اسد مفتی ،ہالینڈ
افغانستان میں امریکی فوجی حکام نےکہا ہے کہ بین الاقوامی نیٹو فورسز اور افغان فوجیوں نے جنوبی افغانستان میں 60طالبان کو ہلاک کر کے بہت بڑی مقدار میں منشیات برآمد کی ہیں۔فوج کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہلمند صوبے کے مرجہ گاؤں میں چار دن کی کارروائی کے بعد یہ کامیابی حاصل کی گئی ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پوسٹ کے 92ٹن بیج اور چھ ٹن دوسری منشیات قبضے میں لی گئی ہیں جس سے منشیات کا ایک بہت بڑا گروہ ختم کردیا گیا ہے۔ طالبان نے اس بارے میں کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن ایک بات یاد رکھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ ہلمند صوبہ میں پوست بڑے پیمانے پر کاشت کی جاتی ہے اوراس صوبے سے دنیا کو فراہم کی جانے والی منشیات کا 90فیصد حصہ آتا ہے ۔ ادھر تہران میں پاکستان ،ایران اور افغانستان کی ایک روزہ کانفرنس میں منشیات کیااسمنگلنگ اور اس سے منسلک دوسرے معاملات زیر غور آئے ہیں جب کہ افیون کی پیدوار سے لاحق خطرات پر بھی گفتگو ہوئی کہ طالبان (افاانی ) اپنی کارروائیوں کے لئے پوست کی کاشت سے رقم فراہم کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ہنگری کے دارالحکومت بڈ اپسٹ میں نیٹو ممالک کے وزرا دفاع کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کی تجارت سے سالانہ ایک سوملین ڈالر کما رہے ہیں، جس سے وہ افغانستان میں موجوداتحادی افواج کے خلا ف لڑنے کے لئے اسلحہ خریدتے ہیں۔ قبل اس کے نیٹو کے آپریشنز کمانڈر امریکی جنرل جان کراڈ وک نے نیٹو کے 26ممالک سے درخواست کی تھی کہ وہ افغانستان میں طالبان کے حملوں کی روک تھام کے لئے وہاں قائم افیون کی فصل ،لیباریٹریوں ، اسمگلروں کے نٹ ورک اور منشیات کے اسمگلر وں پر بمباری کی اجازت دے۔جنرل جان نے یہ بھی کہا کہ منشیات کی بڑھتی ہوئی پیداوار سے حاصل ہونے والی آمدنی طالبان کی امداد کا بڑا ذریعہ ہے اور اس کو ختم کئے بغیر افغانستان میں سیکورٹی کی صورتحال کو کنٹرول کرنا مشکل ہوگا۔ انہوں نے اتحادی کمانڈروں کو بتایا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان میں ہیروئن کے کاروبار میں ملوث بڑی بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالا جائے اور لیبا ریٹریوں کو نشانہ بنایا جائے تاکہ طالبان کو جنگ کےلئے مالی وسائل مہیانہ ہوسکیں جب کہ تجزیہ نگاروں کے مطابق افغانستان کی 50فیصد معیشت منشیات کے دھندے پر ہی منحصر ہے ۔ ان ‘بڑی مچھلیوں’ کے ذکر کے حوالے سے نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی اپنے بھائی کا تحفظ کرسکتے ہیں ان کی ساکھ کو نقصان پہنچارہا ہے ۔ نیویارک ٹائمز کےمطابق 2004میں قندھار کے باہر ٹریکٹر ٹرالی سے منشیات کی بہت بڑی مقدار بر آمد ہوئی تھی۔افغان فوج کے مقامی کمانڈر حبیب اللہ جان نے بڑی تیزی کے ساتھ منشیات سے بھری ٹرالی کو اپنے قبضے میں لے لیا لیکن کمانڈر کے بقول کچھ ہی دیر میں انہیں صوبائی کونسل قندھار کے صدر احمد ولی کرزئی اور صدر حامد کرزئی کے ایک مشیر شیدا محمد کی ٹیلی فون کال موصول ہوئی جس میں انہیں کہا گیا کہ وہ ٹرک اور منشیات کو چھوڑ دیں جس کی انہوں نے تعمیل کی۔ اس طرح کمانڈر حبیب اللہ جان بعد میں رکن پارلیمنٹ بن گئے اور اس طرح بعد انہیں گولی مار کر ہلاک کردیا نیویار ٹائمس نے مزید لکھا ہےکہ اس کے بعد 2006میں امریکی اور افغان اہلکاروں نے کابل کے مضافات میں منشیات سے بھرا ایک اورٹرک پکڑا جس کی اطلاع حکام کو حاجی امن خیری نامی مخبر نے دی تھی۔ ایک سال کے بعد اسی حاجی امن خیری کو افغان نائب صدر کے قتل کی سازش کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ 2007میں افغان صدرکرزئی کو امریکی سفیر اور سی آئی اے کے اسٹیشن چیف نے ایک بریفنگ دی، جس میں انہیں ان کے بھائی احمد ولی کرزئی پر الزامات کے بارے میں بتایا گیا لیکن حامد کرزئی نے امریکی حکام سے ثبوتوں کا مطالبہ کردیا۔ اخبار کا کہنا ہے کہ وہائٹ ہاؤس اور امریکی حکام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ احمد ولی کرزئی منشیات کی تجارت میں ملوث ہیں، تاہم کسی ثبوت کے نہ ہونے کی وجہ سے احمد ولی پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا۔ ان الزامات سے کرزئی کی ساکھ کو امکانی نقصان کے علاوہ امریکی انتظامیہ کو اندیشہ ہے کہ اس قسم کے تاثرات کرزئی حکومت کو مستحکم بنانے کے لئے امریکی کوششوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے جب کہ کرزئی حکومت پہلے دشمنوں اور طالبان کی کارروائیوں میں گھر ی ہوئی ہے ۔ اس صورتحال کو منشیات کی رقم نے اور بھی بدتر بنادیا ہے اور یہ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ افغانستان جو منشیات کا گڑھ بنتا جارہا ہے کو اگر کنٹرول نہ کیا گیا تو اس کے اثرات مشرق وسطیٰ بلکہ پورے خطے میں پڑیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے انسداد منشیات کے سربراہ انٹونی ماریہ کو سٹر نے گزشتہ دنوں بر سلز (بیلجیم ) میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی حکومت کی طرف سے انسداد منشیات کی اسمگلنگ اور غیر قانونی نقل وحرکت کے سدباب کے لئے کئے گئے اقدامات کو سراہا ہے اور بتا یا کہ 3500ایرانی سیکورٹی اہلکار ڈرگ مافیا اور اسمگلنگ کے خلاف کارروائیوں کے دوران اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ انٹونی ماریہ کوسٹر نے پریس کو یہ بتایا کہ افغانستان کے سرحدی علاقے اس وقت منشیات فروشی اور ہیروئن اسمگلنگ کےگڑھ بنتے جارہے ہیں ۔ اس وقت افغانستان کے صرف 12صوبے منشیات کی اسمگلنگ سے بچے ہوئے ہیں جب کہ باقی کے تمام صوبے اس لعنت میں براہ راست ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی باعث تشویش ہے کہ 2006کی نسبت 2008میں ہیروئن اور دوسری منشیات کی پیدوار میں 39فیصد اضافہ ہوا ہے اور طالبان کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ منشیات اور اسمگلنگ ہے۔ میرے حساب سے بھی اگر افغانستان میں محض دس ہزار طالبان موجود ہیں اور ایک طالب پر آنے والا خرچ 40سے 30ہزار روپے تک ہے تو اس طرح سالانہ دو سے تین ارب تک رقم خرچ ہورہی یہ رقم کہاں سے آرہی ہے؟ میں بھی سوچتا ہوں، آپ بھی سوچئے !
‘‘تائے گی کسی دن باد باراں میں نہ کہتا تھا’’
a.mufty@gmail.com
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/taliban-leading-global-heroin-trafficking/d/1499