اسد رضا
19 دسمبر، 2014
پشاور کےایک اسکول میں تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کے ذریعہ شیطان کو شرمسار کرنے والے سیاہ کارنامہ کے نتیجے میں اگرچہ سیکڑوں طلبا و اساتذہ ہلاک و زخمی ہوگئے اور ساری دنیا میں اس سفاکیت و بربریت کی سخت الفاظ میں مذمت بھی کی گئی اور حکومت پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جاری اپنے حملوں میں زیادہ تیزی لانے اور پھانسی کی سزا مجرموں کو پھر سے دینے کی شروعات کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ واضح ہو کہ وزیرستان میں طالبان پر حملے کچھ عرصے سے پاکستانی فوج کررہی ہے جن میں متعدد دہشت گرد ہلاک بھی ہوچکے ہیں ۔ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی اسکول میں معصوم طلبا کو شہید کرنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے یہ اعلان بھی کیا تھاکہ انہوں نے وزیر ستان میں طالبان پر حملوں کا انتقام لیا ہے ۔ یہ سوال الگ ہے کہ طالبانی دہشت گردوں نے پاکستانی فوج کے حملوں کابدلہ معصوم بچوں کو شہید کرکے کیوں لیا اور یہ کہ اگر انہیں انتقام ہی لیناتھا تو پاکستانی فوج یا حکومت پر حملے کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ، بے گناہ بچوں نے ان کاکیا بگاڑ ا تھا لیکن جنون، خواہ مذہب کا ہویا ماؤنواز ی کا، انسان کو غیر منطقی بنا دیتا ہے اور وہ اچھے یا برے فیصلے جذبات میں ڈوب کر لیتا ہے ۔ لہٰذا طالبان سے کس دانشمندانہ فیصلے کی توقع ہی عبث ہے۔ یہ صحیح ہے کہ دہشت گردی کا سبب صرف مذہب یا کسی ازم کا جنون ہی نہیں ہوتا بلکہ معاشی، سیاسی اور سماجی استحصال ، نا انصافیاں اور عدم مساوات بھی دہشت گردی کو بڑھاوا دیتی ہے ۔
علاوہ ازیں بیرونی معاشی و اخلاقی امداد بھی دہشت گردوں کو تخریبی و پر تشدد کارروائیوں کے لیے مشتعل کرتی ہے ۔ مثال کے طور پر افغانستان میں دہشت گردی کو ابھارنے میں امریکہ کا بہت بڑا ہاتھ رہا اور اب بھی سی آئی اے بالواسطہ طور پر دہشت گردی کو بڑھارہا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ صدر براک اوباما دہشت گردی کے خلاف ہیں لیکن ماضی بالخصوص بیسویں صدی میں سابق صدرریگن اور سینئر و جونئیر بش جیسے امریکی صدور نے افغانستان سمیت متعدد ممالک میں دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کی ۔ طالبان دراصل امریکہ و اسرائیل کی سرپرستی اور مرحوم جنرل ضیاء الحق کے فوجی تعاون کی پیداوار ہیں ۔ جو دہشت گردی کی فصل گزشتہ صدی میں پاکستان نے جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں بوئی تھی اسے ہی وہ آج کاٹ رہا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پشاور ٹریجڈی کے بعد بھی حافظ سعید جیسے متعدد دہشت پسند لیڈر جن کا طالبان سے قلبی لگاؤ ہے، کھلّم کھلّا اس دہشت گردی کے لئے طالبان کو نہیں بلکہ ہندوستان کو ذمہ قرار دے رہے ہیں اور آزادی سے پاکستانی عوام کو گمراہ کررہے ہیں جب کہ طالبان نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ انہوں نے ہی پشاور کے آرمی اسکول پر حملےکرائے تھے ۔ دراصل پاکستانی فوج ، حکومت پاکستان اور حزب اختلاف میں بھی کچھ لوگ تحریک طالبان پاکستان سے ہمدردی رکھتے ہیں مثلاً حزب اختلاف کے لیڈر عمران خان بھی طالبان سے ہمدردی رکھنے والوں میں شامل رہے اور طالبان سے بات چیت کرنے کی حمایت اب تک کرتے رہے ہیں ۔ آئی ایس آئی ( پاکستان کی خفیہ ایجنسی ) ااور خود پاکستانی فوج میں بھی کچھ ایسے عناصر ہیں جو طالبان پر مہربان ہیں اور انہیں سچا او رپکا مسلمان سمجھتے ہیں ۔ درحقیقت طالبان یا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ہمدردی او روابستگی کا اہم سبب نظریاتی ہے۔
طالبانی نظریے یا دیگر داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کے نظریات بالخصوص اسلام کے بارے میں وہ ہیں جو انہیں سی آئی اے، موساد اور دیگر یوروپی خفیہ ایجنسیوں نے دیے ہیں ۔ ان نظریات کے مطابق خود کشی اسلام میں ناجائز نہیں ہے، بے قصور لوگوں کو ہلاک کرنا ، عورتوں کو ذلیل و رسوا کرنا جائز ہے، اپنے مقصد کے لیے معصوم بچوں کو بھی جان سے مار دینے میں کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ یہ نظریات سراسر غیر اسلامی ہیں لیکن انہیں اسلامی نظریات قرار دے کر نہ صرف بھولے بھالے مسلم نوجوانوں کو گمراہ کیا جارہا ہے، بلکہ دنیا کے سامنے اسلام کی ایک مسخ شدہ تصویر بھی پیش کی جارہی ہے۔ بد قسمتی سے کچھ امریکہ نواز عرب ملک بھی بالواسطہ طورپر اس اسلام مخالف مہم میں امریکہ و اسرائیل کے ساتھ ہی ہیں کیونکہ ان عرب حکمرانوں کو اسلام سے زیادہ اپنے تخت و تاج عزیز ہیں ۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو بھی امریکہ نواز عرب حکمرانوں نے تسلیم کیا تھا ۔ یہا ں یہ سوال بھی پیدا ہوتاہے کہ آخر طالبان کے پاس اتنے جدید ترین ہتھیار کہاں سے آرہے ہیں جن کا استعمال وہ پشاور کے آرمی اسکول میں طلبا و طالبات کو شہید کرنے اور دیگر حملوں کے لیے کرتے ہیں ۔ طالبانی ذہنیت کو فروغ دینے کے لئے آخر مالی امداد کون دے رہا ہے؟ ان سوالوں کے جواب بھی دنیا کے مسلمانوں کو عموماً اور پاکستانی عوام کو خصوصاً تلاش کرنے چاہییں ۔ کیا سی آئی اے او رموساد کے علاوہ کچھ عرب حکمراں اور آئی ایس آئی و پاکستانی فوج میں بیٹھے ہوے بعض ہمدردان طالبان ، دہشت گردوں کی مدد نہیں کررہے ہیں؟ حکومت پاکستان کو ایسے ہمدردان طالبان کی نشاندہی کر کے انہیں بھی سخت سزائیں دینی چاہئیں ۔
بلاشبہ دہشت گردوں اور ان کی مالی و حربی مدد کرنے والوں کو ضرور سخت سزائیں حکومت پاکستان دے لیکن تحریک طالبان پاکستان کی نظریاتی جڑوں کوبھی اکھاڑ کر پھینکنا ضروری ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ عالم اسلام میں ایسے مذاکرے، سمینار ، کانفرنس منعقد کرائی جائیں جن میں حقیقی اسلام کو پیش کیا جائے ۔ رسول اکرم حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تعلیمات و عمل صالح پر روشنی ڈالی جائے جن میں مسلمانوں کوہدایت دی گئی ہے کہ وہ یتیموں ، عورتوں ، بزرگوں اور بچوں کو تشدد کا نشانہ نہ بنائیں ۔ فتح مکہ کے بعد جس کشادہ دلی اور وسیع القلبی کا مظاہرہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، مسلمان بالخصوص طالبان بھی اسی وسیع القلبی کا مظاہرہ کریں ۔ ہر مسلک اور ملک کےعلمائے دین متحد ہوکر یہ بتلائیں کہ اسلام میں خود کشی حرام ہے۔ لہٰذا جو دہشت گرد خود کش حملے کر کے اور اپنے آپ کو بموں سےہلاک کرکے بے گناہوں کو شہید کرتے ہیں وہ جنتی نہیں دوزخی ہیں۔ اس سلسلہ میں نہ صرف سعودی عرب، ایران، قطر ،یو اے ای، بحرین، یمن، مصر، بنگلہ دیش اور ہندوستان و پاکستان میں علمائے دین کی عالمی مذہبی کانفرنس ہوں بلکہ پاکستان میں تو شہر شہر ، قریہ قریہ مذہبی جلسوں میں علمائے دین عوام کے سامنے حقیقی اسلام کی جو ساری انسانیت کی سلامتی اور امن و امان کی تعلیم دیتا ہے ، تصویر پیش کریں۔ یہی نہیں طالبان ، تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی اور لشکر طیبہ کے اراکین ، کارکنوں او رہمدردوں کو بھی اظہار خیال اور مناظرہ کےلیے مدعو کیا جائے اور ان سے یہ دلائل و برہان کے ساتھ بحث کی جائے کہ کیا اسلام میں خود کشی جائز ہے؟ کیا قرآن شریف میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو مسجدوں ، امام باڑوں اور درگاہوں اور اسکولوں میں لقمۂ اجل بنانے کی معاذ اللہ تعلیم دی گئی ہے۔ کیا شیعہ ، سنی، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، اہل قرآن اور احمدیوں کو مسلکی نفرت کی آڑ میں گولیوں سے بھوننے کی ہدایت اسلام دیتا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر پشاور اسکول میں غیر انسانی بلکہ شیطانی حرکت کرنے کی ترغیب کون سے اسلام کے مطابق انجام دیتے ہیں ؟ اس طرح ک مباحثے ، مناظرے اور مذاکرات کے ذریعہ 90 فیصد طالبان او ران کے محبان کو راہ راست پر لایا جاسکتاہے ۔
علاوہ ازیں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتے وقت حکومت پاکستان یا کسی بھی ملک کی حکومت اور فورسیز کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ بے قصور افراد کو سزا نہ ملے ۔ کیونکہ دہشت گردی کو ہوا دیتا ہے ۔ لہٰذا وزیر ستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی سوچ سمجھ کر او ربے گناہ عام شہریوں کو بچا کر کی جائے لیکن طالبان سے نظریاتی جنگ بڑے پیمانے پر کی جانی چاہئے جن میں علمائے دین کے علاوہ ماہرین سماجیات و نفسیات اور سیاست داں و فوجی افسران بھی حصہ لیں ۔ اگر طالبان ذہنیت کو نظریاتی میدان میں شکست دے دی گئی تو پھر پشاور کے آرمی اسکول میں انتہائی وحشیانہ المیہ جیسے دہشت گردی کے واقعات مستقبل میں نہیں ہوگا۔
19 دسمبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/ideological-attack-necessary-terrorists-/d/100569