New Age Islam
Thu Oct 10 2024, 01:21 AM

Urdu Section ( 24 Sept 2011, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Five-Point Agenda for the Islamic World to Get Rid Of Backwardness پسماندگی سے چھٹکارا پانے کیلئے اسلامی دنیا کیلئے پانچ نکاتی ایجنڈہ

 

By Asghar Ali Engineer

HERE is no doubt that the Islamic world is lagging far behind today from other countries in several important fields including education, science and technology and except a few oil rich Arab nations, it is facing poverty and illiteracy. Also, it lacks sense of unity as some Muslim countries are closer to the West, others are hostile towards western countries. There are grave ideological differences too. Also, Muslims have poor record of human rights situation and especially status of women.

Here we present five suggestions which can be debated and discussed by Muslims and can make additions or deletions to these suggestions so that Muslims could achieve a high status among the nations of the world in all fields. Muslims have a tendency to invoke past glory and what they had achieved during Abbasid period in the filed of philosophy, science and technology. It is quite natural that when we have nothing to show at this juncture we, in order to hold our head high, invoke past glories. However, it does not help.

Before we discuss these suggestions, I would also like to stress here that we Muslims are too pre-occupied with theological issues and rush to ulema for fatwas even in fields where they have no skills to guide. It is again because of poverty and illiteracy of poor Muslim masses in entire Muslim world. Unfortunately the ulema that are trained only in purely theological issues – and a theology which was evolved during medieval ages –dominate the Islamic world.

URL for English article:

 http://www.newageislam.com/the-war-within-islam/a-five-point-agenda-for-islamic-world-to-get-rid-of-backwardness/d/5446

 

پسماندگی سے چھٹکارا پانے کیلئے  اسلامی دنیا کیلئے پانچ نکاتی ایجنڈہ

اصغر علی انجینئر

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی دنیا تعلیم ، سائنس او رٹکنا لوجی سمیت کئی شعبوں میں دیگر ممالک کے مقابلے بہت پیچھے ہے اور کچھ تیل کی دولت سے مالا مال ملکوں کے علاوہ سبھی غربت اور ناخواندگی کا سامنا کررہے ہیں۔ ان میں اتحاد کا بھی فقدان ہے کیو نکہ کئی مسلم ممالک مغربی ملکوں کے دوست ہیں جب کہ مغربی ممالک کے دشمن ہیں۔ ان میں شدید نظریاتی اختلافات بھی ہیں۔ انسانی حقوق اور خواتین کے حالات کے معاملے میں بھی ان ممالک کا ریکارڈ خراب ہے۔

یہاں ہم پانچ تجاویز پیش کررہے ہیں جن پرمسلمان بحث اور تبادلہ خیال کرسکتے ہیں اور ان تجاویز میں اضافہ یا حذف کرسکتے ہیں تاکہ مسلمان دنیا کے ممالک کے درمیان تمام شعبوں میں ایک اعلیٰ مقام حاصل کرسکیں۔ مسلمانوں کی ایک عادت ہے کہ وہ ماضی کے بہترین ادوار کا ذکر کرتے ہیں اور خلیفۂ عباس کے زمانے میں ان لوگوں نے فلسفہ ، سائنس اور ٹکنا لوجی کے میدان میں جو کامیابیاں حاصل کی تھیں اس کا ذکر کرتے ہیں ۔ آج جب ہمارے بتانے کےلئے کچھ خاص نہیں ہے تو فخر سے اپنا سر اوپر رکھنے کے لئے ہم ماضی کے تابناک ادوار کا ذ کر کر تے ہیں۔ تاہم یہ ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہونچاتا ہے۔

اس سے پہلے کہ ہم تجاویز پر غور کریں، میں اس بات پر بھی زور دینا چاہوں گا کہ مذہبی مسائل میں ہم پہلے سے ہی اپنا ذہن بنا کر چلتے ہیں اور ان معاملات میں بھی علما سے فتویٰ کے لئے رجوع کرتے ہیں جن کی ہدایت کے بارے میں ان کے پاس کوئی علم نہیں ہے۔ پوری اسلامی دنیا میں عوام کی غربت اور ناخواندگی کی وجہ سے ایسا ہے۔اوربدقسمتی سےان علما کا پوری اسلامی دنیا پر غلبہ علما جن کو صرف مذہبی امور میں تربیت دی جاتی ہے اور مذہب سے متعلق وہ علوم سکھائےجاتے ہیں جو قرون وسطیٰ میں وجود میں آے۔

اسی لئے بہت سے فتویٰ جاری ہوئے اور اس سلسلے میں سعودی عرب کے بادشاہ کو علما کو احتیاط برتنے کا حکم جاری کرنا پڑا کیو نکہ یہ فتویٰ تنازعہ او رمیڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئے تھے ۔ آپسی تضاد کی نوعیت کے بہت  سارے فتاوے جاری کئے جاتے ہیں ۔ جو جدید مشکل مسائل کا شاید ہی حل پیش کرتے ہیں۔ اسلام ملاّ پن کی ہمت افزائی نہیں کرتا ہے اور ادارتی ملاّ پن کی تو قطعی نہیں ، اس کے باوجود اسلامی ملک میں یہ فروغ پارہا ہے۔

اس سلسلے میں ہماری پہلی تجویز یہ ہے کہ اسلامی دنیا کو تعلیم حاصل کرنے اور اسے پھیلانے کے لئے آگے آنا چاہئے ۔مسلم ممالک اپنے جی ڈی پی کا کم از کم 2سے 3فیصد تعلیم پر صرف کریں ۔پہلا مقصد صدفیصد خواندگی حاصل کرنا ہونا چاہئے ۔ پرائمری تعلیم پر کئے گئے صرف کے بعد بہت اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

ہماری دوسری تجویز سائنس اور ٹکنا لوجی کے بارے میں ہے۔ مسلم ممالک سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبے میں بہت پیچھے ہیں۔ ایک وقت تھا جب مغربی ممالک کے لوگ مسلمانوں سے سیکھتے تھے۔ آج مسلم دنیا پوری طرح مغربی ممالک پر انحصار کرتی ہے۔ اس حالت کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

آج تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک امریکہ اور دیگرمغربی ممالک سےہتھیار خریدنے پر لاکھوں ڈالر خرچ کرتے ہیں، لیکن اپنے ہی لوگوں کی تعلیم پر خرچ کرنے سے بچتے ہیں۔ مغربی ممالک ان ملکوں کا دوطرح سے استحصال کرتے ہیں ، وہ ان ممالک کوہتھیار فروخت کرکے زبردست منافع کماتے ہیں اور اپنے فوجی بیس بنا کر ان ہی ہتھیارو ں کا استعمال مشرقی وسطیٰ میں اپنی حفاظت میں کرتے ہیں ۔ کسی مسلم ملک نے سائنس کے شعبہ میں نوبل انعام حاصل نہیں کیا ہے ۔ عبدالسلام جیسے سائنس داں جب اپنے ملک پاکستان سے باہر کام کررہے تھے تب انعام حاصل کرنے کے قابل بن گئے تھے ۔ اگر دبئی ایک بڑی بین الاقوامی بازار بن سکتا ہے تو کوئی دوسرا عرب ملک کیوں علم کا ایک بڑا مرکز نہیں بن سکتا ہے۔

فتویٰ کلچر پورے عالم اسلام  کے لئے ایک لعنت بن گیا ہے۔ مذہب سے جڑے چھوٹے چھوٹے معاملات او رفقہی مسائل میں کفر کا فتویٰ جاری ہوجاتا ہے اور یہاں تک کہ پھر سے کلمہ پڑھنے اور نکاح کرنے کا حکم دیا جاتا ہے ان میں مذہب اسلام کے دوسرے فرقے کے لوگوں اور غیر مسلمانوں کے لئے شدید تعصب پایا جاتا ہے۔

ایسا سیکولر تعلیم اور خصوصی طور پر مدرسہ اور مذہبی تعلیم پرخاص زور دینے کا  سبب ہے ۔ اس کے علاوہ مسلم عوام کے درمیان مفلسی بھی ایک وجہ ہے۔ کہنا ہوگا کہ یہ سارے آپس میں جڑے ہوئے معاملات ہیں۔ ایک معاملہ دوسرے کو طاقت بخشتا ہے ۔روایتی علما کے اثر ورسوخ کو شامل رکھا جائے لیکن صرف مذہب سے جڑے مسائل تک ہی ان کو محدود رکھا جانا چاہئے ۔مذہبی رواداری کو اسلامی فریضہ قبول کیا جانا چاہئے اورجیسا کہ قرآن میں حضرت آدمؑ کے بارے میں ذکر ہے اور کئی بار دہرایا بھی  گیا ہے کہ نظریاتی معاملے میں سزا یاجزا کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہئے۔

کسی عالم کو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ بتائیں کہ کون کافر ہے ، کون صحیح راستے پر ہے اور کون غلط ۔ اس کے علاوہ ایک فرقے کے دوسرے سے اختلافات اتنے شدید ہیں کہ ان علما کے نزدیک دوسرا فرقہ غلط راستےپرہے اور وہ لوگ جہنم میں جائیں گے ۔ یہ ہمیں کہا لے جائے گا۔

ہمارے تمام مدرسوں میں یہ بتایا جاتا ہے کہ دوسرے فرقے کے مسلمان غلط راستے پر ہیں، اور اس کے ذریعہ مذہبی عدم رواداری سکھائی جاتی ہے اور طالب علموں کی مناظرہ کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ اس طرح آج کے مذہبی تعلیمی نظام میں عدم رواداری پائی جاتی ہے ۔ اس کو پوری طرح سے ختم کرنا ہوگا۔ جب دہشت گردانہ کاروائیاں اختتام پر تھیں تو مشرق وسطیٰ کے کئی تعلیمی ماہرین نے اسی طرح کہ رائے کا اظہار کیا تھا۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ایسے علما کی جماعت آگے آئے جو فرقہ خاص کے تنگ نقطہ نظر سے اوپر اٹھ کر متعدد شعبوں میں ہوئی ترقیاتی کی روشنی میں قرآنی تعلیمات کی عکاسی کرسکیں۔

ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ قرون وسطیٰ کے عظیم فقہا نے فقہہ کو اپنے حالات اور ضرورتوں کے مدنظر تیار کیا تھا ۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ فقہہ انسانی کوشش کا نتیجہ ہے اور یہ خدا اور انسانی ضرورتوں کے بیچ شراکت کا نتیجہ ہے اور کوشش کبھی بھی ابدی نہیں ہوسکتی ہیں۔ اسلامی دنیا کی اس وقت سب سے بڑے مشکل یہ ہے کہ یہ قرآن کی ہی طرح ماضی کے فقہہ کو ابدی مان رہا ہے۔

ہمیں اپنی فقہہ کو متحرک اور جدید چیلنجز کا حل پیش کرنے والا بنانا چاہئے ۔آج مسلم فقہا کو آگے آکر اس سمت میں دنیا کی رہنمائی کرنی چاہئے اورنئی فقہہ جیسے فقہہ امن ، فقہہ ماحولیات ،فقہہ آزادی ، تیسری دنیا سے متعلق فقہہ تخلیق کرنی چاہئے اور جس کے بارے میں قرآن بہترین رہنمائی فرماتا ہے۔

اس مضمون کے مصنف نے بھی آزادی اور امن سے متعلق فقہہ کو وضع کرنے کی کوشش کی ۔ جب کوئی قرآن پڑھتا ہے اور ان چیلنجز کی روشنی میں آیات پر غور کرتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے اور قرآن کو خدا کا معجزہ ماننا شرو ع کردیتا ہے۔ بدقسمتی سے مسلم فقہا ماضی میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ وہ قرآن ان کی اہمیت کا احساس کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔

اس کےلئے مذہبی آزادی اور رواداری ضروری ہے ۔قرآن کے نزدیک مذہبی آزادی بہت بنیادی ہے اور کوئی بھی حقیقی ایمان بغیر ضمیر کی آزادی کے ممکن نہیں ۔آج عالم اسلام میں ہم مشکل سے ہی مذہبی آزادی پاتے ہیں اور یہ ہمارے جمود کی ایک وجہ ہے ۔جیسے ہی کوئی اس آزادی کا استعمال کرتا ہے وہ اپنے خلاف ایک فتویٰ کو دعوت دیتا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کے عظیم ادارے جیسے اظہر پرکوئی بھی فخر کرسکتا ہے لیکن وہ بھی آج اسی مسئلے کا شکار ہے ۔ جب اس کے بڑے اسکالر ابوزید ناصر نے تنظیل اور تعویل (وحی، انسانوں کے ذریعہ وحی کی فہم) کو سمجھنے کی کوشش کی تو انہیں فوراً کافر قرار دے دیا گیا ،اور یہاں تک کہ ان کے نکاح کو بھی فاسق قرار دیا گیا اور ان کو مصر سے بھاگنا پڑا۔اس سے قبل پاکستان کے پروفیسر فضل الرحمٰن جو ایک عظیم اسکالر تھے ،ان کو بھی پاکستان چھوڑ کر شکاگو جانا پڑا اور اب وہاں پڑھاتے ہیں۔ ہم اپنے عظیم اسکالر وں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے ہیں جو نئے مذہبی نقطہ نظر اور اسلامی وراثت میں تعاون کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہماری تیسری تجویز خواتین کی حیثیت کے بارے میں ہے۔ مسلمان کبھی یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتا ہے کہ اسلام نے خواتین کو برابر کے حقوق عطا کئے ہیں اور اعلیٰ مقام عطا کیا ہے لیکن خواتین کو بااختیار کرنے کے معاملے میں عالم اسلام کا ریکارڈ ناقص ہے۔ اصل میں خواتین کی حیثیت کے معاملے میں عالم اسلام کا ریکارڈ پوری دنیا میں سب سے خراب ہے ۔کافی سالوں تک خواتین کے لئے جدید تعلیم حاصل کرنا بھی ممنوع تھا۔

لیکن جدوجہد کے بعد خواتین نے کچھ حقوق حاصل کر لئے ہیں، جن میں اسکول اور کالج جانا شامل ہے۔ کئی مسلم ممالک میں اس میں بھی مشکلات ہیں۔ افغانستان میں آج بھی ان کے اسکولوں کو نظرآتش کردیا گیا ہے اور جو خواتین اپنے سر سے لیکر پیر تک اپنے کو ڈھنک کر نہیں رکھتی ہیں ان پر تیزاب پھینک دیتے ہیں ۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی ایسے ہی حالات ہیں۔

اگرچہ سعودی عرب کے موجودہ شاہ روشن خیال ہیں اور خواتین کی جدید تعلیم کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں ،لیکن حالات بہت اطمینان بخش نہیں ہے۔ خواتین کار نہیں چلاسکتی ہیں ، گھر سے باہر اکیلے نہیں جاسکتی ہیں ، اپنا کاروبار نہیں کرسکتی ہیں اور کام کاج کی جگہ ان کی نمائندگی صرف 17فیصد ہے ۔ ان کو گھر سے باہر نکلتے وقت سر سے پیر تک ڈھکنا ضروری ہے ۔ وہ بلدیاتی انتخابات میں ووٹ نہیں دے سکتی ہیں۔ مندرجہ بالا ممالک کے علاوہ دوسرے ممالک میں حالات بہت مختلف نہیں ہیں۔ حجاب خالص ثقافتی ہے اور قرآن میں بھی اس کا ذکر نہیں آیا ہے ، اس کے باوجود حجاب کو واجب قرار دیا گیا ہے۔ اور تمام اسلامی ممالک میں اس کو زیادہ سے زیادہ نافذ کیا جاتا ہے ۔ یہ بہت مثبت علامت نہیں ہے۔ مسلم معاشرے انتہائی پیدرا نہ ہیں ۔ او ریہاں بہت ہی کم ایسی خواتین ہیں جو آزادانہ طو ر پر فیصلے لے سکتی ہوں اور اپنے حقوق کے لئےآواز اٹھا سکتی ہوں۔

ہماری چوتھی تجویز جمہوریت اور انسانی حقوق کے بارے میں ہے۔ خواتین کی حیثیت کی ہی طرح جمہوریت اور انسانی حقوق کے معاملے میں بھی ہمارا ریکارڈ ناقص ہے ۔کچھ مسلم ممالک کو چھوڑ کر زیادہ تر ممالک میں جمہوریت کی کمی ہے۔یہ جمہوریت کی کمی ہی ہے جو انجان علما کہتے ہیں کہ اسلام میں جمہوریت کے لئے کوئی مقام نہیں ہے یا اسلام جمہوریت کا مخالف ہے۔ اس کے برعکس اسلام کی ایسی کوئی تعلیم نہیں ہیں جو جمہوریت خلاف ہوں۔ اسلام اتنا ہی جمہوری ہے جتنا کوئی دوسرا مذہب ہوسکتا ہے یا نہیں ہوسکتا ہے۔

اصل میں یہ جاگیر دارانہ ثقافت اور جاگیردارانہ اختیارات ہیں جو عالم اسلام نے ورثے میں پایا اور یہی ان ممالک سے جمہوریت کو دوررکھ رہا ہے ،اور اس کے لئے اسلام سے زیادہ مغربی سامراجیت اور اس کے مفادات ذمہ دار ہیں۔ ممالک نے تیل کے لئے اپنے مفادات کو حاصل کرنے کےلئے ان ممالک میں جاگیر دارانہ نظام سے ملک کو چلانے والے حکمرانوں کو برقرار رہنے میں مدد کی۔

اس سلسلے میں عراق اور ایران کی مثال سب سے بہترین ہے۔ دونوں ممالک نے اپنے خطہ میں امریکہ کے مفاد کے خلاف کام کیا اور بدلے میں امریکہ نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کے نام پر عراق میں فوجیں بھیج دیں اور پورے ملک کو تباہ کردیا اور اس کے پانچ لاکھ معصوم شہریوں کو ہلاک کردیا۔ امریکہ ایران کا بھی دشمن ہے لیکن کئی وجوہات کی بنا پر وہ سب کچھ ایران میں نہیں کرسکتا جو اس نے عراق میں کیا۔

ہماری پانچویں تجویز مذہب اسلام میں اتحاد کے بارے میں ہے۔ پوری دنیا میں اسلامی ممالک کے درمیان فرقہ کی بنیادوں پراختلافات ہیں، اگرچہ امت میں اتحاد کے کھوکھلے دعوے کئے جاتے ہیں ۔ ہمارا مشورہ ہے کہ مسلمان ایک طرف اپنے لیڈر وں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ دوسرے فرقے کے لوگوں کے ساتھ گفت وشنید کریں اور اتحاد قائم کریں اور دوسری طرف ان کو اپنے اعتقاد پر پوری مذہبی آزادی کے ساتھ جمے رہنے کو بھی قبول کریں۔

اس کے لئے کم سے کم ضروری ہے کہ پرتشدد حملے روکے جائیں جو عالم اسلام خصوصی طور سے پاکستان میں ہورہے ہیں ۔بدقسمتی سے پاکستان کئی طاقتور ممالک کے مفادات کے شامل ہونے کی وجہ سے ایسی ہی فرقہ وار جنگ کا میدان بن گیا ہے۔

اس کےلئے آپسی مناظرہ بھی بند ہونا چاہئے اور ایک دوسرے کو کافر کہنا بھی بند ہوناچاہئے ۔ ایک جمہوری وسیکولر ملک ہونے کی وجہ سے ہندوستان میں تمام فرقے کے لوگ پر امن طریقے سے رہتے ہیں ،تاہم کبھی کبھی بدزبانی ہوجاتی ہے۔

مصنف ممبئی میں انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے چیئر مین ہیں۔

بشکریہ : ڈان ،کراچی

انگریزی سے اردوترجمہ ۔ سمیع الرحمٰن ،نیو ایج اسلام ڈاٹ کام

URL:: https://newageislam.com/urdu-section/five-point-agenda-islamic-world/d/5554

Loading..

Loading..