اصغر علی انجینئر
1جون ، 2012
(انگریزی سے ترجمہ‑
سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
گزشتہ سال خواتین کے حقوق پر لیکچر کی سیریز کے سلسلے
میں، میں افغانستان گیا تھا۔ میں نے ممتاز
علماء کے اجتماع میں بھی اس موضوع پر خطاب
کیا اور جو مسائل بحث کے دوران سامنے آۓوہ عورتوں کے بارے میں تھا کہ وہ ناقص العقل اور ناقس الا یمان ہوتی ہیں۔
میں نے پوچھا کہ کیا
ان کی یہ تعریف قرآن مجید میں ہے؟ ، جیسا کہ میں نے اس مقدس کتاب میں اسے
کہیں بھی نہیں پایا۔ جب میں نے پوچھا کہ کیا
یہ حدیث میں تھیں، تو جواب ہاں میں تھا۔
تاہم، میں نے نشاندہی کی کہ جو بھی حدیث قرآن کے خلاف جاتی ہو وہ مستند نہیں مانی جا سکتی ہے۔
تمام علماء اس پر اتفاق
کرتے ہیں کہ قرآن مجید مردوں اور عورتوں کو مساوی حقوق دیتا ہے اور دونوں کو برابر
کا وقار حاصل ہے۔ پھر ایک عورت میں شعور اور ایمان کی کمی کیسے ہو سکتی ہے؟ ایک
عالم جو خواتین کی کوتاہیوں پر بضد تھے، وہ جواب دینے کے قابل نہیں تھے اور وہ جواب
دینے کے بجائے بڑبڑائے اور بیٹھ گئے۔
حال ہی میں میں نے اسلام
کے ایک عظیم اسکالر اور کچھ حد تک لبرل خیالات
والے مولوی نذیر احمد کی لکھی کتاب کو پڑھا، جس میں انہوں نے آدم علیہ السلام کی تخلیق اور ان کو ممنوعہ پھل کھانے کے سبب جنت سے نکال دیئے جانے
کی کہانی کا ذکر کیا ہے۔
مولوی نذیر احمد نے ذکر کیا
ہے کہ اگرچہ شیطان آدم علیہ السلام کو
گمراہ نہیں کر سکا کیونکہ وہ حرام پھل نہ کھانے کے اپنے ارادہ میں مضبوط تھے، شیطان مائی حوا کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوا کیونکہ وہ شعور میں کم تھیں اور انہوں نے آدم علیہ السلام کو قائل کیا تھا، جسکی اجہ سے دونوں نے پھل کھا لیا اور جنت سے نکالے گئے۔
یہ بات انتہائی حیرت کا
سبب ہے کہ مولوی نظیر احمدکے قد کے ایک
عالم نے قرآن سے رجوع کرنے کی زحمت بھی نہیں
اٹھائی، اس لیۓ کہ قرآن کہیں بھی یہ
نہیں کہتا کہ شیطان مائی حوا کو
گمراہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ قرآن
نے گمرا ہ ہونے کے لئے براہ راست
آدم علیہ السلام کو مورد الزام ٹھہرایا ہے جس کے سبب انھیں جنت سے نکال دیا گیا
تھا۔
سورۃ طہٰ کی 121 ویں آیت
میں کہا گیا ہے " اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو (وہ اپنے
مطلوب سے) بےراہ ہو گئے" یہاں آدم علیہ السلام کو براہ راست خود گمراہ ہونے اور بہک جانے کے لئے
ذمہ دار ٹھرایا گیا ہے، جبکہ مائی حوا کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔
اس کے باوجود، مولوی نذیر
احمد اور زیادہ تر ہمارے علماء حضرات فتنہ
کے لئے اور آدم علیہ السلام کو شجر ممنوعہ کا پھل کھانے پر آمادہ کرنے کے لئے مائی حوا کو مورد الزم
ٹھہراتے ہیں۔ اور قرآن کے دلائل کو مکمل
طور پر نظر انداز کرتے ہیں اور علماء اس مسئلے میں حدیث پر انحصار تے ہیں ۔ انہوں نے قرآنی دلائل کو اس طرح کیوں خارج کر دیا؟
اس کی وجہ عام طور پر ہمارا خواتین مخالف رویہ اور سوچ ہے، جو حکم دیتا ہے کہ خواتین مردوں سے کمتر ہیں اور
مردان پر حکمران ہیں۔ یہ رویہ کہاں سے آتا ہے؟ قدرتی طور پر
پدرانہ اقدار سے جو ہمارے معاشرے میں مقبول ہے۔
یہ سمجھے بغیر کہ ہمارے
علماء دوسرے ادوار کی پیداوار تھے اور اپنے وقت کے قیدی تھے ہم اسی طرح سوچتے
رہینگےاور ممتاز علماء کا حوالہ دیتے رہیں
۔ دوسرے الفاظ میں، ہمیں اپنے مذہب کے تئیں ایک سماجی اور ثقافتی نقطہ نظر اپنانے
کی ضرورت ہے۔
جسے ہم کہتے ہیں کہ اسلام صرف قرآن اور سنت پر ہی نہیں بلکہ
ہمارے سماجی اور ثقافتی اقدار پر بھی مبنی ہے۔ اس وقت کا سماجی ڈھانچہ نہ صرف پدرانہ تھا بلکہ مقبول پدرانہ اقدارہماری قرآن فہمی اور فقہا کی تفہیم میں بھی گہرائی سے سرایت کر
گیا ، اگرچہ ہم اپنے فقہا کو
الہی مانتے ہیں۔
ماضی میں سماجی ڈھانچہ
جاگیردارانہ اور پدرانہ تھا جس میں
خواتین کے کسی بھی عوامی کردار کے حق کو چھین لیا گیا تھا اور ان پر شدید پابندیاں عائد تھیں۔ مردوں اور
عورتوں میں تفریق کرنا بھی خواتین
کے متعلق ایک عام رویہ بن گیاتھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین
فعال کردار ادا کرتی تھیں، مختلف عوامی بحث میں حصہ لیتی تھیں اور یہاں تک کہ میدان جنگ میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھیں۔
تاہم جیسے ہی اسلام
شہنشاہیت کے دور میں داخل ہوا اور
جاگیردارانہ کلچراور حاکمانہ
کلچرکا دور شروع ہوا یہ سب ختم ہو گیا مطلق العنان حکمرانوں نے بڑے حرم قائم
کئے اور خواجہ سرا کی حفاظت میں خواتین کو اپنا قیدی بنا کر رکھا ۔ یہ وہ ماحول
تھا جس میں خواتین نے وہ حق کھو دیئے تھے جو انہیں قرآن اور سنت نے عطا کئے تھے۔ قرآن کے فرمان کو مکمل طور پر نظر اندازکرتے ہوۓ
مرد وں کو عورتوں سے افضل بنا کر پیش کیا جاتا رہا ۔
قرآن نے ہر لحاذ سے خواتین
کو مساوی حقوق دیئے ہیں (دیکھیں آیات 33:35 اور 2:228)۔ مقدس کتاب میں شوہر اور بیوی کے جیسے الفاظ کا
استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ زوج یا زوجہ
کا استعمال کیا ہے (زوج یا زوجہ کے معنی
جوڑے میں سے ایک کے ہیں)۔ اس طرح شوہر اور
بیوی کا حوالہ زوج کے طور پر دیا گیا ہے اور ہمارے علماء کرام نے بعد کے زمانے میں جاگیردارانہ اور پدرانہ ثقافت کے زیر
اثر آکر ایک حدیث کا حوالہ دینے
لگے ہیں، کہ اگر کسی انسان کو سجدے کی اجازت ہوتی تو میں، ( نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم) بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر
کا سجدہ کرے۔
قرآن نے بھی لفظ بعل کے استعمال سے گریز کیا ہے جس
کا عربی زبان میں معنی ایک دیوتا ہے۔ قرآن
نے لفظ بعل کو صرف تین بار اور وہ بھی ماضی
کی کہانیاں بیان کرنے کے لئے استعمال کیا ہے، دوسری جبکہ قرآن نے 'شوہر' کے لئے لفظ زوج کا استعمال کیا ہے۔ لفظ بعل کے استعمال سے گریز کیا گیا ورنہ
اس کی غلط تشریح ہو سکتی تھی۔ اسلام میں شوہر جوڑے کے نصف سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے جو شوہر اور بیوی دونوں کی برابری کو ظاہر کرتا
ہے۔ پھر بھی ہمارے علماء بیوی پر شوہر کو
فضیلت دیتے ہیں۔
چونکہ عورتوں کو ان کے
گھروں تک اور ان کے کردار کو ایک گھریلو
خاتون کے طور پر محدود کر دیا گیا ہے، ان میں باہر کی دنیا کے تجربے کا فقدان ہوگیا، جبکہ
والدین نے سوچا کہ ایک شخص جس کی قسمت گھریلو خاتون بننا ہے اسے کسی بھی اعلی تعلیم
کی ضرورت نہیں ہے۔ اس طرح عورتیں عام طور پر ان پڑھ رہیں اور گھر سے باہر
عوامی زندگی کا کوئی تجربہ حاصل نہیں کر سکتی تھیں .اسی لئے
انہیں ناقص العقل کے طور پر بیان کیا
گیا۔
آج کے حالات تیزی سے تبدیل
ہو چکے ہیں، خواتین زندگی کے ہر شعبے میں کام کر رہی ہیں اور عظیم کامیابیاں حاصل کر رہی
ہیں۔ اصل میں، انہوں نے خود ثابت کر دیا ہے کہ وہ کئی شعبوں میں مردوں سے بہتر ہیں۔ انہیں ناقص العقل کہنا خود کو
بے شعور ظاہر کرنا ہے۔
مصنف، اسلامی سکالر ہیں جو سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرزم، ممبئی، کے سربراہ ہیں۔
URL for English article:
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/how-woman-be-bereft-awareness/d/7541