New Age Islam
Wed Mar 22 2023, 09:36 AM

Urdu Section ( 2 Feb 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Sectarian Conspiracies to Suppress Liberal Thoughts روشن خیالی کو دبانے کے لئے فرقہ پرستی کی سازشیں

  

اسد رضا

30 جنوری، 2015

ان دنوں روشن خیالی او رکشادہ دلی کو دبانے اور تنگ نظری و فرقہ پرستی کو ابھارنے کی سازشیں عالمی پیمانے پربڑھ گئی ہیں۔ ہندوستان جمہوریت نشان میں آزادی سے قبل اور اس کے بعد بھی تنگ نظری اور روشن خیالی  میں ٹکراؤ ہوتا رہا ہے لیکن عموماً روشن خیالی فرقہ پرستی کو مات دیتی رہی ہے۔ یہ صورت  حال اکیسویں صدی کی پہلی دہائی  تک موجود رہی ۔ حالانکہ  جس ظہیر الدین محمد بابر نامی مغل بادشاہ نے اپنے بیٹوں کو یہ وصیت  کی تھی کہ ‘گئوکشی نہ کرانا کیونکہ ملک کی اکثریت گائے کو مقدس سمجھتی ہے’ اسی مغل بادشاہ کے نام سے موسوم بابری مسجد کو 26 دسمبر 1992 کو شہید کردیا گیا لیکن  اس سانحہ کے بعد جب مدھیہ پردیش ، اتر پردیش اور راجستھان میں اسمبلی الیکشن ہوئے تو بی جے پی کو مذکورہ بالا ریاستوں میں  جہاں اس کی سرکاریں تھیں، ناکامی کامنہ دیکھنا پڑاتھا لیکن اب صورت حال نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں  تبدیل ہوگئی ہے۔ پاکستان، افغانستان ، یمن ، لیبیا ، مصر، بحرین ، فرانس  ، اسرائیل ، جرمنی اور انگلینڈ وغیرہ  میں روشن خیالی پر تنگ نظری حاوی ہوتی جارہی ہے۔ امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کو گورے سپاہیوں کے ذریعہ نشانہ بنانے کے واقعات   ، اسرائیلی  فوجیوں کے ذریعہ بے قصور فلسطینیوں  کی ہلاکت و گرفتاری ،  پاکستان کے شہر پشاور  میں معصوم طلبا و طالبات کاقتل، فرانس میں ایک میگزین کے عملے کو گولیوں سے بھون ڈالنے کا واقعہ، یوروپی  ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا برتاؤ، عراق و شام میں داعش کی دہشت گردانہ کارروائیاں، افغانستان میں طالبان کے ذریعہ خون خرابہ وغیرہ اس با ت کے غماز ہیں  کہ دنیا میں فرقہ پرستی اور تنگ نظری میں اضافہ اور روشن خیالی ، کشادہ دلی میں کمی واقعہ ہورہی ہے۔ حال ہی میں شیوسینا نے آئین ہند سے ‘سیکولر’ لفظ ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

 وشوہندو پریشد ، بجرنگ دل اور آر ایس ایس وطن عزیز کو ‘ ہندو راشٹر ’ بنانے کی مانگ بارہا کرتی رہتی ہیں۔ مسلم ممالک میں مسلکی فسادات ہوتے رہتے ہیں ۔ بیشتر ممالک میں اقلیتوں کے ساتھ متعصّبانہ برتاؤ بڑھتا جارہا ہے۔ لیکن یہاں  یہ تذکرہ بھی بر محل ہوگا کہ فرقہ پرستی اور تعصب صرف کسی  ایک مذہب، نسل اور ذات تک محدود نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام ، ہندو ازم ، عیسائیت ، بودھ ازم اور سکھ ازم وغیرہ جیسے دنیا کے اہم مذاہب  روشن خیالی ، اتحاد، محبت ، دیانت داری اور باہمی رواداری  کی تعلیم دیتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان مذاہب کے ماننےوالے اپنے ذاتی یا تنظیمی  مفادات کے لیے مذاہب کی تعلیمات کو اپنے حساب سے توڑ مروڑ کر پیش کرتے اور فرقہ وارانہ منافرت و فسادات کو بھڑکاتے ہیں ۔ مثال کے طور پھر بودھ مت میں عدم تشدد کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور ‘ اہنسا پر مودھرما’ ( عدم تشدد سب سے بڑا دھرم) عقیدے کا حصہ ہے ۔ لیکن میانمار اور سری لنکا میں کچھ بودھوں نے جس طرح اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ، اس کی مذمت عالمی برادری نے کی ۔ اسلام میں امن و سلامتی  کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم تھی کہ ‘ ہمارا دین ہمارے ساتھ ، تمہارا دین تمہارے ساتھ’۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ  دیگر مذاہب  کے ماننے والوں مثلاً یہودیوں و عیسائیو ں کے ساتھ  حسن سلوک کیا، لیکن آج طالبان اور داعش جو کچھ کررہے ہیں وہ اسلامی  تعلیمات کے بر عکس ہے۔ اسی  طرح ہندو دھرم میں ‘ وسودھیو کٹمب کم’ یعنی  ساری دنیا ایک خاندان ہے اور ‘ سردھرم سمبھاؤ’ یعنی  تمام مذاہب یکساں  ہیں وغیرہ جیسی تعلیمات ہیں لیکن آج کچھ لوگ اس مقدس دھرم کے اعلیٰ اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مفادات کے لیے اسے توڑ مروڑ کر سیاسی فائدہ اٹھارہے ہیں۔

یہاں یہ بتانا بھی بر محل ہوگا کہ جن جن ممالک میں مذہب ، دھرم، فرقہ اور مسلک کے نام پر فسادات کرائے جاتےہیں اور دہشت گردی کو ہوا دی جاتی ہے وہاں ترقی کی رفتار سست ہوجاتی ہے او رمعاشی  و سماجی لحاظ سے ایسے ممالک پسماندہ ہی رہتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں ہمارے سامنے افغانستان ، نیپال، پاکستان، میانمار، سری لنکا اور عراق وغیرہ کی مثالیں  موجود ہیں ۔ اگر چہ ان ممالک کے پاس قدرتی ذخائر اور انسانی وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن تنگ  نظری اور فرقہ پرستی کی زیادتی انہیں   ترقی یافتہ  بننے سے روکتی ہے۔ اس کے برعکس یوروپی ممالک ، امریکہ، آسٹریلیا وغیرہ میں سائنسی فکر اور روشن خیالی  نسبتاً زیادہ ہے لہٰذا وہاں ترقی  کی رفتار بھی تیز تر  ہے۔ یہ صحیح  ہے کہ مغربی ممالک اپنے معاشی و سیاسی  مفادات کی تکمیل  کے لیے ایشیائی  و افریقی  ممالک میں تعصب و تنگ نظری کو ہوا دینے کی سازشیں  بھی رچتے رہتے  ہیں ، لیکن  ایشیا  و افریقہ میں چین، ہندوستان،  جاپان اور جنوبی افریقہ جیسے  ممالک بھی ہیں جنہوں نے  مذہبی و نسلی تنگ  نظری کو قابو میں رکھنے کی کوشش کیں اور نتیجتاً  یہ ممالک ترقی کے لحاظ سے کافی آگے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ  حقیقت ہے کہ وطن عزیز  میں ان دنوں کچھ مذہبی  لحاظ سے جنوبی تنظیموں نے دھرم او رمذہب کے نام پر منافرت پھیلانے کاعمل تیز کردیا ہے جس کی وجہ سے اقلیتیں  بالخصوص مسلمان اور عیسائی تشویش میں مبتلا ہیں۔ تبدیلی مذہب اور ایک مخصوص مذہب کی مقدس کتاب کے درس کو تمام مذاہب کی کوششیں  کی جارہی ہیں۔

ذرا سی بات کو بتنگڑ بنا کر فرقہ وارانہ فسادات کرائے جاتے ہیں ، اگر چہ وزیر اعظم نریند مودی سب  کو ساتھ لے کر ترقی کی راہ پر ہندوستان کو لے جانے کی کوششیں قومی و بین الاقوامی سطح پر کررہے ہیں، لیکن یہ بھی ایک تلخ  حقیقت ہے کہ سنگھ پریوار  کی کچھ تنظیمیں  او ران کے لیڈر نفرت انگیز بیانات دے کر ملک و قوم کو بدنام کرنے اور ترقی کے پہیے کو روکنے کی کوششیں  کررہے ہیں ۔ اگر ان لیڈروں کو لگام نہیں  دی گئی تو وزیر اعظم نریندر مودی کی ترقیاتی اسکیمیں  پوری طرح آگے نہیں بڑھ پائیں گی۔ شاید اسی لیے اس ہفتے  امریکی صدر براک اوباما نے واضح الفاظ میں  ہم سب کو عموماً  اور حکومت ہند کو خصوصاً  یہ نیک مشورہ دیا کہ ہندوستان میں مذہبی بنیاد پرتفریق  پیدا نہ کی جائے کیونکہ  ‘ مذہبی رواداری  میں ہندوستان کی ترقی کا راز مضمر ہے’۔ لیکن یہ نصیحت  صرف  ملک کے لئے ہی نہیں پاکستان ، افغانستان میانمار اور عراق وغیرہ کے عوام اور حکمرانوں کے لیے بھی  مفید ہے کیونکہ  یہ سو فیصد سچ ہے کہ مذہب  و مسلک، ذات اورنسل و علاقہ پر ستی کی آڑ میں منافرت اور تشدد کے ماحول میں کوئی بھی  ملک خاطر خواہ ترقی نہیں کرسکتا ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سائنس پڑھ کر بھی لوگ سائنسی  فکر سے دور ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بعض سیاست داں  بھی اپنے قول و عمل سے قدامت پرستی، بد اعتقادی اور اندھ وشواس کو ہوا دیتے ہیں اور رو شن خیالی  و سائنس سوچ کر دباتے ہیں ۔ اب یہ بات دیگر ہے کہ وہ سائنس و ٹیکنالوجی کی دین سے تو فیضیاب ہوتے ہیں ، چشمہ لگاتے ہیں’ ہوائی جہاز وں میں سفر کرتے ہیں’ جدید طبی آلات سے علاج کراتے ہیں لیکن ڈھونگی باباؤں  کے سامنے سر بھی جھکاتےہیں،  جو لیڈر کبھی مندر یا مسجد نہیں  جاتے وہ ان  مقدس عبادت گاہوں کے آڑ میں اپنی سیاسی  دکانیں چمکاتے ہیں ۔ ہمارے یہاں  ایسے مبینہ مذہبی لوگ  بھی ہیں لیکن پس پردہ اپنی تقاریر کو ٹیلی کاسٹ کرانے کے لیے ٹی وی چینلوں کو اشتہارات دیتے ہیں ۔لہٰذا عوام او رحکمرانوں کو یہ اچھی  طرح سمجھ لیناچاہیے کہ خواہ وہ کسی  بھی دھرم  ، مذہب ، مت اور مسلک کو مانیں لیکن اس کی آڑ میں سماج کو تقسیم کرنے کی کوشش نہ کریں ۔ دین دھرم ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے۔

اگر کوئی فرد اپنا عقیدہ یا مذہب و مسلک تبدیل کرتا ہے تو کرے، یہ اس کا بنیادی  حق ہے کہ وہ چاہے کسی مذہب کو تسلیم کرے یا ملحد بن جائے لیکن وہ اپنے تبدیلی عقیدے کی تشہیر نہ کرے۔ میڈیا کو بھی اس سلسلہ میں احتیاط سے کام لینا چاہیے  او رکسی فرد، خاندان  یا کمیونٹی کے تبدیلی مذہب کے واقعہ کو اچھالنا نہیں چاہیے ۔ علاوہ ازیں تبدیلی مذہب پر سیاست بھی نہیں  کی جانی چاہئے ۔ لیکن افسوس ہمارے ہاں  کچھ لوگ مقدس مذہب اور دھرم کے نام پر گندی سیاست کرتے ہیں اور رائے دہندگان کی دھرم اور مذہب کے نام پر صف بندی کراتے ہیں جو سراسر آئین ہند کے خلاف ہے۔ الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کو بھی ایسے متعصب اور تنگ نظر امیدوار وں کے خلاف سخت اقدام کرنے چاہئیں ۔ بہر حال ہماری مودی سرکار، ریاستی سرکاروں اور اتنظامیہ سے یہ درخواست  ہے کہ وہ وطن  عزیز کو فرقہ پرستی اور تنگ نظری  سے دور رکھیں  اور ہندوستان کی ہمہ گیر ترقی کے لیے تمام مذاہب اور ذات کے لوگوں کو ساتھ  لے کر چلیں  نیز ہر قسم کی منافرت و تشدد کو پھیلانے  والوں اور روشن  خیالی کےخلاف سازشیں کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کریں او رعلامہ  اقبال کے اس شعر کو دوہراتے رہیں کہ :

مذہب نہیں  سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستان ہمارا

30 جنوری ، 2015  بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/sectarian-conspiracies-suppress-liberal-thoughts/d/101333

 

Loading..

Loading..