اصغر علی انجینئر
16-31 مئی، 2012
محترم جناب آر کے راگھون
صاحب
ان دنوں ہم لوگ آپ کے ذریعہ
گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو عام طور سے
2002 کے گجرات فسادات اور خاص طور سے گلبرگہ سو سائٹی میں احسان جعفری کے بہیمانہ
قتل کی ذمہ داری کے بارے میں 'کلین چٹ' بارے میں روزانہ پڑھ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے آپ کی غیر جانبداری اور ایمانداری پر مکمل اعتماد کی بنیاد پر آپ کو خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کا سربراہ
مقرر کیا تھا۔
ہم بھی آپ پر مکمل اعتماد
رکھتے ہیں اوراس بات کا یقین تھا کہ آپ کی تفتیش گجرات فسادات کے واقعات پر مکمل روشنی
ڈالے گی اور ہم آپ کی تحقیقات کے ذریعے فیصلہ کرنے کے قابل ہو جائے گی کہ کیا صحیح
ہے اور کیا غلط ہے۔ تاہم، آپکی تحقیقات نے
تنازعات کا طوفان کھڑا کر دیا ہے اور حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ آپ نے مختلف رپورٹیں
دی ہیں۔ آپ نے 2010 میں ایک رپورٹ دی تھی
اور 2012 میں حتمی رپورٹ میں نریندر مودی کو
'کلین چٹ' دی ہے۔
سب سے زیادہ حیرانی کی بات
یہ ہے کہ آپ نے اپنی تحقیقات اور اس 'حقیقت' کا دفاع کرنے میں نریندر مودی کا دفاع
اس طرح سے کیا ہے جیسا کہ خود بی جے پی بھی نہ کر پاتی یا شاید مودی بھی خود اس طرح
اپنی دفاع نہیں کر سکتے تھے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کہ آپ کو گجرات حکومت نے مقرر کیا تھا، نہ کہ ہندوستان کی سپریم کورٹ نے کیا تھا۔ میں نے
آپ کی رپورٹ پر شری راجو راما چندرن
(عدالت دوست) کے خیالات پر نقطہ
بہ نقطہ آ پ کی تردیدی کو پڑھا ہے۔
حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ کے ذریعہ
عدالت دوست کی تقرری کرنا اپنے آپ میں خود
رپورٹ کی متنازعہ نوعیت کی عکاسی کرتا ہے۔ شری راگھون جی، آپ ملک کی باوقار تحقیقاتی
ایجنسی، سی بی آئی کے سربراہ رہے ہیں، اور دیگر تحقیقات ایجنسیوں کی جانب سے انصاف کی تردید کئے جانے کے بعد یہ متاثرین کی حتمی رپورٹ ہے۔ کوئی
بھی سی بی آئی سے انصاف کی امید کر سکتا ہے لیکن سیاستدانوں سے نہیں کر سکتا ہے۔ سیاستدانوں
کی اپنی منطق ہوتی ہے۔ جبکہ سی بی آئی کے جیسی
تحقیقاتی ایجنسیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ملک کے قوانین پر سختی سے عمل کرنے والی ہیں۔
سیاست کے ایک طالب علم اور
ایک سیاسی تجزیہ کار کے طور پر میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ جو کچھ 2002 میں گجرات میں ہوا اس کے پیچھے اس کی اپنی
سیاست ہے۔ بی جے پی تمام انتخابات میں ناکام ہو رہی تھی یہاں تک کہ مقامی سطح اور اسمبلی
کے ضمنی انتخابات میں اسے ناکامی ہاتھ لگی
تھی اور وہ خوف زدہ تھی کیونکہ اسمبلی انتخابات دسمبر 2002 میں ہونے تھے۔ اس کی وجہ یہ
تھی کہ بدعنوانی کے کئی اسکینڈلس جس میں بی جے پی کے اراکان شامل تھے، وہ منظر عام
پر آگئے تھے اور گجرات کے لوگ اس کی کارکردگی سے بہت ناخوش تھے اور بی جے پی کے رہنماؤں
کو خدشہ تھا کہ ان کی حکومت 2002 ء کے انتخابات میں اقتدار سے باہر کر دی جائے گی۔
ہمارے ملک میں انتخابات میں
کامیابی کا ایک آسان ترین طریقہ بدقسمتی سے یہ ہے کہ ذات اور برادری کی بنیاد پر ووٹران
کو تقسیم کرنا اور بی جے پی اپنی بد عنوانیوں کو چھپانے کے لئے اسی کا مسلسل سہارا
لے رہی تھی اور 2002 اسمبلی انتخابات میں کامیاب
ہونے کے لئے اسے بڑے پیمانے پر اور بڑی شدّت کے ساتھ کئے جانے کی ضرورت تھی۔ اسے ایک
ایسے واقعے کی تلاش تھی اور 27 فروری، 2002 کو گودھرا سانحہ جس میں 59 کار سیوک جل
گئے تھے، یہ واقعہ بی جے پی کے رہنماؤں کے
ہاتھ آ گیا۔
گودھرا کا واقعہ، جس کے بارے میں
آپ جانتے ہوں گے، یہ خود معمہ بنا ہوا ہے کہ
اسے کس نے انجام دیا؟ کیا یہ ان
120 لوگوں نے انجام دیا تھا جسے مودی حکومت
نے گرفتار کیا تھا؟ عدالت کا فیصلہ سازش کی تھیوری کی بہت حمایت نہیں کرتا ہے۔ پولیس
نے حسین عمر جی کو ' اہم سازش کنندہ' بنایا تھا لیکن عدالت اسے مجرم قرار دے سکے لیکن اس کے لئے
اس کے خلاف ثبوت نہیں ملا۔ لہذا، سیشن عدالت نے اسے بری کر دیا۔ کچھ مجرم قرار
دئے گئے لیکن ان میں سے زیادہ تر سامان بیچنے والے غریب تھے جو بمشکل ہی ٹرین کے کسی کوچ کو جلانے کی سازش کر سکتے تھے۔
یہ ان کی تفصیلات میں جانے کے لئے جگہ نہیں ہے۔ ویسے جو بھی اس کے ذمہ دار رہے ہوں، مودی حکومت کو مسلمانوں
کے خلاف فسادات بھڑکانے کا موقع مل گیا تھا۔
حقیقت ہے کہ گجرات حکومت بند میں
شامل ہو گئ اور لاشوں کو جلوس میں لے جانے کی اجازت دینا خود نریندر مودی حکومت کا فرد جرم ہے۔ کوئی بھی حکومت
امن کے قیام میں دلچسپی رکھے گے، اس سے قطع
نظر کہ لاشوں کا دعوی کس نے کیا انہیں جلوس
میں لے جانے کی اجازت کبھی نہیں دے گی۔ یہ محض ایک تکنیکی مسئلہ ہے۔ اصل سوال یہ ہے
کہ لاشوں کو جلوس کی شکل میں احمد آباد کی سڑکوں پر لے جانے کی اجازت کس نے دی، وہ
بھی ایسے حالات میں جب تمام طرح کی افواہیں پھیلائی جا رہی تھیں اور لوگ پہلے سے ہی
مشتعل تھے۔ اعلی رینک کے ایک پولیس افسر کے طور پر اس طرح کے جلوس کے نتائج سے آپ
کا اچھی طرح واقف ہونا لازمی ہے۔
آپ کی معلومات کے لئے شری راگھون
جی بتا دوں کہ میں نے 1961 میں جبل پور سے
لے کر 2002 میں گجرات کے فسادات تک ملک میں ہوئے تمام اہم فسادات کی تحقیقات کی ہے
اور میں اچھی طرح واقف ہوں اگر کسی قصبے یا شہر میں واضح طور پر کشیدگی ہے تو حکومت
کو کیا کرنا چاہئے اورکیا نہیں کرنا چاہیے۔
حکومت فوری طور پر دفع 144 لگاتی ہے
اور فسادات کو روکنے کے لئے دیگر اقدامات کر تی ہے اور ساتھ ہی افواہوں کا مقابلہ کرنے کے لئے جو بھی بہتر ممکن
ہوتا ہے کرتی ہے۔
مودی حکومت نے کچھ بھی نہیں
کیا۔ گجراتی اخبارات انتہائی اشتعال انگیز مضامین بہت نمایاں طور پر شائع کر رہے تھے، افواہوں کو خبر کے طور پر پیش
کیا جا رہا تھا اور بہت ہی زیادہ اشتعال انگیز
اداریہ لکھے جا رہے تھے۔ آپ کو پتہ ہوگا کہ سی آر پی سی میں دفع 153 (A) ہے جس کے تحت ان اخبارات کے خلاف کاروائی ہونی تھی لیکن ایسا
کچھ بھی نہیں کیا گیا اور مودی حکومت کے تحت ان اخباروں کو فسادات کو پھیلانے کی مکمل آزادی دی گئی۔
آپ کہتے ہیں کہ اس بات کے ثبوت
نہیں ہیں کہ اعلی سطح کے حکام کی میٹنگ میں مودی نے ان سے کہا کہ ہندوؤں کو غصہ نکال
لینے دو اور انہیں نہ روکا جائے۔ ٹھیک ہے اس طرح کا مستحکم رخ متنازعہ ہے لیکن اگر
ایسا تھا تو مودی قابل گرفت نہیں ہیں۔ لیکن
آپ ایک قدم مزید آگے جاتے ہوئے آپ نے کہا
کہ اگر انہوں نے ایسا کہا تو کیا ہوا؟ انہوں
نے یہ بند دروازے کی میٹنگ میں کہا اس لئے
وہ قابل گرفت نہیں ہیں۔ راگھون جی، آپ یہ کیسے
بھول سکتے ہیں کہ بند دروازے کی اس میٹنگ میں وہ
عام لوگوں سے نہیں بلکہ اعلی پولیس افسروں اور دیگر حکام جو فسادات کو قابو میں کرنے کے لئے ذمہ
دار تھے، ان سے کہہ رہے تھے؟ اصل میں اس طرح کی بات عوامی اجلاس میں کہنے کے مقابلے
بند کمرے میں کہنا زیادہ بدتر ہے۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ آپ نریندر
مودی کے دفاع میں اس قدر دلچسپی رکھتے ہیں
کہ آپ اس طرح کی بنیادی باتوں پر توجہہ ہی نہیں دے رہے ہیں۔ اور آپ کو پتہ ہے کہ گجرات
میں آنے والے دنوں میں کیا ہوا تھا۔ آپ تہلکہ
کے ذریعہ کئے گئے اسٹنگ آپریشن پر بھی توجہہ نہیں دے رہے ہیں، جس نے مودی حکومت کو
مکمل طور پر بے نقاب کر دیا تھا کہ کس طرح
ان سینکڑوں بے گناہ اور معصوم لوگوں کے قتل کے سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے کے
بعد میں تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی۔ اسٹنگ آپریشن
کرنے والے شخص کو ان لوگوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ مودی حکومت کی طرف سے ان لوگوں کو
چھپنے کی تمام سہولیات فراہم کی گئیں تھیں۔
اسٹنگ آپریشن کسی بھی عدالت میں
قابل اعتماد ثبوت سمجھا جاتا ہے اور اسی کی بنیاد پر بی جے پی کےسابق صدر بنگارو لکشمن کو دہلی ہائی کورٹ نے مجرم ٹھہرایا ہے۔ آپ کو بھی اسٹنگ آپریشن کو کم از کم مزید تفتیش کے لئے استعمال کرنا چاہئے
تھا۔ عدالت دوسر راجو راما چندرن کی رائے ہے کہ مودی نے اعلی پولیس حکام کو حکم دیا
تھا یا نہیں اور سنجیو بھٹ موجود تھے یا نہیں، مسٹر بھٹ کے دعوے کو مسترد کرنے کے بجائے معاملے کی مزید تحقیقات کی جانی چاہئے
تھی۔ ان سے سوال جواب کیا جانا چاہئے تھا لیکن اسے آپ نے قابل قدر نہیں سمجھا۔
یہاں تک کہ جو کچھ بھی جعفری کے ساتھ ہوا اس میں کسی بھی طرح
مودی کو ذمہ دار نہیں پایا بلکہ اس کے بجائے آپ نے احسان جعفری کو ان کی ہی موت کا
مورد الزام ٹھہرایا اور کہا کہ انہوں نے بھیڑ
پر گولی چلائی تھی۔ یہ متنازعہ ہے کہ
انہوں نے گولی چلائی تھی یا نہیں اور اگر ہم ایک لمحے کے لئے بھی اس تھیوری کو مان
لیں کہ انہوں نے ہجوم پر فائرنگ کی تھی، تو مجھے راگھون جی بتائیں کہ کون خود کو اس
طرح کے پر تشدد ہجوم سے بچانے کے لئے کوشش نہیں کریگا وہ بھی ایسے میں جب آپ کی تمام
درخواستیں ناکام ہو گئی ہوں؟ اور جب آپ کو بچانے کے لئے آنے کو کوئی تیار نہ ہو۔ میں نے گجرات فسادات
کی تحقیقات کی ہے اور مجھے معلوم ہے کہ جعفری
اور ان کے جیسے دیگر 60 معصوم لوگوں کی حالت کس قدر مایوس کن تھی، جو ان
کے بنگلے میں پناہ لئے ہوئے تھے۔ میں آپ کی طرح سپر پولیس اہلکار نہیں ہوں لیکن اس
کے باوجود کچھ صلاحیت رکھتا ہوں اور جعفری کی حالت کے بارے میں اپنی ضمانت دے سکتا
ہوں۔
یہاں تک کہ پیپلز پینل جس
کی صدارت سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج نے
کی تھی اور جسٹس سامنت اور جسٹس سریش نے آپ کے دعوئوں کو غلط ٹھہرایا تھا۔ دونوں جج اپنی ایمانداری کے لئے
مشہور رہے ہیں، بہر حال آپ کے قبیلے کے لوگوں یعنی پولیس کے ذریعہ کی گئی تحقیقات پر فیصلہ جج صاحبان ہی کرتے ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر جسٹس سریش سے بات کی ہے اور ان
کی مستحکم رائے ہے کہ جو کچھ گجرات میں
2002 میں ہوا نریندر مودی اس کے لئے
ذمہ دار تھا۔
اس کے علاوہ، آپ کے ساتھیوں میں
سے ایک مسٹر ملہوترا کے ذریعہ 2010 میں بنائی گئی اختتامی رپورٹ میں آپ نے مسٹر مودی کے ساتھ کچھ مسائل کو پایا تھا
اور کچھ باتوں میں ان پر الزام لگایا تھا۔مشہور
میگزین تہلکہ جو اپنے انکشافات کے لئے جانی
جاتی ہے، اس نے اس رپورٹ کو شائع کیا تھا جو
2012 میں آپ کی حتمی رپورٹ کے مقابلے
میں حق کے زیادہ قریب تھی۔ تہلکہ نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ اپنے نجی کام کے سلسلے
میں لندن آنے اور جانے کے آپ کے سفر کا خرچ
گجرات حکومت نے برداشت کیا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ یہ سچ ہے یا نہیں لیکن آپ کے خلاف
اس طرح کا الزام ایک سنگین معاملہ ہے۔
میں نے گجرات فسادات 2002کے بہت
سے عین شاہدین سے بات کی ہے جن میں پولیس افسران
سے لے کر، متاثرین، سیاسی جماعتوں کے اراکین، فسادات میں زندہ بچے لوگ شامل تھے اور
ان میں سے سے تمام نے نریندر مودی پر الزام
لگایاتھا۔ میں نے بھی مودی کی ویڈیو ریکارڈیڈ
تقریریں سنی ہیں ، بشمول اس کے جس میں انہوں نے فسادات کے جواز کے طور پر نیوٹن کے لاء
کے مطابق عمل کے برابر اور مخالف ردعمل کو کہا تھا ( اگرچہ کسی بھی لہاز سے
گجرات میں ردعمل برابر نہیں تھا بلکہ تعداد
اور بے رحمی میں کئی سو گنا تھا) اور
ایک جس میں انہوں نے راحت کیمپوں کو ' بچہ پیدا کرنے والی فیکٹریز' کہا تھا۔
یہ تقاریر فسادات
کی سازش میں ان کے ملوث ہونے کے پختہ
ثبوت نہیں ہو سکتی ہیں لیکن یقینی طور پر اس
کی ذہنیت اور ملی بھگت کا اشارہ ضرور دیتی ہیں۔ فسادات میں ا ن کی ملی بھگت تھی یا نہیں کے علاوہ فسادات کو قابو کرنے میں ناکامی بھی ان پر عظیم اخلاقی ذمہ داری عائد کرتی ہے۔ آپ نے بھی
اخبارات میں پڑھا ہوگا کہ مسٹر اے بی واجپئی نے 2002میں فسادات کے بعد جب انہوں نے
احمد آباد کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے کیا کہا تھاکہ، میں جب بیرون ممالک میں جائوں
گا تو کیا منھ دکھائوں گا اور مودی کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ
آپ کو اپنے راج دھرم کا علم ہونا چاہئے یعنی حکمرانی کی ذمہ داری۔ ایک وزیر اعلیٰ جو ہفتوں تک فسادات کو روک نہیں
پاتا اور سینکڑوں کی تعداد میں معصوم لوگوں
کو قتل ہونے دیتا ہے۔ وہ نہ صرف اس کو جاری رکھتے ہیں بلکہ وہ سدھ بھائونا یاترا بھی نہیں نکالتے ہیں۔
راگھون جی، ایسے لوگ کثیر مذہبی جمہوری اسلوب حکمرانی کے قابل نہیں ہیں
جن پر صرف اقتدار کے لئے ہزاروں لوگوں کے کے
ہلاک ہو جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ ہم
لوگوں کو خیال تھا کہ ایک ایماندار افسر ہونے
کے ناطے آپ ایسے سیاست دانوں کو بے نقاب کریں
گے۔ لیکن افسوس، ہمیں مایوسی ہوئی۔
صدق دل سے آپکا
اصغر علی انجینئر،
چیئرمین، سینٹر فار اسٹڈی
آف سو سائٹی اینڈ سیکولرازم، ممبئی۔
17مئی، 2012
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islam-and-politics/asghar-ali-engineer-s-open-letter-to-sit-chief-shri-r.k.-raghavan/d/7355
URL: