اسد مفتی
6 اگست، 2012
ایک خبر کے مطابق مسلم کمیونٹی
یا امہ یا ملت یا جو بھی کہہ لیجئے ایک مرتبہ پھر رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے
حوالے سےتقسیم ہوکر رہ گئی ۔ یہ تقسیم تین حصوں پر مشتمل ہے برطانیہ ہالینڈ جرمنی اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں رہنے
والے مسلمان جو سعودی عرب کا اتباع کرتے ہیں
انہوں نے جمعہ کو پہلا روزہ رکھا جبکہ
مراکش ترکی اور پاکستان کو فالو کرنے والے مسلمانوں نے ہفتہ کو رمضان کا پہلا روزہ رکھا ۔ ایجنٹ پارک لندن کی جامع مسجد نے جمعہ
کو پہلے روزہ کا اعلان کیا جب کہ اس کی ویب
سائٹ پر ہفتہ کے دن پہلے روزہ کی نوید دی گئی قبل ازیں مسلمانوں کی مرکزی جماعت اہلسنت برطانیہ و یورپ
نے یہ بیان دے دیا تھا کہ چونکہ برطانیہ میں
جمعرات کو چاند نظر آنے کا امکان نہیں اس
لیے جمعہ کو شعبان کے مہینہ کی 30 تاریخ سمجھی جائے گی۔
جماعت اہل سنت مسلمانوں کی
ایک نمائندہ جماعت ہے جس کی برطانیہ بھر میں 600سے زائد مسجد یں ہیں ۔ میرے حساب سے
رویت ہلال کامسئلہ مسلمانوں کے لیے دنیا بھر میں کوئی نیا یا انوکھا مسئلہ نہیں ہے۔
یہ اختلافات صدیوں سے ہوتے آئے ہیں اور جب تک آبزرویٹری کی مدد نہ لی جائے گی، ہوتے
رہیں گے ۔ یہاں مجھے ایک فتویٰ یا د آرہا ہے ۔ فرماتی ہیں کہ چاند کی ہلالی شکل کی
موجودگی شرعی حد کے لیے بہت ضروری ہے ۔ آبرو ریزی کا نظام اسی وقت قابل قبول ہے جب
وہ شرعی حقوق کو پورا کرے اور شرعی حد کے لیے چاند کی ہلالی شکل میں افق پر موجود گی بےحد ضروری ہے ۔ آپ کو یاد
ہوگا کچھ عرصہ قبل جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر قاضی حسین احمد نے کیا پتے کی
بات کہی تھی انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ مولوی چاند دیکھنا چھوڑ دیں اور
رویت ہلال کمیٹی توڑ دی جائے۔ انہوں نے مزید کہا تھاکہ میں کوئی مفتی نہیں ہوں۔ یہ
میری ذاتی رائے ہے ۔
میرے خیال میں رویت ہلال کمیٹی
کے ارکان میں اختلاف کی صورت میں حتمی فیصلہ حکومت وقت کو کرنا چاہئے ۔ انہوں نے یہ
بھی کہا تھا کہ اسی طرح یورپ اور امریکا میں مقامی حکومتوں کے فیصلوں پر عمل کرنا چاہئے
۔ قاضی حسین احمد کے جواب میں مفتی نہیں بلکہ مفتیان اہل سنت لندن کا ایک بیان شائع
کیا گیا جس میں قاضی صاحب کے بیان کے برعکس یہ بتایا گیا کہ رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے
کے خلاف فتویٰ (حالا نکہ قاضی صاحب نے فتویٰ نہیں دیا تھا) خلاف شروع ہے۔ جس کے نتیجہ
میں انتشار پیدا ہوگا ۔ رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ پاکستان میں موثر ہے تو بیرون پاکستان
کیسے رد کیا جاسکتا ہے؟ بیان میں یہ بھی کہا
گیا ہے کہ یہ مداخلت فی الدین ہے۔ اس سال بھی لندن کے علاوہ ایمسٹرڈیم برلن او رپیرس
کے علماء کا تبصرہ لائق توجہ ہے ۔ ایک عالم دین فرماتے ہیں کہ قاضی کے فیصلے میں اگر خدانخواستہ خطا بھی ہوجائے تب
بھی وہ موثر اور واجب التعمیل ہے ۔
شک وہ شبہ کی بناء پر شک کاروزہ
بھی رکھا جاسکتاہے ۔میرے حساب سے علماء حضرات کو چاہئے کہ وہ سائنسی معلومات سے استفادہ کرتےہوئے صیام اور عید وغیرہ
کا تعین کرنے کے لیے مل بیٹھ کر فیصلہ کریں تاکہ یورپ کے مسلمان ایک ہی دن عید مناسکیں
۔ بعض علماء کے نزدیک عید کی تاریخ کا اعلان قبل از وقت نہیں ہونا چاہئے اور دوسرے
ملکوں بالخصوص سعودی عرب سےشہادت پر عمل کیاجائے ۔ لیکن میرے حساب سے ایسا ممکن نہیں اور اس طریقے سے یہ مسئلہ حل بھی نہیں ہوسکتا کہ ایک غیر مسلم ملک میں رہتے ہوئے ہمارے
کئی مخصوص مسائل ہیں ضروریات ہیں مثلاً بچوں کے اسکول دفاتر فیکٹریاں ہوٹل اور دوسرے
اداروں سے پیشگی چھٹی مسجدوں میں سیکورٹی کا انتظام اور پارکنگ سےمتعلق محکمہ پولیس
کی پلاننگ نماز روزہ اور عید کے لیے مناسب وقت پر عمارتوں کو کرایہ پرحاصل کرنا اور
یہ سب مسائل ننگی آنکھ سے چاند دیکھنے سےحل نہیں ہوں گے اور پھر اکثر و بیشتر یورپ
کا موسم اپنے ابر آلود مطلع کی وجہ سے ہمارے چاند کو چھپائے رکھتا ہے۔ اس لیے حالات
وقت او رموسم کا تقاضہ ہے کہ فلکیاتی و سائنسی
معلومات اور حساب کتاب کی مدد سے پہلےسے چاند کی تاریخ کا تعین کرلیا جائے تاکہ عین
وقت پر چاند دھوکا نہ دے جائےفلکیاتی معلومات کی روشنی میں جس تاریخ کو وجود قمر اور
امکان رویت ہو دونوں فارمولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عید کے دن کا اعلان کیا جائے ۔
اس میں مسلم یا غیر مسلم ہونے
کی کوئی بندش نہیں ہے۔ ہم عید و صیام کا چاند آبزرویٹری کےکہنے پر کیوں نہیں نکال سکتے؟ ایک بات جو سمجھ میں قطعی نہ آنے والی
ہے، وہ یہ ہے کہ غیر مسلم سورج کے طلوع ہونے اور غروب آفتاب کی اطلاع دے تو امریکا
برطانیہ او رمغرب کے دوسرے ملکوں میں بسنے
والے تمام مسلمان ایمان لے آتےہیں لیکن اگر وہ چاند کی اطلاع دے تو علماء اور آئمہ یہ کہہ کر ماننے سے انکار کردیتےہیں کہ یہ غیر مسلم ہیں او رغیرمسلم کی شہادت شریعت میں معتبر نہیں ۔ برطانیہ
او ریورپ میں مسلمانوں سے نمازوں اور روزوں کے جو ٹائم ٹیبل بنا رکھے ہیں
ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ چاند کے قبل از وقت یا بعد از وقت نمودار ہونے کا
اعلان اگر قابل اعتراض ہے تو پھر سورج پر اعتراض
کیو ں نہیں ؟جب کہ سورج کے غروب و طلوع ہونے کا بہت پہلے اعلان کردیا جاتا ہے ۔ یورپ کے علمائے دین اور مفتیان شرع متین بتائیں کہ اسلامی
اور شرعی نقطہ نظر سے صرف چاند کی اطلاع غیر مسلموں کی زبان و نظر سے دی جائے تو ناجائز
ہے یا سورج کے طلوع ہونے یا غروب ہونے پر بھی
غیرمسلم کی اطلاع باطل ہے؟ آبزرویٹری کی رپورٹ کےمطابق یہی غروب آفتاب طلوع آفتاب او رنمازیوں کی نمازوں
کے اوقات طے کیے جاتےہیں ۔
اگر غیر مسلموں کی شہادت شرعاً
درست نہیں یا معتبر نہیں تو پھر روزوں کی طرح
نما ز بھی اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔ ایسی صورت میں سورج کے طلوع و غرو ب ہونے کے اوقات بھی آبزرویٹری سے نہ لیے جائیں ۔ اگر کافروں کی
بنائی ہوئی آبزرویٹری سےنمازوں کی فال نکالی
جاسکتی ہے تو عید وصیام کے چاند پر کس بات کا جھگڑا ہے ؟مفتیان دین متین عصری تقاضوں کو مد
نظر رکھیں نہ کہ ذاتی اور وقتی مفادات کو ۔ ہوسکے تو میرے اس شعر پر غور کیجئے :
راہبران قوم یوں تو راہبری
کرتے رہے
پھر بھی ساری قوم یو نہی ٹھوکریں
کھاتی رہی
6 اگست ، 2012 بشکریہ
: روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL: