اصغر علی انجینئر
(انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ)
۱۱ستمبر
۲۰۰۱ کو
امریکہ کے ٹون ٹاور پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سے مغربی ممالک میں جہاد کاغلط معنی
وہاں کے لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گیا ہے اوریہ
ایک بدنامی پیدا کرنے والا لفظ بن گیا ہے۔ پاکستان، افغانستان اور عراق سمیت مسلم دنیا کے بڑے حصے میں دہشت گردی کی موجودگی
ہے۔اکثر وہاں پر دہشت گردانہ تشدد قابو سے باہر نظر آتا ہےاور مسلمان خود ان دہشت
گردوں کے نشانے پر ہوتے ہیں۔ علماء نے بارہا خودکش حملوں اور دہشت گردی کی مذمت کی
ہے اور اس فعل کوغیر اسلامی قرار دیا ہے۔تشدد
کے لئے اسلام میں کوئی جگہہ نہیں ہے اسے واضح کرنے کے لئے علماء کےکئی مشاورتی اجتماع اور کانفرنسیں دنیا
کے مختلف حصوں میں ہوئے ہیں۔
گزشتہ ماہ سینیگل سے لے کر انڈونیشیاء تک کے معروف علماء ترکی کے شہر ماردین میں جمع ہوئے اورقرون وسطیٰ
کے زمانے کے فتویٰ جسے ماردین فتویٰ کے نام
سے جانا جاتا ہے اور جسے ابن تیمیہ نے جاری کیا تھا اسےاتفاق رائے سے مسترد کردیا اور کہا کہ اس فتویٰ
کے لئے عصر حاضر کی تمام عقائد اور شہری حقوق
کا احترام کرنے والی گلوبلائزڈ دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ماردین فتویٰ کا حوالہ اسامہ بن لادین
نے اپنے دہشت گردانہ حملوں کے جواز کے طور پر پیش کیا تھا۔ماردین میں علماء کے کانفرنس
کے بعد ۱۲
اپریل کو سعودی عرب کے اعلیٰ مذہبی ادارے نے بھی دہشت گردی
کی مذمت کی۔اس ادارے نے ایک فتویٰ جاری کیا جس میں دہشت گردانہ کارروائی کی مذمت کی
گئی اور اس کی مالی مدد کو جرم قرار دیا گیا۔۔فتویٰ کے مطابق جو بھی اس کارروائی میں
مالی تعاون کرتے ہیں وہ بھی اس جرم کے حصے
دار ہیں۔اس طرح دہشت گردی کی حمایت کی بنیادوں کو ختم کر دیا گیا۔ تاہم ، اس طرح کے فتؤں سے دہشت گردوں پر خاطر خواہ اثر کی
توقع کوئی کم ہی کر سکتا ہے۔ حالانکہ ان مسلمانوں کوبڑی مشکل سے ہی دہشت گردوں سے الگ کر پائے گا
جو اپنے مذہب کی بنیادوں پر اس طرح کے حملوں کا جواز پیش کرتے ہیں۔اس کے باوجود
یہ معمولی کامیابی نہیں ہے۔
ہماری توجہ اب جہاد سے اجتہاد پر ہونی چاہیے جس کے معنی اسلامی
دنیا کو درپیش مسائل کو دانشوارانہ طور پر سمجھنے کی کوشش کرنا اور قرآن کریم میں
درج بنیادی اصولوں اور اقدار کے مطابق ان کے
حل تلاش کرنا ہے۔اجتہاد کو بہت سے علماء نےبشمول
علامہ اقبال نےاسلام اور اسلامی قانون کی متحرک
روح کہا ہے۔
اسلام کے ابتدائی دور میں اجتہاد کو عمل میں لایا جاتا تھا۔بعد میں اس کے
دروازے بند ہو گئے، ۱۲۵۸
میں منگول فوج کے
ذریعہ بغداد کو تباہ کرنے کے بعد بھی بہت سے
علماء نے اجتہاد کا عمل جاری رکھا۔المیہ یہ ہے کہ اس کے آدھی صدی بعدابن تیمیہ نے
اپنے خود کے حنبلی مکتب فکر کی تعریف پیش کی اور جہاد پر اپنا فتویٰ جاری کیا۔اس طرح
اجتہاد کے دروازے بند ہو گئے اور جارحانہ جہاد کے دروازے کھل گئے۔
جہاد کے نئے اوتار دہشت گردی
کی اب اسلامی دنیا کے تمام معروف علماء نے
مزمت کر دی ہے اور یہ وقت ہےکہ نئے سرے سے
اجتہاد پر عمل شروع کیا جائے تاکہ آج مسلم معاشرے کو درپیش قانونی اور سماجی مسائل کو حل کیا جا سکے۔اندھی تقلید اور جمود اسلامی قانون کے لئے مصیبت بن گیا ہے۔جبکہ ہمارے
آس پاس کی دنیا میں خاطر خواہ تبدیلیاں ہو رہی ہیں لیکن ہم ۱۲۵۸ کے
پہلے کے فقہا کی مذہبی اور قانونی معاملات میں تقلید کر رہے ہیں۔
ہم نئے سرے سے سوچنے اور قرآن
سے ترغیب لینے سے قاصر رہے ہیں۔ہم کچھ اماموں اور قرون وسطیٰ کے کچھ علماء کا نام بطور
حوالہ دیتے رہے ہیں اور یہ ہمارے لئےقرآن سے بھی زیادہ مقدس بن گئے۔میں ایک نئی حکمت
عملی اور اجتہاد کے دروازے کو کھولنے کے لئے چند بنیادی اقدام کی تجویز یہاں پیش کر رہا ہوں۔
اوّل، کچھ علماء اور مسلم
دانشوروں (ایسے بہت سے ہیں جنہوں نے روایتی اسلامی تفسیر، حدیث اور فقہہ کی تر بیت حاصل کی ہے اور جو تبدیلی کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں) کو کم از کم
ہمت دکھا نی چاہیے اور نئی حکمت عملی وضع کرنے کے لئے، ذاتی مفادات سے مقابلہ کرنے
اور مذہبی اداروں کو واپس ان کے حالت میں مضبوط کرنے کے لئے آگے آنا چاہیے۔
دوم، تمام مکتب فکر سے بالا تر ہمیں ایک متحدہ مکتب فکر تیار کرنے کی ضرورت ہے جس کا اطلاق تمام مسلمانوں
پر ہو۔یہ اسلامی اتحاد کے کھوکھلے نعرے کے معانی کو اور وسعت عطا کرے گا۔ موجودہ تمام
مکتب فکر کی تمام شکوں کو مسترد کرنااس کوشش کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے بلکہ تمام مکتب
فکر میں قرآنی اصول اور اقدار کے لہاز سے
سب سے بہتر ہو اس کا انتخاب کرنے سے ہے۔
سوم، ہمارے زمانے اور وقت کے مخصوص مسائل پر ایک نیا
اجماع (اتفاق رائے) قائم کی جانی چاہیے۔اگر اسلامی کی پہلی تین صدیوں میں علماء نے
اسے کر دکھایا تھا تو آج ہم کیوں نہیں کر
سکتے ہیں؟ گزشتہ زمانے کے علماء کا اجماع ان کے اپنے مکتب فکر تک ہی محدود تھا۔ آج
گلو بلائذڈ دنیا میں تما مکتب فکر کے درمیان وسیع اتفاق رائے کو قائم کرنا ہوگا۔اطلاعات
و مواصلات کی تکنیک کے جدید آلات نے اسے آسان
کر دیا ہے۔
قرون وسطیٰ کے زمانے میں اسلامی فقہ میں قیاس اور اجماع کو استعمال کیا جاتا
تھا، یہ دونوں قانونی مسائل کے حل کے لئے دانش
مند لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ہم آج عالمی
پیمانے پر اس سے مشابہت رکھنے والی بنیادوں کو کیوں نہیں تیار کر سکتے ہیں؟شرعی قانون
میں جسے خداداد کہا جاتا ہے وہ کچھ اور نہیں
بلکہ عرب اور فارس کی تہذیب کے مقامی طور پر، ثقافت میں رچے بسے عناصر اور رسومات کے علاوہ کچھ اور نہیں ہیں، جو صدیوں پہلے موجود
تھے۔
ہمیں اپنے زمانے کے لئے شرعی
قانون کوتشکیل دیتے وقت قرآن کی ہی طرح ایسے
تمام عناصر سے بالاتر ایک عالم گیر نقطہ نظر کو تیار کرنا ہوگا۔اگرچہ شریعت کا منبع
تبدیل نہیں ہو سکتا ہے، لیکن شرعی قانون کو
اجتہاد اور اجماع کی بنیاد پر تبدیل کیا جانا چاہیے جو عصر حاضر کے مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے والا
ہو۔
مصنف اسلامی اسکالر اور سینٹر
فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرزم ،ممبئی کے سر براہ ہیں۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/ijtihad,-rethinking-islam/from-jihad-to-ijtihad/d/2821
URL: