اصغر علی انجینئر(اردو سے
ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
دہشت گردی دنیا بھر میں ایک
وبا بن گئی ہے جس نے تنازعہ والے کچھ علاقوں جیسے عراق، پاکستان، افغانستان،کشمیر،شمال
مشرکی ہندوستان، ہندوستان کے کچھ اور حصے اور جنوبی تھائی لینڈ وغیرہ میں ہزاروں معصوموں
کی جانیں لے لی ہیں ۔مختلف تنازعہ والے علاقوں میں دہشت گردانہ تشدد کی الگ الگ وجوہات
ہیں اور یہ وجوہات سیاسی سے لے کر سماجی اقتصادی ناانصافیوں کے سبب
ہیں۔
تاہم، یہ واضح طور پر سمجھناضروری
ہے کہ دہشت گردی یوں ہی آسمان سے ٹپک نہیں
پڑتی ہے۔یہ اسی زمین پر حکمراں طبقے کی غلطیوں اور برے برتائو سے پیدا ہوتی ہے۔ لیکن
جلد ہی یہ اپنے وجوہات تلاش لیتی ہے اور یہ
صرف کسی کاروائی پر کیا گیارد عمل نہیں رہ
جاتا ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک رجحان بن جاتا ہے اور متعدد نجی مفادات جیسے سیاسی، اقتصادی
اور ہتھیاروں کے بازار سے جڑے مفادات اس کو راست یا بلواسطہ طور پر حمایت کرنے لگ جاتے
ہیں۔کوئی بھی دہشت گردانہ مہم بغیر اس طرح
کی حمایت کے زیادہ دن قائم نہیں رہ سکتی ہے۔
میں یہاں بتانا چاہوں گا کہ
‘اسلامی دہشت گردی’کی اصطلاح میڈیا کی پیدا
وار ہے اور یہ تعصب اورنادانی کے علاوہ جو کچھ بھی اسلامی یا اسلامی دنیا سے تعلق رکھتا
ہے اس کے تئیں دشمنی بھرے برتائو کو ظاہر کرتا ہے۔کوئی بھی مذہب بے وجہ تشدد کی حوصلہ
افزائی نہیں کر سکتا ہے جیسا کہ دہشت گرد کرتے ہیں۔مذہب بنیادی طور پر زندگی کی اعلیٰ
اقدار کو شامل رکھتے ہوئے باکردار اور با اخلاق زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتا ہے اور
اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔باقی سب کچھ ثقافت، سیاست یا دیگر مفادات ہیں۔کوئی طرز
عمل یا رویہ جو ان اخلاقی اقدار کی عکاسی نہیں کرتے ہیں وہ کچھ اور ہو سکتا ہے لیکن
مذہب نہیں۔
اس مضمون میں ہم اس دہشت گردانہ
تشدد کو لیکر فکر مند ہیں جو اسامہ بن لادین کی قیادت میں القاعدہ نے سال ۲۰۰۱ میں
نیو یارک کے بزنس ٹاور پر کیا تھا۔ہم یہاں اس پر غور نہیں کرنے جا رہے ہیں کہ اس نے
ایسا کیوں کیا؟دیگر مضامین میں ہم اس پر روشنی
ڈال چکے ہیں۔ہم یہاں پر اس حملے کے لئے اس نے جوجواز پیش کئے ان پر غور کریں گے۔
تمام تجزیہ کار اور اہل علم
اس بات پر متفق ہیں کہ اسامہ بن لادین اور ان کے پیروکاروں نے ظالم حکمرانوں کے خلاف
تشدد کے استعمال کے بارے میں ابن تیمیہ کے
مشہور فتویٰ کا سہارا لیا ہے۔ بغداد کو جب منگولوں نے تباہ کیا اور ناقابل تصور خونخواری
کی اور لاکھوں لوگوں کو بے رحمی سے قتل کر دیا اس حادثے کے کچھ سالوں بعدابن تیمیہ
پیدا ہوئے۔ابن تیمیہ خود ایک عظیم ماہر فقہہ
تھے اور امام حنبل کو ماننے والے تھے۔امام حنبل نے ظالم حکمراں کے خلاف بغاوت سے منع
کیا تھا کیونکہ اس کے نتیجے میں انتشار اور زیادہ خون خرابہ ہو سکتا تھا۔
تاہم ،ابن تیمیہ نے اپنے مکتب
فکر کی تعلیمات کے برخلاف ایک فتویٰ جاری کیا
جس میں اسلامی حکومت کے دوبارہ قیام اور شریعت کی حکمرانی کے لئے ظالم اور آمرانہ
حکمرانوں کے خلاف تشدد کے استعمال کو جائز قرار دیا۔ بہت سے دہشت گرد اپنے حملوں کے ‘اسلامی’ ہونے کے جواز کے طور پر
اس فتویٰ کا استعمال کرتے ہیں اور بہت سے نوجوان مسلمان جو یہ تک نہیں جانتے کہ ابن
تیمیہ کون تھے اور کن حالات میں انہوں نے یہ فتویٰ جاری کیا،اور وہ گمراہ ہو جاتے ہیں
اور ان کے فتویٰ میں اپنے عمل کے لئے ‘اسلامی جواز’حاصل کر لیتے ہیں۔
حالانکہ شروعات میں علماء
نے اس فتویٰ کے استعمال کی اجازت نہیں دی، خاموش رہے یا اپنے حریف کے وارث کے ساتھ
سر گوشی کی اور اس قدر دھیمی آواز میں کی کہ کوئی سن نہ سکے۔لیکن جب تشدد میں اضافہ
ہوا اور قابو سے باہر ہونے لگا تب ان کے ضمیر نے بغاوت کر دیااور ان میں سے کئی نے
فیصلہ کیا کہ وہ القاعدہ لوگوں کو بے وقوف بنا رہا ہے اسے بتانے کے لئے فتویٰ کی مخالفت کریں گے۔آج بہت سے علماء آگے
آرہے ہیں اور ابن تیمیہ کے فتویٰ کے استعمال اور غلط استعمال کی مذمت کر رہے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ ابن تیمیہ
ایک عظیم اسکالر اور معروف ماہر فقہہ تھے۔انہوں نے چار فتویٰ جاری
کئے جنہیں مجموعی طور پر ماردین فتویٰ کہا جاتا ہے۔ماردین، جنوب مشرکی ترکی میں ایک
قلعہ تھا جہاں مخلوط آبادی تھی۔اسامہ بن لادین نے مسلمانوں کو سعودی عرب کی شہنشاہیت کو اکھاڑ پھیکنے اور امریکہ کے خلاف جہاد کرنے کے
لئے بار بار اسی ماردین فتویٰ کا حوالہ دیا ہے ۔اسلامی دنیا کے معروف علماء نے مارچ
۲۰۱۰ کے
آخیر میں ماردین میں جمع ہوکر ابن تیمیہ کے فتویٰ پر غور و خوض کر نے کا فیصلہ کیا۔
اس تاریخی دستاویز کے خلاف
ان علماء نے فیصلہ کن رخ اختیاار کیا۔ان علماء
نے کہا کہ ‘جو بھی اس فتویٰ کا استعمال مسلمانوں یا غیر مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے جواز کے طور پر کرتا ہے وہ اس فتویٰ کی تشریح غلط
کرتا ہے۔’ان لوگوں نے مزید کہا کہ‘یہ کسی مسلمان فرد یا گروپ کے لئے درست نہیں ہے کہ
وہ خود جنگ یا جہاد کا اعلان کریں’
جو لوگ بھی ابن تیمیہ کے فتویٰ
کا ستعمال کرتے ہیں وہ اس سے بالکل انجان ہیں کہ کن حالات میں یہ فتویٰ جاری کیا گیا
تھا۔کوئی بھی چیز تب تک درست نہیں ہو سکتی جب تک اسے تاریخی سیاق و ثباق میں نہ دیکھا
جائے۔جیسا کی مندرجہ بالا سطروں میں ذکر کیا گیا کہ اس فتویٰ کو جاری کرنے میں ابن
تیمیہ خود اپنے مکتب فکر کے خلاف گئے۔اس کے باوجود تمام اسلامی اہل علم لوگوں نے اسکی
متفقہ طور پر توثیق نہیں کی تھی۔
اس کے علاوی بیلجیم کے اسلامی
اسکالر پروفیسر یحیٰ میکوٹ نے ماردین فتویٰ کے بارے میں کہا ہے کہ اس فتویٰ میں کچھ
ابہام ہے اور جسے دہشت گردوں کے ساتھ ہی مغربی اہل علم اور مبصرین حضرات نے نظر انداز کیا ہے۔
قابل غور ہے کہ ماردین میں
منعقد ہوئی اس کانفرنس میں سعوی عرب، ترکی،
ہندوستان، سینیگل، ایران، مراکش اور انڈونیشیاء سمیت ۱۵ ملکوں
کے علماء نے شرکت کی تھی۔ان میں بوسنیا کے مفتی اعلیٰ مصطفیٰ سیرک، ماریٹانیا کے شیخ
عبد اللہ بن بیاح اور یمن کے شیخ حبیب علی الجعفری شامل تھے۔
ابن تیمیہ نے اکیلے یہ فتویٰ
جاری کیا تھا لیکن یہاں اسلامی دنیا کے علماء کے اجتماع نے اس فتویٰ کو مسترد کر دیا،ان
میں جنوب مشرک میں واقع انڈونیشیاء اور مغربی افریقہ کے الجزائر کے علماء شامل تھے۔یہ دہشت گردی کی مذمت کرتا اسلامی دنیا کا نمائندہ جواب ہے۔اس سے نہ تو وہ دہشت گرد تشدد
کرنے سے رکنے والے ہیں اور نہ ہی وہ امن کے
لئے بات چیت کے واسطے آنے والے ہیں۔
پوری اسلامی دنیا سے مشترکہ
طور پر اس طرح کے انکار کرے اس کے مقابلے میں دہشت گردی کی حمایت میں لوگوں کے بہت ہی طاقتور
مفادات ہیں لیکن یہ یقینی طور پر معیار کو
طے کرتا ہے اور اس جانب اشارہ دیتا ہے کہ اسلامی
دنیا کس چیز کی حمایت کرتی ہے۔یہ تو طے ہے کہ اسلام مخالف بیان بازیاں رکنے والی نہیں
ہیں اور کئی مغربی مبصر اور اسلام مخالف طاقتیں اسلامی دنیا کے ان علماء کو اصل نمائندہ
نہ کہہ کر اسامہ بن لادین کو اسلامی دنیا کا
نمائندہ بتانا جاری رکھیں گے۔
یہ صرف ماردین میں جمع ہوئے
علماء ہی نہیں ہیں جو دہشت گردی کی مزمت کر رہے ہیں بلکہ اسلامی دنیا کے دیگر مقامات پر بھی کئی اور کانفرنس
اور اجتماع ہو رہے ہیں جن میں دہشت گردانہ تشدد کی مزمت کی جا رہی ہے۔اس موضوع پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور ان پر
بحث بھی جاری ہے۔اس سلسلے میں قابل ذکر کاموں میں
پاکستان کے مولانا طاہر القادری کا ہے جنہوں نے چھ سو صفحات پر مبنی ایک زخیم
کتاب لکھی ہے جس میں اسلام کی ابتداء سے لے
کر قرون وسطیٰ اور عصر حاضر تک کے علماء کے قول کو درج کیا ہے جس میں دہشت گردی ، معصوم اور نہتھے
لوگوں کی بے وجہ قتل کی مخالفت ہے
جسے اسلام میں سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔
اس طرح کا ایک اور سیمینار آکسفورڈ، لندن میں ہوا
جہاں اسلامی علماء بیلجیم یونیورسٹی میں اسلامی
تواریخ اور ثقافت پڑھانے والے پروفیسر یحیٰ میکوٹ
کی کتاب پر تبصرہ کرنے کے لئے جمع ہوئے۔‘مسلمان، غیر مسلم حکومت کے تحت’ نام
کی یہ کتاب ماردین فتویٰ کے نام سے مشہور ابن تیمیہ کے چار فتویٰ پر لکھی گئی ہے۔اس
کتاب میں ابن تیمیہ کی زندگی،ان کے کام کے علاوہ ان کے جاری کئے گئےچاروں فتویٰ کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
یحییٰ میکوٹ کا کہنا ہے کہ ابن تیمیہ نے یہ فتویٰ ایک خاص
تاریخی تناظر میں جاری کیا تھا اور اس لئے اس حالت کو سمجھنا نہایت ضروری ہے جس میں یہ فتویٰ جاری کیا گیاورنہ اسے سمجھنے بلکہ اس کی تشریح کےبھی غلط ہونے کے امکان ہوں گے۔ابن تیمیہ کا ماردین
فتویٰ اس کی بہترین مثال ہے۔ماردین لشکری اعتبار سے ایک خاص مقام پر ہے جو چاروں جانب
قلعے سے گھرا ہوا اور جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس پر فتح نہیں حاصل کی جا سکتی
ہے۔خاص مقام پر ہونے کے سبب یہاں سے اوپری میسوپوٹامیہ کا پورا میدان نظر آتا ہے۔
حالانکہ فتویٰ جاری ہونےکی
عین تاریخ معلوم نہیں ہے لیکن ابن تیمیہ نے اسے ایک سوال کہ ماردین دارالسلام
ہے یا دارا لحرب کے جواب میں جاری کیا تھا۔پروفیسر یحیٰ کے مطابق اس سلسلے میں فتویٰ
میں ابہام ہے اور فتوٰ سے اس کے بارے میں کوئی واضح جواب نہیں آتا ہے۔
ان کے اپنے الفاظ میں ‘کیا
ماردین جنگ کا یا امن کا مسکن ہے؟یہ دونوں کا مرکب ہے جس میں دونوں باتیں ہیں۔ یہ نہ
تو امن کے مسکن کی حالت میں ہے جہاں پر اسلامی
احکامات پر عمل ہوتا ہو کیونکہ اس کی فوج مسلمانوں پر مبنی ہے اور نہ تو یہ جنگ کا
مسکن ہے جہاں کے رہنے والے کافر ہیں۔ بلکہ
یہ ایک تیسرے طرح کا مسکن ہے جہاں مسلمانوں
کے ساتھ مخصوص برتائو کیا جاتا ہے اور جو اسلام
کے راستے سے ہٹتا ہے اس کے ساتھ اسی کے مطابق برتائو ہوگا۔’
اس طرح یہ قابل غور ہے کہ
ابن تیمیہ نے یہ کہنے سے انکار کر دیا تھا
کہ ماردین امن کایا جنگ کا مسکن ہے اور یہ سب سے اہم پہلو جسے
نہ صرف اسامہ بلکہ مغربی علماء نے بھی نظر انداز کیا اور ابن تیمیہ کو برا کہتے ہیں۔آج دنیا مجموعیت والی ہو گئی ہے۔یا تو مسلمانوں کی خاطر
خواہ اکثریت کسی ملک میں ہے یا مسلمان اقلیت کے طور پر رہ رہے ہیں۔
جو علماء دہشت گردی کی مزمت
کر رہے ہیں وہ آج کی دنیا کی مجموعیت کے حقائق پر بار بار زور دے رہے ہیں اور ایسے
میں قرون وسطیٰ کے علماء کے ذریعہ دیے گئے کسی بھی فتویٰ کو درست نہیں کہا جا سکتا ہے۔ماردین کے جیسا
کوئی بھی فتویٰ بغیر حالات کو دھیان میں رکھے دیا جا سکتا ہے اور ابن تیمیہ کے اپنے
الفاظ میں مسلم علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اگر مسلمانوں کو امن اور پوری مذہبی آزادی کی ضمانت کے ساتھ رہنے کی اجازت ہو تو ایسے مقام
کو دارالسلام یعنی امن کا مسکن نہیں کہیں گے۔ایسے علاقے میں کسی بھی طرح کے تشدد کو
جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے اور اس طرح جدید دنیا میں دہشت گردی کے لئے کوئی جگہ
نہیں ہے۔
مصنف سینٹر فار اسٹڈی آف
سوسائٹی اینڈ سیکو لرزم، ممبئی کے سربراہ ہیں۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/radical-islamism-and-jihad/ibn-taymiyyah-and-his-fatwa-on-terrorism/d/2713
URL: