اسد رضا
31 اکتوبر، 2014
اس ہفتہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اپنے ملک کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتےہوئے کہا کہ اسرائیل پورے یروشلم میں یہودی بستیوں کا تعمیر جاری رکھے گا ۔ یہ تعمیری منصوبہ بالکل جائز ہے اور یہ کہ اس پر ان کے ملک میں مکمل اتفاق پایا جاتا ہے لہٰذا یروشلم کے سارے شہر میں تعمیرات رو کی نہیں جائیں گی ۔ یہاں یہ تذکرہ بھی بر محل ہوگا کہ مشرق یروشلم کو فلسطینی اپنی مجوزہ آزاد وخود مختار ریاست فلسطین کا نہ صرف حصہ قرار دیتے ہیں ، بلکہ اس شہر یعنی مشرق یروشلم کو مستقبل کے ملک فلسطین کی راجدھانی بھی بنا نا چاہتے ہیں ۔ علاوہ ازیں مشرقی یروشلم اس لیے بھی ایک انتہائی اہم اور حساس شہر ہے کہ اس میں صرف مسلمان اور یہودی ہی آباد نہیں ہیں، بلکہ عیسائیوں کی بھی وہا ں خاصی آبادی ہے ۔ مسلمانان عالم کے لیے اس شہر کی تاریخی اور مذہبی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ مشرقی یرو شلم میں ہی اُن کا قبلہ اوّل یعنی مسجد اقصیٰ واقع ہے، جس کی بے حرمتی ان دنوں انتہا پسندیہودی اور خود اسرائیلی فوجی کرتے رہتے ہیں ۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم یا ہونے واضح الفاظ میں دنیا کو یہ بتا دیا کہ مشرقی یروشلم کبھی بھی فلسطینیوں کو نہیں ملے گا۔ یاہو کےالفاظ میں ‘‘ فلسطینی یہ جانتے ہیں کہ انہیں کسی منصوبے کی تحت اگر اقتدار حاصل بھی ہوگیا تو مشرقی یروشلم کا سارا علاقہ اسرائیل کے ہی قبضہ میں رہے گا۔ ظاہر ہے کہ نتن یاہو کا یہ بیان نہ صرف اشتعال انگیز ہے بلکہ بین الاقوامی ضابطوں اور قوانین کے بھی خلاف ہے کیونکہ خود اسرائیل کا سب سے بڑا پشت پناہ اور اتحادی امریکہ بھی مشرقی یروشلم کو اسرائیل کا حصہ تسلیم نہیں کرتا ہے۔ اسی طرح اسرائیل کے بعض یوروپی اتحاد ی بھی مشرق یروشلم میں یہودی کا لونیوں کی تعمیر کے مخالف ہیں ۔ فلسطینی عوام تو مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف اکثر احتجاج کرتے رہتے ہیں ۔ فلسطینی اتھارٹی کے وزیر راعی احمد اللہ نے 27 اکتوبر کو مشرقی یروشلم کادورہ کرنے کے بعد کھل کر کہا تھا کہ ‘‘ مشرقی یروشلم کے بغیر فلسطینی ریاست مکمل نہیں ہوسکتی ہے’’۔اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے مذکورہ بالا اعلان پر پی ایل او کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن صائب اریکات نے بجا طور پر یہ بیان دیا کہ ‘‘ اسرائیل کا یہ منصوبہ مکمل طور پر غیر قانونی ، ناجائز اور بین الاقوامی قوانین کی ایسی خلاف ورزی پر مبنی ہے ، جس پر سزادی جاسکتی ہے ’’ ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سزا کون دلائے گا اور کون دے گا؟
اگر چہ فلسطینی عوام اور وہاں کے رہبر ان مشرقی یروشلم کی ایک ایک انچ زمین اپنی تحویل میں رکھنا اور اس شہر کو فلسطینی ریاست کی راجدھانی بنانا چاہتے ہیں ۔ لیکن اسرائیل ٹینکوں ، توپوں اور مشین گنوں کا پتھروں سےمقابلہ کرنے والے فلسطینی عوام اپنی ہمت و شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید اور زخمی تو ہوجاتے ہیں مگر اپنی سر زمین سے اسرائیلی قبضہ کو ہٹانے میں ناکام رہے ہیں ۔ دراصل فلسطینیوں کے پاس نہ تو جدید ترین اسلحہ ہیں او رنہ ہی ان کی معاشی حالت بہتر ہے ۔ علاوہ ازیں اسرائیلی حکمراں انہیں، ان کے مذہب اور ثقافت کو ذلیل و خوار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سےنہیں جانے دیتے ۔ گزشتہ مہینوں میں اسرائیلی افواج نے غزہ کو پوری طرح تباہ برباد اور ہزاروں فلسطینیوں کو جن میں بچے، خواتین اور بزرگ بھی شامل تھے، ہلاک اور زخمی کردیا، لیکن افسو س اس تباہی و ہلاکت پر عالمی برادری امریکی دباؤ میں کچھ کرنے سے قاصر رہی ۔ اقوام متحدہ ایک آدھ مذمتی قرار داد منظور کراکے چپ ہوگئی ۔ درحقیقت عربوں کی دولت اور امریکہ و برطانیہ کی طاقت بھی فلسطینی جان و مال کی حفاظت نہیں کر پائیں اور نہ ہی اسرائیل کو جبر و ستم اور زبردستی فلسطینی خطوں پر قبضے کو روک پائیں۔ لہٰذا ان حالات میں اگر فلسطینی اپنی بے بسی محسو س کرتے ہیں تو اُن کا کوئی قصور نہیں ہے۔فلسطینیوں کی اس بے بسی اور بے کسی کے لیے غیروں سے زیادہ اپن یعنی ان مسلم ممالک کے حکمراں زیادہ ذمہ دار ہیں جو عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور پس پردہ اسرائیل سے سانٹھ گانٹھ کیے ہوئے ہیں۔
مشرقی یروشلم پر اسرائیل کے نا جائز قبضے اور غیر قانونی و غیر اخلاقی طور پر وہاں یہودی بستیوں کی تعمیر اور سر زمین فلسطین پر صیہونی ظلم و جبر اور مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی پر مسلم حکمرانوں کی بے عملی و خاموشی بالخصوص عرب شاہوں اور سلطانوں کی بے حسی صرف افسوسناک ہی نہیں بلکہ قابل مذمت ہے۔ ماضی بعید و قریب میں جو عرب حکمرا ں امریکہ و ناٹو کے پاس صدام حسین اور اب بشا رالاسد کو سبق سکھانے کی درخواست لے کر گئے اور جن کی کوششوں ، سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے عراق، لیبیا اور اب شام بھی تباہ و برباد ہوئے اور لاکھوں فرزندان تو حید شہید ہوئے ، وہی عرب حکمراں مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے والے اسرائیل کے خلاف متحد نہیں ہوئے ۔ کسی مسلم حکمراں نے امریکہ یا یوروپی ممالک سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے خلاف بھی اسی طرح فوجی کارروائی کی جائے ۔ جس طرح مرحوم صدر عراق صدام حسین یا لیبیا ک سربراہ مرحوم کرنل معمرقذافی کے خلاف کئی گئی تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا مسلم ممالک کے حکمراں خود کو اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا ہمدرد ثابت کرنے کے لیے خوب پروپیگنڈہ کراتے ہیں، لیکن عملاً مسلم کشی کرنے والوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب اسرائیل نے گزشتہ چند مہینوں قبل شام پر جھوٹے سچے بہانوں کے تحت فوجی حملے کیے تو کسی عرب حکمراں نے ان حملوں کی مذمت نہیں کی تھی، البتہ شام کی حکومت کے خلاف کارروائی کے لیے امریکہ و یوروپی ممالک کو خوب بھڑ کا یا ۔ بلاشبہ شام کا حال بھی عراق اور لیبیا جیسا ہی ہوتا ، لیکن روس اور چین نے ویٹو اور سخت مخالفت کی وجہ سے مبینہ اسلام دوست عرب حکمرانوں کو منھ کی کھانی پڑی ۔ یہاں ہمارا مقصد صدام حسین ، کرنل معمر قذافی یا بشا رالاسد کی حمایت کرنا نہیں ، بلکہ یہ بتلانا ہے کہ بیشتر عرب حکمرانوں نے مسلم ممالک کو تباہ کرانے کی ترغیب تو امریکہ و ناٹو ممالک کو دی، لیکن اسرائیل کے خلاف فوجی کارروائی اورنتن یاہو کو صدام حسین کی طرح سزا دلانے کے لیے ایک بھی قرار دار عرب لیگ نے منظور نہیں کی۔ کیوں؟ جس طرح کویت پر صدام حسین نے زبردستی قبضہ کیا تھا، اسی طرح اسرائیل اور اس کے حکمرانوں نے فلسطین کی مقدس سرزمین اور مشرقی یروشلم پر ناجائز طور پر کیا زبردستی قبضہ نہیں کیاہے؟ کیا غزہ میں ہزارو ں فلسطینیوں کو ہلاک و زخمی کرنےوالے نتن یاہو عراق کے صدر صدام حسین کی طرح سزائے موت کے مستحق نہیں ہیں؟ ان سوالات کے جواب عرب حکمرانوں کو دینے چاہئیں ، لیکن وہ نہیں دیں گے ، کیونکہ وہ عوام کے تئیں نہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے تئیں جواب دہ ہیں ۔ تاہم اس حقیقت کی کوئی تردید نہیں کرسکتا کہ تمام عرب ممالک کے عوام دامےدرمے ، و سخنے مظلوم فلسطینیوں کےساتھ ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا فلسطینوں کی بے بسی اور عرب حکمرانوں کی بے حسی اسی طرح بر قرار رہے گی یا مظلوم فلسطینیوں کو ان کی آزاد و خود مختار ریاست فلسطین حاصل ہوجائے گی، جس کی راجدھانی مشرقی یروشلم ہوگا؟ ہمیں یقین کامل اور اللہ تعالیٰ کی رحمت پر بھروسہ ہے کہ فلسطینیوں کی بے بسی وبےکسی او ر عرب حکمرانوں کی بے حسی کا خاتمہ ہوگا اور اسرائیلی حکمراں کیفر کردار تک ضرور پہنچیں گے ۔ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ اب بعض یوروپی ممالک مثلاً برطانیہ، سویڈن وغیرہ علامتی طور پر ہی سہی لیکن فلسطینی ریاست کی حمایت میں آگئے ہیں ۔ انشاء اللہ اس حمایت میں مزید اضافہ ہوگا اور ایک مضبوط و مستحکم ، طاقتور اور آزاد و خودمختار ملک فلسطین بہت جلد دنیا کےنقشہ پر ابھرے گا ۔ اس فلسطینی بھائیوں سے یہ استدعا ہے کہ وہ مایوس نہ ہوں، کیونکہ ‘‘ مایوسی کفر است’’ بلکہ اپنی جد وجہد آزادی کی جاری رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ اُن کی جد وجہد کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے ۔ آمین ثمہ آمین ۔
31 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز ناہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/palestinian-helplessness-jerusalem-indifference-arab/d/99831