اصغر علی انجینئر (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام
ڈاٹ کام)
جب قرآن نازل ہو رہا تھا تو
یہ فرض کر لیا گیا تھا کہ تمام مسلمان قرآن کا مطالعہ کریں گے اور اپنے مسائل کے لئے
اس سے رہنمائی حاصل کریں گے اور اس لئے عبادت کرانے والے کسی طبقے کی ضرورت نہیں ہوگی۔لیکن
جب اسلام دور دور تک پھیل گیا اور خاص طور سے ایران، وسط ایشیاء، ہندوستان اور چین
کے متعدد زمان بولنے والے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے،عربی سے نابلدیہ لوگ قرآن
سے رہنمائی حاصل نہیں کر سکتے تھے اور اس لئے ان لوگوں کو ماہرین اور اسلامی اسکالر
کی مدد کی ضرورت پڑی۔
اس طرح ان لوگوں نے ماہرین
سے اپنے سوالوں کے سلسلے میں رجوع کیا جو علماء کے طور پر جانے جاتے تھے۔اور علما ء
بھی قرآن و حدیث اور اپنے ثقافتی پس منظر کی روشنی میں ان سوالوں کے جواب دیا کرتے
تھے۔ان جوابات کو ترتیب دیا جانے لگا تاکہ بعد کی نسلوں کے علماء اس ترتیب کی مدد سے
ان سے ملتے جلتے سوالات کے جواب دے سکیں۔
اس طرح فتوٰی کا ادارہ وجود
میں آیا۔ اس طرح فتوٰی(جمع فتاوٰی) ایک عام آدمی کے ذریعہ پوچھے گئے سوال یا کئی سوالات
پر رائے ہے جو جواب کے طور پر دیا جاتا تھا۔اگرچہ پہلے کے علماء تخلیقی ذہن کے تھے
اور اپنے دماغ کا استعمال کیا کرتے تھے لیکن بعد کے علما ء صرف اپنے پیش رو کی تقلید
کرنے لگے۔بعد کی نسلوں کے علماء نے اپنے پیش رو کی تیار کردہ عبارت کو صرف سوالوں کے
جواب کے لئے حوالے کے طور پر استعمال کیا۔ان لوگوں نے اپنے دماغ کا استعمال کرنے کی
زحمت گوارا نہیں کیا اور یہی نہیں جس مسلک یعنی حنفی،شافعی، مالکی،حنبلی یا جعفری وغیرہ
سے ان کا تعلق ہے وہ اس کی عبارت کا صرف حوالے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ایسے فتاوٰی
نے اسلامی سماج میں ٹھہراؤ پیدا کیا اور سماج مین تخلیقی اور اشد ضرورت والی تبدیلی
لانے میں مشکلات پیدا کیا۔آج بھی موجودہ وقت کے مسائل کے جوابات دینے کے لئے قرون وسطیٰ
میں جاری فتاوٰی کا حوالہ لیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اس سوال کے جواب میں کہ اگر ایک
والد نے مزاق میں ایک بچے کے والد سے کہا کہ وہ اپنی بیٹی تمہارے بیٹے کے نکاح میں
دیتا ہے تو کیا نکاح ہو جائیگا؟دارالعلوم دیو بند نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ ہاں،نکاح
ہو جائے گا(اس کے لئے دارالمختارا۔باب النکاح کا حوالہ دیا گیا)۔یہ فتوٰی20ویں صدی
میں دیا گیا تھا۔
اس طرح کوئی بھی سمجھ سکتا
ہے کہ کس طرح کے فتاوٰی علم کے اتنے اہم مرکز سے جاری ہوتے ہیں۔یہاں ہم حال ہی میں
عرب دنیا میں بغاوت کے سلسلے میں سعودی عرب کے کسی مفتی کے ذریعہ جاری کئے گئے فتوٰی
پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ان مفتیان کرام نے کہا کہ بغاوت حرام ہے کیونکہ یہ مناسب طریقے
سے تشکیل آئینی اتھاریٹی کے خلاف ہے اور یہ مغربی ملکوں کی سازش ہے۔ظاہر طور پر یہ
بغاوت سعودی عرب کی شہنشایت کے خلاف تھی اور اس لئے سرکاری مفتی نے سعودی شہنشاہ کو
خوش کرنے کئے یہ فتوٰی دیا اور اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ اسلامی نقطہ نظر سے بھی
یہ فتوٰی کس قدر مضحکہ خیز ہے۔
آئیے ہم یہاں ان بنیادی اصولو
ں پر غور کریں جو اس معاملے میں ضروری ہیں اور اس سلسلے میں قرآن کریم کیا کہتا ہے۔اس
میں کسی کو نااتفاقی نہیں ہوگی کہ قرآن انصاف پر مبنی حکومت کی بات کرتا ہے اور جبر،استحصال
اور بد عنوانی کی سخت مذمت کرتا ہے۔اس کے علاوہ قرآن نے بہت واضح طور پر کہا ہے کہ
اس کی ہمدردی مستعدفون (کمزور طبقات )کے ساتھ ہے اوریہ مستکبرون (طاقتور اور استحصال
کرنے والوں) کی مزمت کرتا ہے۔
اس طرح ہم با آسانی اس نتیجے
پر پہنچ سکتے ہیں کہ قرآن دور حاضر کی اصطلاح میں انصاف پر مبنی حکومت کی بات کرتا
ہے اور استحصال کرنے والے اور بدعنوان حکمراں کی مخالفت کرتا ہے اور اگر حکمراں ایسا
نہیں ہے تو عوام کو پر امن طریقے سے حکمراں کو تبدیل کرنے کا حق ہے۔قرآن رشوت کی بھی
مخالفت کرتا ہے اور اسے منع فرماتا ہے۔جو کچھ بھی مراکش اور مصر میں ہوا اور جو کچھ
بحرین ، یمن اور شام میں ہو رہا ہے وہ بد عنوان آمریت کے خلاف پر امن احتجاج کا جمہوری
عمل ہے۔
ان ملکوں میں حکمراں خود مقرر
تاناشاہ، بادشاہ اورشیخ تھے اور اس میں بھی سب سے بری بات یہ تھی کہ یہ لوگ پوری طرح
بدعنوان تھے اور کسی بھی پر امن احتجاج کو کچل دیتے تھے۔یہاں تک کہ رسول اللہﷺ کو بھی
سیکولر معاملات میں اپنے لوگوں سے مشورہ کرنے کو کہا گیا تھا۔جب اللہ کے رسول ﷺ سے
سیکولر معاملوں میں اپنے لوگوں سے مشورہ کرنے کو کہا گیا تھا تو جمہوری عمل سے انکار
اور بے رحمی سے انہیں کچلنے والے یہ بدعنوان حکمراں کون ہوتے ہیں جبکہ ان ملکوں کے
عوام نے حکومت کے کام کاج میں شفافیت اور جمہوریت کا مطالبہ کیا تھا؟
کچھ علماء یہ دلیل دے سکتے
ہیں کہ قرون وسطیٰ کے زمانے میں کچھ علما ء نے آمریت پر تاناشاہ اور استحصال کرنے والے
حکمراں پر فوقیت دینے کی رائے کا اظہار کیا تھا۔حالانکہ یہ حقیقت ہے لیکن یہ رائے تب
دی گئی تھی جب بیرونی حملے سے ملک پر قبضہ کر لینے کا خطرہ ہمیشہ بنا رہتا تھا۔یہاں
پر اب ایسے کسی قسم کا کوئی خطر ہ نہیں ہے۔یہ ان ملکوں کے عوام ہیں جو بدعنوان حکمرانوں
کا تختہ پلٹ کر انصاف پسند اور جمہوری اقدار میں یقین رکھنے والے رہنما ؤں کو انکی
جگہ لانا چاہتے ہیں۔قرآن جس کے بارے میں کہتا ہے وہ آمریت سے بہتر حکمرانی کانظام لائے
گا۔
علماء کو قرون وسطیٰ کی عبارتوں
سے آزاد ہونے اور قرآنی اقدار کو اپنانے اور اپنے ارد گرد ہو رہی تبدیلیوں کا جائزہ
لینے کی ضرورت ہے۔ایسے میں ان علماء کے فتاوٰی زیادہ مفید ہوں گے۔
معروف اسلامی اسکالر اور سماجی
کارکن اصغر علی انجینئر ممبئی کے انسی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اور سینٹر فاردی اسٹڈی
آف سیکولرزم اینڈ سوسائٹی کے سربراہ ہیں۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islam-and-spiritualism/fatwas-and-modern-islamic-world/d/4603
URL: