اسد رضا
6 دسمبر، 2013
افغانستان ،عراق، لیبیا، شام، مصر ، پاکستان ، سوڈان ، الجزائر اور دیگر مسلم ممالک میں لاکھوں افراد گزشتہ دو دہائیوں میں تشدد کاشکار ہوکر جاں بحق یا معذور ہو چکے ہیں ۔شاید ایسا کوئی دن نہیں ہوتا، جب کسی نہ کسی مسلم ممالک میں بے قصور شہری تشدد کا نشانہ نہیں بنتے ہوں ۔ بد بختانہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان صرف غیر مسلم ممالک میں ہی دہشت گردی ،مذہبی عصبیت اور فرقہ وارانہ تشدد کا شکار نہیں ہوتے، بلکہ نام نہاد اسلامی ممالک میں بھی وہ محفوظ نہیں ۔ ممکن ہے آپ ‘‘ نام نہاد اسلامی ممالک’’ پر اعتراض کریں۔ لیکن اس سلسلہ میں آپ سے استدعا ہےکہ برائے مہربانی اُن مسلم ممالک کو اسلامی قرار دینے سے پہلے ایک مرتبہ غور فرمائیں کہ جن ممالک کے حکمراں دادعیش و عیاشی کے لئے یوروپ جاتےہیں، شراب پیتے ہیں، اپنے مسلم عوام کے انسانی و اسلامی حقوق سلوب کرتے ہیں، مسلک ونسل کے نام پر دہشت گردی کو ہوا دیتے ہیں ،برادر اسلامی ممالک میں بغاوتیں کرانے کی سازشیں کرتے ہیں، مظلوم فلسطینیوں اور اسلام و مسلمانوں کے دشمن نمبر ایک اسرائیل سے در پردہ تعلقات بڑھاتے ہیں اور اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ، امریکہ، اسرائیل اور یوروپی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں موساد، سی آئی اے وغیرہ کی مدد سے اپنے پڑوسی مسلم ممالک میں جمہوری طور پر منتخبہ حکومت کا تختہ پلٹواتے ہیں ، خود اپنے ملک میں اسلام کے مختلف مسالک کے ماننےوالوں پر سخت اور غیر انسانی پابندیاں عاید کر کے اسلامی اخوت و مساوات کےاعلیٰ اصولوں کو کچلتے ہیں ، کیا وہ اسلامی ممالک کے حکمراں کہلانے کے مستحق ہیں ۔
جس طرح ہندوتو کاڈھنڈورا پیٹنے والے ہندوستان جمہوریت نشان میں حقیقی ہندو ازم سے بھٹکے ہوئے ہیں، کچھ ویسا ہی حال مسلم حکمرانوں کا ہے ۔ وہ بات بات پر اسلام اورمسلمان کا نام لیتے ہیں ،لیکن عملاً اسلام کو بد نام اور مسلمانوں کو دنیا کی نظروں میں مشکوک بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسلام ہر قسم کی دہشت گردی اور ظلم و تشدد کے خلاف ہے اور گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی سےقبل کسی بھی مسلم ممالک میں دہشت گردانہ واقعات نہیں ہوتے تھے اورنہ ہی غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کو شک کی نظر سے دیکھا جاتاتھا ۔ تب تک کسی بھی غیر مسلم حکمراں یا اعلیٰ افسر نے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑ نےکی جرأت نہیں کی تھی ۔ لیکن افغانستان پر سوویت افواج کے قبضے کے بعد غیور افغانیوں نے غیر ملکی افواج کو اپنے وطن عزیز سے نکال باہر کرنے کے لیے جد و جہد شروع کی ۔ اس جد وجہد کو آگے بڑھانے اور کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے امریکہ نے اُنہیں ہتھیار وں کے ساتھ ساتھ فوجی تربیت بھی فراہم کی اور پاکستان کے فوجی حکمراں جنرل ضیاء الحق کے تعاون سے افغان باشندے جو کئی گروپوں میں منقسم تھے، سوویت افواج اور اُن کے مسلط کردہ حکمراں سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اُنہوں نے وہاں ایک مسلم مملکت قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ کوشش مختلف افغان گروپوں او رجماعتوں کی باہمی چپقلش کی شکار ہوگئی ۔حسب دستور امریکہ، اسرائیل اور یوروپی ممالک نے افغان جماعتوں کو آپس میں لڑانے کی سازشیں کیں اور اُنہیں دہشت گردانہ سر گرمیوں میں ملوث کرنے کی کوششیں بھی ۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ جن افغان مجاہدین آزادی کوامریکہ نے ہر طرح کی مدد دی ، اُنہوں نے ہی جب امریکی سازشوں کی مخالفت کی تو وہ راتوں رات دہشت گرد قرار دے دیے گئے ۔ بلاشبہ سعودی عرب نژاد اُسامہ بن لادن کے خاندان کے تجارتی رشتے سابق صدر امریکہ جارج بُش اور اُن کے اہل خاندان کے ساتھ تھے ۔ اب یہ بات دیگر ہے کہ اُسامہ بن لادن کو امریکہ نے ہی سب سے بڑا دہشت گرد قرار دے کر ہلاک کردیا ۔ بہر حال یہ تمام واقعات و حالات اس حقیقت کا واضح ثبوت ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کاکار بد امریکہ یوروپی ممالک اور اسرائیل نے ہی کیا اور آج افعانستان و پاکستان میں جو دہشت گردانہ واقعات ہورہے ہیں ، اُن کے لیے امریکی، یوروپی اور صیہونی سازشیں ہی ذمہ دار ہیں ، لیکن مسلم ممالک کے کچھ حکمراں بھی جو امریکہ کے ہمنوا ہیں، راست یا بالواسطہ طور پر افغانستان و پاکستان میں دہشت گردی کے لیے کسی حد تک ذمہ دار ہیں ۔
جہاں تک شام کا تعلق ہے تو وہاں تشدد و غارت گری کے لیے جہاں صدر بشر الا سد اور ان کی حکومت بہت حد تک ذمہ دار ہے ، وہیں وہ عرب حکمراں بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں ، جنہوں نے امریکہ و یوروپی ممالک کے ساتھ مل کر شام میں میں بغاوت کو ہوا دی اور باغیوں کو اسلحہ و فوجی تربیت بھی ۔
نتیجتاً اس بد قسمت ملک میں لاکھوں بچے ، بوڑھے ، خواتین اور جوان ہلاک و معذور ہوگئے اور اب وہ دو ا و غذا اور مکانات کی قلت سے دو چار ہیں ۔ شام کی معیشت بھی تباہ ہورہی ہے اور وہاں بے روز گاری میں اضافہ اور پیداوار میں کمی ہورہی ہے۔ شام کے مظلومین کی آہیں انشا ء اللہ ضرور رنگ لائیں گی اوربے حس حکمرانوں کو منھ کی کھلائیں گی۔ شام کی ہی طرح مصر میں بھی قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، کم عمر لڑکیوں کو جھوٹے سچے الزامات میں جیلوں میں ڈالا جارہا ہے ، جوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور اب اس ملک میں جمہوری طور پر منتخب صدر مرسی کا نام لینا بھی گناہ ہے ۔
واضح ہوکہ چونکہ مصر کے بر طرف صدر مرسی جمہوریت نواز اور اسلام پرست ہیں، اس لیے انہیں نہ تو صیہونی حکمرانوں نے پسندکیا اور نہ ہی عرب شاہوں اور سلطانوں کو ان کی عوامی مقبولیت اور اسرائیل مخالف پالیسیاں اچھی لگیں ۔دراصل اخوان المسلمین جماعت کو سعودی عرب اور کویت وغیرہ کے حکمراں بھی نا پسند کرتے ہیں، کیونکہ یہ جماعت اسلامی جمہوریت کی حامی ہے اور بادشاہت کے خلاف ہے ۔ چونکہ محمد مرسی اخوان المسلمین کے نمائندہ ہیں ، لہٰذا سازشیں کر کے اُنہیں اقتدار سے محروم کرادیا گیااور فوجی ٹولے کو عنانِ حکومت سونپ دیا گیا ۔ یہاں یہ بتانابھی بے محل نہ ہوگا کہ اسرائیل ، امریکہ اور ان کے یوروپی حلیفوں مثلاً انگلینڈ اور فرانس وغیرہ کو کسی بھی مسلم ملک بالخصوص مغربی ایشیائی ممالک میں جمہوریت قطعی ناپسند ہے ، اسی لیے الجزائر ،مصر، افغانستان ، پاکستان اور ایران وغیرہ میں بار ہا جمہوریت کو کچلنے کی کامیاب یا ناکام کوششیں امریکہ و یہودی لابی کرتی رہی ہے ۔ یہاں یہ تذکرہ بھی بر محل ہوگا کہ غیر جمہوری حکمرانوں ، خواہ وہ شاہ ہوں یا فوجی ڈکٹیٹر نے اپنے عوام پر بے تحاشہ ظلم کیے ۔ مصر میں بھی یہی تاریخ دہرائی جارہی ہے ۔
عراق و لیبیا میں بھی دہشت گرد بے قصور لوگوں کو مسلک اور قبیلے کے نام پر ہلاک کررہے ہیں ۔ تقریباً ہر روز عراق میں بم دھماکوں کے ذریعہ معصوم بچوں و بڑوں کو لقمۂ اجل بنایا جارہا ہے ۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عراق میں جو کچھ دہشت مغربی و صیہونی ایجنٹ پھیلارہے ہیں ، اسے امریکی و مغربی میڈیا مسلکی رنگ دے رہا ہے ۔ بعض عرب حکمراں بھی اس مغربی پروپیگنڈے کو ہوا دے رہے ہیں ۔ شرمناک بات یہ ہے کہ رمضان المبارک میں بھی دھماکوں اور تشدد کا سلسلہ بند نہیں کیا گیا اور نہتے نمازیوں و روزہ داروں کو بھی تشد د کا نشانہ بنایا جارہا ۔ مساجد ، مزارات اور امام بار گاہیں بھی تباہ کی جاتی ہیں ۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بعض مسلم حکمراں بے حس ہوگئے ہیں اور ظلم و دہشت گردی کو روکنے کی صدق دل سے کوششیں نہیں کررہے ہیں تو عالم اسلام کے فرزندان توحید کیا کریں؟ اس سوال کاجواب یہی ہے کہ تمام مسالک کے علمائے کرام، مفتیان گرامی اور دانشور حضرات ایک بین الاقوامی تنظیم بنا کر عالمی برادری سے عموماً اور مسلم حکمرانوں سے خصوصاً یہ گزارش کریں کہ وہ اپنی بے حسی کو ختم کر کے دہشت گردوں کے خلاف خواہ وہ کسی بھی مذہب و مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، سخت اقدام کریں ۔مسلم علمائے دین اور دانشوروں کی مجوزہ تنظیم عام مسلمانوں کو بھی یہ باور کرائے کہ اسلام دشمن طاقتیں کچھ پر جوش مگر سیدھے سادے مسلم نوجوانوں کو گمراہ کر کے اور دولت کالالچ دے کر دہشت گردی کی راہ پر ڈال رہی ہیں، لہٰذا ایسے بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو ان کے دوست اور اعزا سمجھا بجھا کر حقیقی اسلام کے جو دہشت گردی کا مخالف ہے ، پیرو بنائیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی کوششوں کی مخالفت نہ صرف صہیونی لابی اور مغربی ممالک کریں گے، بلکہ بعض بے حس مسلم حکمراں بھی کریں گے ، لیکن ان سب کامقابلہ عالم اسلام کو صد ق دلی اور حکمت عملی سے کرنا ہوگا اور ظالموں کو یہ بتلا نا ہوگا کہ
ملتی ہے خموشی سے ظلم کو سزا یارو!
اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی
6 دسمبر، 2013 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/insensitive-rulers-andterrorism-muslim-countries/d/34743