اسد مفتی
26 فروری، 2013
سعودی عرب میں ایک خاتون کو ڈرائیونگ پر پابندی کے قانون کے خلاف ورزی پر 10 کوڑوں کی سزا اور ایک دوسری خاتون کو کار چلانے کے الزام پر گرفتار کر لیا گیاہے۔خاتون کو جولائی میں گاڑی چلانے کے ‘‘جرم ’’ میں پکڑا گیا تھا۔سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں عدالت نے جرم ثابت ہونے پر دس کوڑوں کی سزا سنائی جب کہ ریاض ہی میں سماجی کارکن مدیحہ العجرش نامی خاتون کو ڈرائیونگ کرتے ہوئے فوراً حراست میں لے لیا گیا۔ سزا پانے والی خاتون کا کہنا ہے کہ وہ گھر سے اپنے بچے کو اسکول چھوڑنے کے لئے گئی تھی کہ پولیس نے اس دھر لیا۔ یاد رہے کہ گھر سے اسکول کا فاصلہ دس کلومیٹر کا ہے ثابت ہوا کہ سعودی خواتین کو ایک کلو میٹر ڈرائیونگ پر ایک کوڑے کا سامنا کرنا پڑےگا ۔ سعودی عرب میں عورت کار نہیں چلا سکتی لیکن ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ سکتی ہے ۔ کچھ لوگ ایسا سیر یس مذاق کرتے ہیں کہ ان کے سامنے تو نہیں ہوں مگر گھر جاکر رونا پڑتا ہے ۔ ایک دوسری خبر کے مطابق سعودی عرب میں مردوں کو چار شادیوں کی اجازت ہونے کے باوجود ملک میں غیر شادی شدہ عورتوں کی تعداد میں خوفناک اضافہ ہو گیا ہے ۔ ستر لاکھ (70 لاکھ خواتین میں سے صرف 29 لاکھ خواتین شادی شدہ ہیں جبکہ تیس (30) سال تک کی وہ خواتین جن کی عمر شادی سے گزر چکی ہے ان کی تعداد 20 لاکھ کے لگ بھگ ہے اور جو 29 لاکھ خواتین شادی شدہ ہیں ان کی اکثریت مکہ مکرمہ اور ریاض میں ہے۔
شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے سعودی خواتین کو حق رائے دہی کے علاوہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی تھی جو کہ ایک مثبت اقدام ہے ۔ شاہ سعودی عرب کے اعلان کے مطابق خواتین کو شوریٰ کونسل میں تقرر کا حق بھی حاصل ہوگا اور یہ حق اسلامی بنیاد یوں پر مبنی ہے ۔ ایک عرب ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے اپنے شہریوں کو غیر سعودی خواتین سے شادی پر پابندی کا بل منظور کر لیا ہے جس کی خلاف ورزی پر ایک لاکھ ریال جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔ سعودی مجلس شوریٰ نے یہ اقدام ان غیر سعودی خواتین کی جانب سے شہریت دیئے جانے کے مطالبات کے بعد اٹھایا ہے جن کے شوہر خود تو سعودی عرب میں مقیم ہیں لیکن ان کی منکوحہ عورتیں دوسرے ممالک میں ہیں، ان خواتین کا مطالبہ ہے کہ سعودی عرب ان کی اولاد کو بھی سعودی شہریت دے، نئے مسودے میں یہ لچک رکھی گئی ہے کہ کوئی بھی سعودی مرد و خواتین خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک میں شادی کرسکتا ہے لیکن کونسل کے باہر شادی کرنے والے سعودی (مرد عورت) کو ایک لاکھ جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ سعودی مجلس شوریٰ نے نوجوانوں کو بیرونی خواتین کے ساتھ شادی کرنے کے خلاف جو قانون وضع کیا ہے ان کا اندیشہ ہے کہ مملکت میں کئی سعودی نوجوان لڑکیاں بن بیاہی بیٹھی ہو ئی ہیں۔ ان کے علاوہ غیر ملکی خواتین و لڑکیوں کے ساتھ شادیوں کے نتیجے میں کئی سماجی مسائل پیدا ہورہے ہیں ۔ ان مسائل سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ان شادیوں پر پابندی لگائی جائے۔ انسانی حقوق کی سوسائٹی کے صدر صالح التقلان نے ایک یورپین چینل کوبتایا ہے کہ سعودی حکومت بیرون یا غیرملکی خواتین کے ساتھ شادی کے معاہدات کو ہر گز تسلیم نہیں کرتی او رنہ ہی غیرملکی بیویوں کو مملکت میں داخلے کی اجازت دیتی ہے۔ ماہر سماجیات عبدالعزیز الغریب جو الام محمد ابن سعود اسلامی یونیورٹی سے تعلق رکھتے ہیں کاکہنا ہے کہ اس طرح کی شادیوں سے سعودی عرب میں مہلک امراض جیسے ایڈز،ہیپا ٹائٹس وغیرہ کی وبائیں پھیل رہی ہیں، ایسے جوڑوں سے پیدا ہونے والے بچے بھی جان لیوا امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔
سعودی عرب میں سیاسی آزادی اور عورتوں کے حقوق کافی حد تک محدود ہیں موجودہ حکومت تعلیم اور معاشی میدان میں اصلاحات کرنے پر کافی زو ر دے رہی ہے، سعودی حکمران شاہ عبداللہ نے 2010ء میں فتویٰ جاری کرنے کے لئے حکومت کے مقررہ کردہ علمائے دین کو ہی اختیار دینے کا جو اعلان کیا تھا اس کے پس پشت در اصل ان قدامت پسند علماء کو لگا م دینے کا جذبہ کار فرما ہے جو ملک میں سماجی و سیاسی اصلاحات میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں ، شاہ عبداللہ تعلیمی وسیاسی میدان میں جو انقلابی تبدیلیاں لانا چاہ رہے ہیں اس سے او رکچھ فوائد حاصل ہوں نہ ہوں تیل ، گیس او رپٹرول کے وسائل پربوجھ کم ہوجائے گا اور جدید ٹیکنا لوجی اپنانے سے بے روزگاروں کے لئے روزگار کے وسائل دستیاب ہوں گے،شاہ عبداللہ نے 2011ء میں مملکت کے مفتی اعظم کو یہ ہدایت جاری کی تھی کہ صرف 20 ممتاز علماء دین پر مشتمل کمیٹی کے ممبران کو ہی فتویٰ دینے کا مجاز سمجھا جائے۔ ورنہ اس سے قبل قدامت پسند علماء ملک میں سماجی ، تعلیم اور سیاسی اصلاح میں رکاوٹیں ڈالتے رہتے تھے اس حکم نامے سے سعودی حکومت کو بالخصوص تعلیم کے میدان میں اصلاحات کرنے میں کافی مدد ملے گی۔ سعودی عرب میں ابھی بھی وہابی فکر کےلوگوں کا غلبہ ہے یہ طبقہ نہ صرف مذہبی امور میں بلکہ عدلیہ اور تعلیم کے میدان میں بھی مداخلت کرتا رہتا ہے او رگذشتہ تین دہائیوں سے ان علماء دین کی طرف سے دیئے گئے فتوؤں سے کافی تنازعات اٹھ کھڑے ہوئے ایسے فتوے بھی سامنے آئے جس میں ایک سٹیلائٹ چینل کے مالک کو پھانسی دینے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔جہاں ایک طرف شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے خواتین کو حق رائے دہی کے علاوہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے کا اعلان کیا۔ وہاں خواتین کو مرد حضرات کی طرح مجلس شوریٰ میں شامل ہونے کا بھی حق حاصل ہوگا یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مجلس شوریٰ کے ارکان منتخب نہیں ہوتے دوسرے تمام شعبہ بائے زندگی کی طرح ان کا تقرر عمل میں لایا جاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں نامزد کیا جاتا ہے ۔ اب سے خواتین بھی اس نامزدگی کی حقدار ہوں گی۔
ایک ایسے ملک میں جہاں مردوں کی اجارہ داری ہے اور جہاں خواتین آج بھی کار ڈرائیو نہیں کرسکتیں والدین کی اجازت کے بغیر ملازمت ، سفر یا شادی نہیں کرسکتیں وہاں انہیں ووٹ کا حق دیا جانا بظاہر سیاست یا مصلحت نظر آتا ہے شاید شاہ عبداللہ نے اس غیر متوقع اقدام کے ذریعہ مشرق وسطیٰ میں جنم لینے والی بیدار ی کا رخ ایک دوسری طرف موڑ نے کی بھر پور کوشش کی ہے ۔ ایک ایسی لڑائی کی بساط لپیٹنے کی کوشش کی ہے جو اس خطے میں لڑی جارہی ہے یا لڑی جانے کی تیاری کی جارہی ہے ۔تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس فیصلے سے نہ صرف خواتین کے لئے مزید تبدیلیوں کی راہ کھلے گی بلکہ شاہی خاندان اور علمائے کرام کے درمیان تعلقات کی نوعیت بھی دوسرا رخ اختیار کرے گی۔ شاہ عبداللہ کے اعلانات کے فوری بعد علما ء کرام اور خواتین کا رد عمل بھی سامنے آیا۔ خواتین کو مردوں کے مساوی ووٹ دینے کا حق ایک ایسا قدم ہے جس کا خواتین نے خیر مقدم کیا ہے جس قدم پر سعودی معاشرے میں مردوں کا دست نگر اور ماتحتی میں زندگی گزارنی پھرتی ہے۔ ان کے خیال میں عورتوں کے حق میں یہ تبدیلیاں ترقی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔ 2000 میں سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے جو خود کو ‘‘اصلاح پسند’’ سمجھتے ہیں ایک خاتون کو نائب وزیر بنایا تھا (جیسے آدمی دنیا میں خدا کا نائب ہے) اور انہیں عورتوں کی تعلیم کا شعبہ سونپا گیا تھا لیکن اس کا کیا کیجئے کہ سعودی عرب میں اب تک کسی عورت کو کابینہ کے درجے کا وزیر نہیں بنایا گیا کسی عورت کو کسی اور ملک (اسلامی ملک میں بھی نہیں ) میں سفیر بھی مقرر نہیں کیا گیا ۔ میرے حساب سے عرب دنیا بدل رہی ہے سارا نقشہ تبدیل ہورہا ہے اس لئے ضروری ہے کہ تبدیلی سےمتعلق عرب سرزمین کے اندر سیاسی، تعلیمی اور سماجی فکر میں بھی حقیقی تبدیلی آئے اب عرب باشندے محض ‘‘رعایا ’’ اور ہاتھ اٹھانے والے ‘‘پیروکار’’ نہیں رہے ۔ دنیائے عرب کے ہر دارالحکومت میں ایک ‘‘تحریر چوک ’’ وجود میں آرہا ہے اس لئے اب ضروری ہے کہ عرب شہریوں کے ساتھ بین الاقوامی معیار ہی کے مطابق سلوک کیا جائے نہ کہ شرعی معیار کے مطابق یہ میرے حساب سے اسلام میں علم کی شرعی اور غیر شرعی تقسیم کا کوئی سراغ نہیں ملتا ۔
26 فروری، 2013 بشکریہ : روز نامہ صحافت ، ممبئی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/clash-between-conservatism-modernism-saudi/d/10574