آیت بھی
طلاق کے مقابلے مفاہمت پر زور دیتی ہے۔
اس طرح یہ دو اہم مسئلے ہیں
جو خواتین کے ساتھ ناانصافی کا باعث بن رہے ہیں۔اگر ایک سے زائد نکاح اور طلاق کو باقاعدہ
طور پر پابند کر لیا جائے تو مسلم پرسنل لاء قرآنی روح کی ترجمانی کرنے کے قریب پہنچ
جائے گا بلکہ جو آج ہے اس سے بھی زیادہ یہ ترقی پسند بن جائے گا۔
اگرچہ ہندوستان میں مسلمانوں
کے درمیان ایک سے زائد نکاح کے واقعات بہت زیادہ نہیں ہیں۔پھر بھی کچھ مرد (شاذ و نادر
ہی چار شادیاں جیسا کہ ہندوتو پروپگنڈہ ہے) ، پہلی بیوی کو چھوڑ کر یا جب بیوی خلاء
مانگ رہی ہو تو ا سے طلاق سے انکار کر دوسری شادی کرتے ہیں۔اس طرح ضرورت ہے کہ ایک
سے زائد نکاح پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ سخت شرائط ہوں جیسا قرآن چاہتا ہے اور
کسی بھی انسان کو اپنی ایماء پر دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ترتیب دینے
سے ایسی شرائط وضع کرنا آسان ہوں گی اور اسے قانون کے دائرے میں لایا جا سکے گا۔
اس کے علاوہ تین طلاق کو قرآن
کے طلاق دینے کے تریقے سے بدلا جائے یہ خواتین کے ساتھ بہت منصفانہ ہوگا۔یہاں تک کہ
جب طلاق ناگزیر ہو جائے تو بھی خواتین کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے اور جیسا کہ قرآن بار
بارمردوں کو نصیحت دیتا ہے عورتوں کو یاتو شائستہ طریقے سے رہنے دو یا پھر بھلائی کے
ساتھ چھوڑ دینا۔ (2:229) اور اسے من مانے طریقے سے نکال باہر نہیں کر دینا چاہیے جیسا
کہ تین طلاق اور زبانی طلاق سے ہوتا ہے۔قانون کو غالب رہنا چاہیے اور مناسب طریقہ کار
کی اتباع ہونی چاہیے جیسا کہ قرآن اور سنت نے مقرر کیا ہے۔تین طلاق دونوں میں سے کسی
ایک کے بھی مطابق نہیں ہے۔
جیسا ہندوستان میں مقبول ہے
اور کچھ لوگ کہتے بھی ہیں کہ مسلم پرسنل لاء پر نظر ثانی کے ذریعہ یقینی طور پر الٰہی
احکامات کی خلاف ورزی کرنا نہیں ہے بلکہ اسے الٰہی احکامات کے قریب لانا ہے یعنی اس
میں اصل الٰہی روح پھونکنا ہے۔ویسے یہ ہمیشہ ممکن نہیں ہے کہ مکمل اتفاق رائے حاصل
کی جا سکے پھر بھی اس قانون کو ترتیب دینے کے لئے ہم عام رائے ہموار کر سکیں تاکہ خواتین
مردوں کے برابر حیثیت کا فائدہ اٹھا سکیں جس کی وہ قرآنی احکامات اور جدید قانون کے
حوالے سے حقدار ہیں۔
مصنف سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی
اینڈ سیکو لرزم،ممبئی کے سربراہ ہیں۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islamic-sharia-laws/india’s-muslim-personal-law-is-not-shari’ah-law/d/1334
URL: