New Age Islam
Sat Mar 25 2023, 01:48 PM

Urdu Section ( 31 Oct 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Shariat and Wisdom Both against Forced Marriage شریعت اور عقل دونوں جبری شادی کے خلاف ہیں

اسد مفتی

1 نومبر، 2012

گزشتہ ہفتے جیو چینل پر جنگ فورم لندن کا جبری شادیوں کے بارے میں ایک خصوصی پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یو کے میں بسنے والی ایشیائی کمیونٹی میں جبری، بے جوڑ اور سہولت کی شادیوں کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے یا کر گیا ہے، اس بات کا اظہار یا انکشاف اس خصوصی ٹی وی پروگرام میں بخوبی کیا گیا ۔ میرے حساب سے یہ ایک ‘یوروپ گیر’ شو تھا، جسے اسکا ٹ لینڈ کے شہر ڈنڈی میں ریکارڈ کیا گیا تھا کہ اسکاٹ لینڈ میں جبری شادیوں کو مجرمانہ عمل قرار دے دیا گیا ہے اور ایسا کرانے والے والدین ، عزیز و اقارب یا سر پرستوں کو دو سال تک کی سزا دی جاسکتی ہے ۔ برطانیہ ، اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ کی ایشیائی کمیونٹی میں جبری اور بے جوڑ شادیوں کے ساڑھے تین سو ایشیائی شادیاں ہوتی ہیں، جن میں پچاس فیصد شادیاں جبری یا بے جوڑ شادیوں کے زمرے میں آتی ہیں۔ اس قسم کی صورتحال سے جوڑے کے علاوہ نہ صرف ان کے خاندان ،بلکہ نسلی تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں۔ کونسل کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 88 فیصد شادیوں میں ایک فریق کا تعلق ‘غیر ملک ’ سے ہوتا ہے ۔ 79 فیصد شادیاں معاوضہ ، بے جوڑ اور مفادات پر مبنی ہوتی ہیں (جنہیں سہولت کی شادی بھی کہا جاتا ہے )جبکہ 21 فیصد خالصتاً جبری تھیں ۔ شادی کرنے والی خواتین کا تناسب 62 فیصد اورمردوں کا تناسب 38 فیصد تھا ، جب کہ 35 فیصد کو ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑا ۔ جبری شادی پر مجبور کئے جانے والی خواتین  کی عمر سولہ سے بیس سال کے درمیان تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ ، اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ میں مرضی اور منشا کے خلاف زبردستی شادیوں کے نتیجے میں بعض لڑکیاں خود کشی تک  کر بیٹھتی ہیں اور یہ بات آپ کے گوش گزار کرنی میرے لیے بے حد ضروری ہے کہ خود کشی کی شرح ایشیائی لڑکیوں میں دیگر خواتین کی نسبت تین گنا زیادہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے ایک نئے قانون کو ملک میں متعارف کرادیا ہے، جس سے ان افراد کے خلاف جنسی جرائم ، اغوا اور حبس پر زبردستی یا جبرکی شادی کا الزام ثابت ہوجائے گا۔ آنے والے وقت میں انگلستان میں مقیم پاکستانی ، ہندوستانی اور دوسرے ایشیائی والدین اپنے بچوں کی جبری شادی کروانے پر اب کڑی سزا کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔

وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے حوالے سے بھی خبر آچکی ہے ۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ حکومت جبری او ربوگس شادیوں کے خلاف سخت اقدامات کرے گی ۔ علاوہ ازیں نائب وزیر اعظم نے بھی یوروپین اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے پھر کہا ہے کہ منظّم گروہ بوگس شادیاں اور سہولت کی شادیاں کرواکے بھاری رقم بٹور رہا ہے ۔ میرے نزدیک یہ بھی جبری شادیوں جیسا جرم ہے اور ایسی شادی کے لیے کسی بھی ایشیائی ملک سے آنے والے کو برطانیہ میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اس لیے قانون کے تحت کسی ایشیائی والدین کے لیے یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ اپنے بیٹے یا بیٹی یا بھائی بہن کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کرسکے۔ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں سالانہ بارہ شادیاں والدین کی مرضی (ارینج ) سے ہوتی ہیں، جن میں زیادہ تر لڑکیاں شامل ہیں مگر اب آئندہ ایسا نہیں ہوسکے گا۔ میرے حساب سے جبری شادی نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، بلکہ یہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور معیار کی بھی خلاف ورزی ہے، نہ ہی مذہب یا کلچر کے حوالے سے اس کا جواز پیش کیا جاسکتا ہے ۔ ہمارے مقابلے میں ہندوستانی  کمیونٹی میں اگرچہ اس قسم کی بے جوڑ اور جبری شادیوں کی مثال خال خال ہے، تاہم پورے بر صغیر میں اس کا رواج ہے، جو مذہبی رہنما شادی جیسے خوشگوار واقعہ کو والدین کی صوابد ید پر چھوڑنے کے حق میں ہیں، میرے حساب سے وہ مذہب کی روح کو نہیں  سمجھتے لیکن خدا کے مقرب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اسلام کا نقطہ نظر قانون نکاح و طلاق میں بالکل واضح او ربے غبار ہے۔ جس طرح ‘اسلام’ کا مطلب امن و سلامتی ہے  اسی طرح ‘شادی’ کا مطلب خوشی و تسکین و راحت ہے۔ اسلام میں شادی کا مقصد یہ ہے کہ نفس کی تسکین ہو، دل کو راحت ملے، ضمیر کو استقرار حاصل ہو اور مرد و عورت محبت، رحم و ہمدردی ، یکسانیت وہم آہنگی ، باہمی تعاون ، آپس کی شفقت و مہربانی اور ایک دوسرے کی خیر خواہی کے ساتھ زندگی گزاریں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب دونوں فریقوں کی بلا جبر ، بلا دھونس دھمکی اور لالچ کے سو فیصد رضا مندی او رمحبت شامل ہو۔ جب اسلام میں جبر نہیں ہے تو اسلامی شادی میں جبر کیسے روا ہوسکتا ہے؟ اسلام نے عورت کو جیسے اور جتنے بھی حقوق دیے ہیں، اس میں پہلی چیز شریک حیات کے انتخاب میں اس کی پسند اور معیار کا خیال رکھنا او رنکاح کے وقت سو فیصد اس کی رضا مندی ہے، جس کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا ۔ یہاں میں عہد رسالت کا ایک واقعہ پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ ایک شخص نے اپنی بیٹی کا نکاح ایک مالدار شخص سے کردیا۔ لڑکی اس کو پسند نہیں کرتی تھی، اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے والد نے میری شادی اپنے دولت مند بھتیجے سے کردی ہے، تاکہ مجھ کو پھنسا کر اپنے عیش و عشرت کا سامان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تجھ کو یہ عقد پسند نہیں  تو تو آزاد ہے۔ تو اس لڑکی نے جواب دیا : میرے والد نے جو اقدام کیا ہے، اس کو میں بحال کرتی ہوں لیکن میں چاہتی ہوں کہ عورتوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ان کی مرضی کے خلاف والدین کو ان کے نکاح کا حق نہیں ہے۔ (مسند احمد ج 2 صد 136)

اسی طرح جبر کے خلاف ایک اور تاریخی واقعہ پیش خدمت ہے۔ دور رسالت میں چونکہ خواتین مساجد کو جایا کرتی تھیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنی بیوی حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہ کا مسجد جانا پسند نہیں تھا ، لیکن حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہ شریعت کی اس ایک رعایت کا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی، لہٰذا انہوں نے اپنا طریقہ نہ چھوڑ ا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی خلیفہ وقت ہونے کے باوجود یہ گوارا نہ کیا کہ ان کو زبردستی اس سے محروم کریں۔ (بخاری کتاب العمہ)

آخر میں والدین او رمذہبی رہنما جو جبری شادیوں (یا کوئی نام دے لیں) کے قائل ہیں، سے گزارش کروں گا کہ وہ اسلام کے قوانین کو اپنے ہاتھوں میں نہ لیں اور معاشرے کو بگاڑنے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرنے سے اجتناب کریں کہ یہی ان کے او رمعاشرے کے حق میں بہتر ہے:

اس لیے ہیں اندھیرے خفا خفا ہم سے

کہ ہم چراغ ضیا بار کرنا چاہتے ہیں

1 نومبر ، 2012   بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/shariat-wisdom-forced-marriage-/d/9161

Loading..

Loading..