New Age Islam
Sat Sep 14 2024, 07:42 PM

Urdu Section ( 21 Nov 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Or Name the Place Where There is No Terror یا وہ جگہ بتادے جہاں پر دہشت نہ ہو

 

 

 

 

اسد مفتی

21 نومبر، 2013

برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلئیر کاکہنا ہے کہ دنیا کےلئے  سب سے بڑا خطرہ ریڈیکل ( انتہا پسند) اسلام ہے دو برس قبل ٹونی بلیئر  کی خود نوشت شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے اس تاثر کو مسترد کردیا ہے کہ مغربی  ممالک  کی غیر متوازن  پالیسیاں  انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہیں ۔ اپنی خود نوشت  کی اشاعت کے موقع پر بی بی سی کو انٹر ویو دیتے ہوئے سابق برطانوی وزیر اعظم  جنہوں نے صدام حسین کے پاس نیو کلئیر ہتھیاروں  کی  بھاری کھیپ ہے کہہ کر عراق پر چڑھائی کی تھی بی بی سی کو بتایا ہے کہ انتہا پسند اپنے اسلام کو کمیونزم سے جوڑ تے ہیں وہ اپنے نظریات کو بنیاد بنا کر ہر فعل درست سمجھتے  ہیں ان کے بقول ان کیلئے تبدیلی کا لمحہ امریکہ میں گیارہ ستمبر  دو ہزار ایک کا حملہ تھا ۔ ٹونی بلئیر  نے کہا ہے کہ میرے لئے اس کا جواب بہت سادہ تھا مذہبی نظریہ کی بنیاد پر نیویارک  کی گلیوں میں ایک دن میں تین ہزار لوگ مار دیئے گئے میرے لئے اہم بات یہ تھی کہ  اگر انہیں  تیس ہزار یا تین لاکھ لوگ بھی  مارنے پڑتے تو وہ مار دیتے اسی لئے  مجھے محسوس  ہوا کہ خارجہ پالیسی  میں مکمل طور پر نظرثانی کا وقت آگیا ہے کہ ہمیں ایک نئے اور مختلف  قسم کے خطرے کا سامنا تھا ۔

اس میں کوئی شک  و شبہ کی گنجائش نہیں کہ برطانیہ کو اندرون  ملک انتہائی پر جوش  انتہا پسندوں یا شدپسندوں  کی طرف سے حملوں  کا خطرہ ہے جو نہ صرف القاعدہ  کے طریقہ  کار میں تبدیلی  اور جیلوں میں قید مسلمانوں  میں بڑھتے ہوئے انتہا پسندانہ نظریات کانتیجہ  ہے بلکہ  بے گانگی اور بر گشتگی  پر توجہ  مرکوز  کرنے والی  خارجہ پالیسی کا شاخسانہ  ہے ٹونی بلئیر  اس کےبارے میں  کہتے ہیں کہ مجھے غلط کہیں یا صحیح لیکن مجھے  یہی لگا  کہ گیارہ ستمبر کے بعد خطرے کے پیمانے  میں تبدیلی آگئی ہے اور آج بھی یہی  صورتحال ہے، میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ انتہا پسند اور ان کی شدت پسند تحریکیں اور ان کی طرف سے جوہری کیمیائی اور حیاتیاتی  ہتھیار وں سے  حملوں کا عزم ہمارے لئے سب سے بڑے خطرات  ہیں ۔ٹونی نے لکھا  ہے کہ انتہا پسند اپنے عزائم  کو پورا کرنے کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے انہوں نے عراق  اور افغانستان  میں برطانوی افواج  کی موجودگی  کا جواز اور اپنے  خلاف لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین ، چیچنیا، کشمیر ، عراق اور افغانستان میں انتہا پسند ی نا قابل  برداشت ہے حقیقت  یہ ہے کہ اگر یہ لوگ دہشت گردی کی مہم نہ چلاتے تو غیر ملکی افواج  کب کی عراق  اور افغانستان چھوڑ چکی ہوتیں اس لئے دہشت گردوں کا یہ جواز کہ وہ غیر ملکی  قبضے کے خلاف  نبرد آزما ہیں، با لکل  فضول ہے۔  انہوں نے مزید  کہا کہ ‘‘ امریکی فوجی عراق چھوڑ چکے ہیں لیکن انتہا پسند ابھی  تک بغداد  میں کار دھماکے کررہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا مقصد  عراق سے امریکی فوجیوں کو نکالنا نہیں بلکہ وہاں حکومت  کو گرانا ہے جسے عوام نے منتخب  کیا ہے ۔سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر  نے اعتراف کیا ہے کہ  وہ تا حال  یہ نہیں  سمجھ سکے کہ انتہا پسند انہ اسلامی نظریات سے مکمل طور پر چھٹکارا  کیسے پایا جائے لیکن  انہوں نے اس سلسلے میں ایک بات واضح طور پر کہی  ہے کہ ایران انتہا پسند اسلام کی سرپرستی  کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اس لئے ضروری ہے کہ کسی بھی طریقے سے اسے جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جائے ۔

ٹونی بلئیر کے خیالات کی تائید میں رائل  یونائینڈ  سروسیز انسٹی ٹیوٹ نے اپنی ایک رپورٹ  میں بھی یہی  کہا ہے کہ حالات بتاتے ہیں کہ حملوں کا ایک سلسلہ  کسی وقت  بھی شروع ہوسکتا ہے جس میں القاعدہ کے کئی حملوں  میں انفرادی کردار سامنے آئیں گے ۔ یہ حقیقت  ہے کہ برطانوی تجزیہ نگار برطانیہ پر حملوں سے متفکر ہیں ان  کے تجزیہ کے مطابق  جہاں تک  درون ملک پھیلتی  ہوئی دہشت گردی کا تعلق ہے برطانیہ کو کسی بھی  دوسرے مغربی ملک  سے زیادہ خطرہ لاحق ہے ۔ 2000ء سے اب تک برطانیہ کے خلاف 40 دہشت گردی  کی سازشیں کی گئیں جن میں سے صرف ایک کامیاب رہی اور وہ تھی جولائی  کے مہینے میں لندن میں چار پاکستانی نژاد برطانویوں نے  دھماکے کر کے 52 افراد کو ہلاک کردیا تھا ان حملوں کی سازش  کے الزام میں  230 سے زیادہ  افراد کو جیلوں  میں ڈالا گیا لیکن جیل میں قید مسلمانوں  میں انتہا پسندی کے نظریات پھیلنے سے حکومت کی تشویش  میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ آئندہ پانچ سال میں لگ بھگ  800 امکانی انتہا پسند عناصر جیل سے  رہائی کے بعد سامنے آسکتے ہیں ان میں ایک بڑا نام عالم انور اولائی کے شاگردوں  کا ہے یہ ایک نمایاں متحرک  امریکی تھا جس کا تعلق امریکہ کی سائیکیئر سٹ برادری سے ہے اس نے 2001 میں  13 فوجیوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا ۔ یہ بھی  کہا جاتا ہے کہ اولائی کے شاگرد اب انفرادی طور پر لوگوں کو دہشت گردی کیلئے تیار کررہے ہیں تاکہ وہ کھیلوں  کے بڑے بڑے ٹونامنٹس ، ہوٹلوں اور عوامی اجتماعوں کو نشانہ بناسکیں  علاوہ ازمیں دہشت گرد انفرادی طور پر اہم مقبول مشہور اور مصروف  شخصیات کو بھی نشانے پر رکھ سکتے ہیں اور یہ کہنے میں کوئی  شے مانع نہیں کہ ایسی کوششوں میں سے کوئی ایک کوشش بڑے پیمانے پرکامیاب ہو سکتی ہے  وہ چاہے مسلمان انتہا پسندوں  کے ہاتھوں ہو یا کسی اور کے، ہمیں  محتاط  اور چوکنا رہنا ہوگا کہ مسلمانوں  کی کمزوریاں غلطیاں  اور بد نصیبیاں امریکہ  کی ایجاد  کردہ نہیں وہ صرف اسے استعمال کرنے اور فائدہ اٹھانے کا قصوروار ہے ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمارا دشمن کون ہے اور یہ جاننا بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ کون دشمن نہیں ہے۔

دوسری  طرف امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ  نے اپنے شہریوں  کی ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ وہ یورپ  کے دورہ سے گریز کریں کہ یورپی  ممالک میں دہشت گردوں کے حملوں کا خطرہ ہے ۔ امریکہ کی انٹیلی جنس نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان اور شمالی افریقہ  کے بعض دہشت گردوں کی جانب  سے یورپ  پر حملہ  کیا جاسکتا ہے ۔ برطانیہ ، فرانس، جرمنی اور اٹلی ان کے خاص  نشانوں پر ہوں گے یورپ کے اخبارات  کی رپورٹوں  میں تجزیہ نگاروں  نے کہا ہے کہ یورپی شہروں میں ممبئی طرز کے حملوں کی سازش تیار کرنے والے دہشت گردوں کی نظریں ایفل  ٹاور، نوٹرڈیم کا کیتھرٹیل ، برلن کا سنٹرل اسٹیشن  نمایاں مقامات رکھتے ہیں یہ  وہ مقامات ہیں جہاں  ہر سال لاکھوں افراد ان کی سیاحت اور مشاہد ے کیلئے آتے ہیں  رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دہشت گردوں  کو پاکستان کے قبائلی  علاقوں  میں القاعدہ کے کیمپوں  میں تربیت دی جارہی ہے آپ کو یاد ہوگا ایک پاکستانی نژاد جرمن شہری  کو حراست میں لیا گیا تھا جس نے نشانوں  کی فہرست فراہم کی اس سے افغانستان کے بگرام ہوائی اڈے پر گرفتاری کے بعد مزید  پوچھ گچھ کی گئی تھی ادھر جاپان کی وزارت  خارجہ  نے بھی یورپ  کا سفر کرنے والے یا وہاں  مقیم جاپانی شہریوں کو چوکس رہنے کی ہدایت کی ہے اور انہیں متنبہ  کیا ہے کہ القاعدہ اور اس سے منسلک  تنظیموں  کی جانب سے دہشت گردی کی کالی بلی کی تاریک  کمرے میں تلاش  ہورہی ہے جو وہاں نہیں  ہے۔

21 نومبر، 2013  بشکریہ : روز نامہ صحافت، ممبئی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/or-name-place-where-there/d/34523

 

Loading..

Loading..