اسد مفتی
25 اگست، 2012
جج نے کہا ‘‘ ان کو اپنی بیٹی سے محبت نہیں تھی بلکہ ان کو
اس بات کی فکر تھی کہ ان کی بیٹی نے مغرب کی اقدار کو اپنا لیا ہے اور یہ بات ان کی
بدنامی کا باعث بن رہی ہے’’۔
باپ نے کہا ‘‘ اگر کسی نے شفیلہ کے بارے میں زبان کھولی تو اس کا بھی شفیلہ
جیسا انجام ہوگا۔’’
چھوٹی بہن علیشا نے کہا ‘‘ اس کے والدین نے اس کے سامنے
شفیلہ کو دم گھونٹ کر قتل کیا تھا ۔’’
بھائی جنید نے کہا ‘‘ ا س
کا انجام یہی ہونا تھا ۔’’
سات مردوں اور پانچ عورتوں
پر مشتمل جیوری نے کہا ‘‘ انہوں نے اپنی بیٹی
کو قتل کر کے باقی سارے خاندان کی زندگی بھی تباہ
کردی۔’’
شفیلہ کی ایک قریبی دوست میلیسا
پونر نے عدالت کا فیصلہ سننے کے بعد کہا کہ آج انصاف کے تقاضے پورے ہوگئے ہیں۔ میں نے کئی برس تک اس دن کا انتظار کیا ہے۔’’
کچھ واقعات او رکہانیاں ایسی
بھی ہیں جو ان کہی رہ جاتی ہیں، انہیں بیان کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اور انہیں
خاموش آنکھوں میں یا سلے ہوئے ہونٹوں کی تھر تھراہٹ سے سمجھا جاسکتا ہے ۔ یہ بھی ایک
ایسی ہی کہانی ہے جو ‘‘غیرت’’ کے نام پر لکھی گئی ہے۔ اس غیرت نامی جذبے کے نام پر قتل کے مشہور
مقدمہ میں شفیلہ احمد کے والدین کو لندن کی عدالت نے مجرم قرار دیا ہے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ جج مسٹر جسٹس روڑرک ایونز نے اپنے فیصلے میں
لکھا ہے کہ والد افتخار احمد اور والدہ فرزانہ احمد کو ہر حال میں پچیس
پچیس برس تک جیل میں رہنا ہوگا ۔ فیصلہ سنانے سے پہلے چسٹر کورٹ کے جج جسٹس روڑ رک
نے جیوری کے ارکان سے کہا کہ وہ اس کیس کا فیصلہ کرتے وقت اپنے جذبات اور ہمدردی کو ایک طرف رکھیں اور انہیں فیصلے پر حاوی نہ ہونے دیں۔ سو ایسا ہی ہوا ، سات مردوں اور پانچ
عورتوں پر مشتمل جیوری نے مقتولہ شفیلہ احمد کے باغیرت والدین کو اس قتل کے جرم میں
مجرم قرار دے دیا۔
شفیلہ احمد ستمبر 2003 میں وارنگٹن میں واقع اپنے گھر
سے لاپتہ ہوگئی تھی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا
سے ہی لاپتہ ہوگئی تھی بلکہ تلاش بسیار کے
بعد پولس کو اس کی لاش کمبریا دریا کے کینٹ
کے کنارے سے برآمد ہوئی تھی۔ باقی کی کہانی
وہی دو معاشروں کی کہانی ہے، دو ثقافتوں کا تضاد
ہے، دو اقدار کا فسانہ ہے ، دو تہذیبوں کا تصادم ہے ، لیکن ٹھہرئیے ! میرے حساب
سے یہ دو ثقافتوں کا تصادم نہیں ہے بلکہ وہ تصادم ہے جو جہالت، ہٹ دھرمی ، بے حسی او
ر مذہبی عقیدہ کے سبب پیدا ہوئے ہیں ۔ یہاں عقیدہ کوئی خاص معنی یا اہمیت نہیں رکھتا ۔ ہم جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں یہ بالکل ایسے ہی
ہے کہ جن کشتیوں کے بادبان کھلےہیں وہ ان کے ساتھ بہہ نکلتی ہیں اور
اپنی راہ پر آگے بڑھتی ہیں لیکن جن کشتیوں کے بادبان کھلے نہیں ہیں وہ ان ہواؤں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتیں ۔ تو کیا یہ ہواؤں کا قصور ہے؟ مذکورہ
واقعہ مغرب میں مقیم پاکستانیوں کا پہلا واقعہ
نہیں ہے اورنہ ہی اس کے رد تحمل میں پیدا ہونے والے حالات پہلی بار رونما ہوئے ہیں ۔ یہ بات سنگین بیماری
کی واضح علامت ہے ۔
کچھ عرصہ قبل بھی جب کینڈا
میں مقیم ایک پاکستان نژاد لڑکی نے حجاب پہننے
سے انکار کردیا تو اس کا باپ جو بدقسمتی
سے پاکستانی ہی تھا اس معصوم لڑکی کا
اپنے ہاتھوں گلا گھونٹ کر جنت کا حقدار ہوگیا
۔یہ دلخراش ، دلدوز ، سفاکانہ واردات ٹورنٹو کے مضافات مسی ساڈ میں پیش آئی تھی ،
کینڈا سے ساری دنیا میں جاری کی گئی اس خبر میں بتایا گیا تھا کہ 57 سالہ محمد پرویز
نامی ایک شخص نے اپنی 16 سالہ بیٹی اقصیٰ پرویز کا گلا گھونٹ دیا۔ لڑکی کو فوری قریبی اسپتال لے جایا گیا اور اس کو مصنوعی تنفس پر رکھا گیا لیکن ظالم باپ کے طاقتور ہاتھوں
نے یہ علاج کارگرنہ ہونے دیا اور یہ لڑکی اسی رات ‘‘پر امن مذہب’’ کی بھینٹ چڑھ گئی
۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اسلام کے ظہور سے
پہلے اور بعد میں کیا فرق باقی رہ گیا؟ تب بھی لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے اور
اب اپھی اپنے ہاتھوں گلا گھونٹ دیتے ہیں
۔ یہ مذہب ثقافت کے نام پر جان دینے والی اقصیٰ
پرویز مقامی اپیل ووڈ ہائی اسکول میں زیر تعلیم
تھی۔ اس کی کلاس فیلوز نے بتایا کہ اقصیٰ کے کچھ عرصہ سے اپنی فیملی سے اختلاف چل رہے تھے ، خاندان کے درمیان کچھ مسائل
تھے کیونکہ اس نے حجاب پہننے سے انکار کر دیا تھا، ہمارے اسکول کی کوئی بھی بڑی لڑکی حجاب نہیں پہنتی تھی۔
ان طالبات نے بتایا کہ اقصیٰ
پرویز اپنے باپ کے اصرار پر گھر سےنکلتے وقت
حجاب پہن لیتی تھی اور اسکول
آنے کے بعد مروجہ ملبوسات پہن لیتی
تھی ۔ ان لڑکیوں کو اچھی طرح یاد
تھا کہ وہ اسکول آنے کے بعد کس تیزی
سے دوڑ کر واش روم میں داخل ہوتی تھی اور اپنا لباس تبدیل کرتی تھی تاکہ وہ ہم سب کی طرح لگے، اسکول کی دوسری ہم عمر لڑکیوں
کی طرح نظر آئے۔ اس بھیانک قتل کی واردات نےکینڈا جیسے پر امن ملک میں صدمہ کی لہر
دوڑ ادی۔ اخبار نویسوں نے ٹورنٹو میں مقیم ایک پاکستانی خاتون کا انٹرویو کیا تو اس
نےکہا ‘‘حجاب کبھی بھی پاکستانی معاشرے کا
حصہ نہیں رہا، یہ عرب سے آیا ہے او رعربی ثقافت پاکستان سے مختلف ہے۔ ’’ اس ٹیچر خاتون سونیا احمد نے صحافیوں کو
بتایا کہ ‘‘ وہ شخص ( پرویز ) اب یہ سمجھتا ہوگا کہ اس نے صحیح قدم اٹھایا ہے اور وہ سید ھا جنت میں جائے گا جہاں 70 حوریں
اس کا انتظار کررہی ہوں گی۔ اس خاتون نے کہا
کہ ہم پاکستانی جنوبی ایشیا ئی باشندے ہیں اور جنوبی ایشیائی باشندہ
کا کلچر جداگانہ ہے۔’’ ایک اور خاتون
عاصمہ خان جور سالہ مسلم گرل کی چیف
ایڈیٹر ہیں نے صحافیوں کو بتایا کہ سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں عرب و ہابی علماء اور انتہا پسندوں کو مدعو کیا جنہوں نے روسیوں
کے خلاف ‘‘جہاد’’ کے علاوہ پاکستانی
خواتین سے شادیاں کیں او رشوہروں کے
کہنے پر حجاب کی روایت کا پاکستان میں آغاز
کیا جسے ضیا ء حکومت اور اس کے چیلے چانٹوں نے بڑھاوا دیا، ضیا ء الحق سے پہلے حجاب کی کوئی مثال نہیں
ملتی۔ مسلم گرل کی ایڈیٹر ان چیف نےنوجوان لڑکیوں پر والدین کی مرضی مسلط کئے جانے
کی سخت مخالفت کی۔
عورت پر ظلم کیو ں کیا جاتا
ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جس پر آج
اپنوں اور غیروں کو انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ میرے حساب سے اس سوال کا جواب تو بہت سادہ اور عام فہم ہے۔ ایک بات تو سب پرواضح ہے او ریہ بات
طے شدہ ہے کہ جاگیردارانہ وقبائلی رسم ورواج
او رمعاشرت سے ہم نکل نہیں سکے لیکن
اس کے ساتھ ساتھ دوسری اہم حقیقت بھی ہمیں منھ
چڑھا رہی ہیں اور وہ ہے ہمارا فقہی
لٹریچر ۔ اس سلسلہ میں مجھے زیادہ کچھ نہیں کہنا کہ
اس میں بہت سے ‘‘پردہ نشینوں’’ کےنام بھی آتے
ہیں مگر ان فقہی علوم میں عورت سے کچھ اچھا
سلوک نہیں کیا گیا۔ فقہ نے عورت کو جو مقام
دیا ہے وہی فساد برپا کرنے کےلئے کافی ہے ۔ یہ بات کہے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ عورت کے بارے میں ہمارا قصور دین ناقص ،
فرسودہ ، جاگیر دارانہ او ربغض و تعصب پر مبنی
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فقہی لٹریچر کے زیر سایہ پاکستانی
معاشرہ میں عورت کے بارے میں ایک ‘‘مضبوط ناقص سوچ پیدا ہوگئی ہے اور یہ ناقص سوچ نہ صرف مملکت خداداد میں اپنا
گھر بنا چکی ہے بلکہ اس کی سرحدوں سے باہر مغرب میں بھی اپنا رنگ دکھا رہی ہے ۔ ہم
جہاں جاتے ہیں اس ناقص سوچ کی گٹھریاں سرپر
اٹھائے جاتے ہیں۔اب یہی دیکھئے مغرب کی ایک
جمہوری معاشرہ ہے یہاں ہر ایک کو اپنی بات کہنے کی مکمل آزادی حاصل ہے ۔ کیا یہاں عورت کی گواہی ایک مرد کے برابر نہیں ہوتی؟ برطانیہ یا کینڈا، ہالینڈ یا امریکہ کسی ایک
نسل یا ثقافت کا ملک نہیں رہا بلکہ سارا مغرب
ایک ملٹی کلچر یا کثیر الثقافتی ملک بن گیا ہے مگر اس کثیر الثقافتی معاشرے کا مطلب یہ ہر گز
نہیں ہے وہاں کی صدیوں پرانی اقدار اور تہذیب پر کوئی اور تہذیب مسلط کردی جائے ۔
آج کے مسلمانوں کی رہنمائی کرنےوالے ملاؤں ، مولویوں، علماء کرام اور نام
نہاد دانشوروں کی اکثریت ساتویں اور آٹھویں صدی کی اسلامی روایات اور رسم ورواج کو مثالی سمجھتی ہے۔ نئے
وقت کے نئے تقاضوں کو پس پشت ڈالتی ہے، پرانی کنجیوں سے نئے تالے کھولتی ہے
۔ آج باشعور مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس گروہ
کو ساتویں صدی کی ذہنیت سے نکالے اور اسلام
کی ایسی عصری شکل مرتب کرے جو دوسرے مذہب و تہذیب
وتمدن اور روایات کے ماننے والوں کو
بھی قابل قبول ہو۔ میرے حساب سے پاکستان سے
تارکین وطن کی پہلی نسل تک اپنے اپنے عقائد او رمسلک و فرقہ ہی لے کر بیرون ملک آئے تھے۔ ابھی مولویوں او ر‘‘علماء’’
کی آمد شروع نہیں ہوئی تھی پھر ہوا یہ کہ
دوسری اور تیسری نسل تک پہنچتے پہنچتے مغربی ملکوں کی ہرگلی او رہر محلے
میں ‘‘علماء ’’ کے ساتھ ساتھ ان کےمسلک
، عقائد اور فرقے بھی پہنچ گئے۔ ان
لوگوں نے پاکستان کی طرح مغرب میں بھی فرقہ وارانہ اور تنگ نظری
کے ڈھول پیٹنے شروع کر دیئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ
اس معاشرے کو ‘‘کفرستان’’ سے تعبیر کرتےہوئے اس
معاشرے کی برائیاں گنا گنا کر نئی نسل کو ایسا پیغام
دیا کہ اس میں افتخار احمد اور محمد
پرویز جیسے مسلمان کھمبیوں کی طرح اگنے لگے جس کے نتیجہ میں آج
ہم ان علماء ، مولویوں ، ملاؤں اور ان کی خود ساختہ روایات کی اموات کا ماتم
ہی نہیں کررہے بلکہ اس مغربی معاشرے
کے ساتھ اپنے تعلقات کی موت کا بھی
ماتم کررہے ہیں ۔ برطانیہ میں مقیم
افتخار احمد او رکینڈا کا رہائشی محمد پرویز دراصل اس معاشرہ کا کبھی بھی حصہ نہیں
رہے۔کبھی بھی حصہ نہیں بن سکتے تو کیا
یہ بہتر نہیں ہے میرے پیارے حسن نثار کہ افتخار احمد او رمحمد پرویز ایسے لوگوں
کو واپس بلالو؟ کیا یہ اچھا نہیں ہے کہ یہ
اپنے لوگوں میں پلٹ جائیں؟ کیا تم بھی وہی سوچ رہے ہو جو میں سوچ رہا ہوں؟
25 اگست، 2012 بشکریہ: صحافت ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/hassan-nisar-please-call-back/d/8452