ارشد عالم ، نیو ایج اسلام
29 جنوری 2018
امام جمیدہ ٹیچر نے این ڈی ٹی وی (NDTV ) کو بتایا کہ "قرآن بالکل واضح ہے - مرد اور عورت کے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے۔"
یہ بات اب کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ مسلمان عورتیں نماز کی امامت کرتی ہیں۔ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ لیکن ان سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف خواتین کی جماعت کی امامت کرتی تھیں ۔ شاید ایسی کوئی مثال موجود نہیں تھی کہ جس میں انہوں نے مردوں اور عورتوں دونوں کی مخلوط جماعت کی امامت کی ہو۔ مساجد کے اندر خواتین کے نماز ادا کرنے کی حالیہ مثال احمدآباد میں سامنے آئی ہے جہاں یہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ خواتین نے ان کے لئے راہیں ہموار کر دی ہیں: بالعموم خواتین کے لئے مختص تہ خانے کے اوپر۔ ان کے لئے داخل ہونے اور نکلے کے راستے علیحدہ تھے اور خیال یہ تھا کہ خواتین کو مسلمان مرد نمازیوں کی نظروں سے دور رہنا چاہئے۔
قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جس میں خواتین کے لئے مسجد میں داخل ہونے یا مخلوط جماعت کی امامت کرنے کی ممانعت وارد ہوئی ہو۔ در اصل ، بہت سے مسلم ممالک ایسے ہیں جہاں مسلم خواتین مساجد میں داخل ہو سکتی ہیں اور وہ نماز بھی ادا کر سکتی ہیں۔ تاہم، اب بھی ان کے لئے نماز ادا کرنے کی ایک علیحدہ جگہ مختص ہوتی ہے اور مخلوط نماز جیسی کوئی شئی اب بھی ناقابل تصور ہے۔ جنوبی ایشیا میں یہ مسئلہ عام ہے، جہاں خواتین کو مسجد کے اندر نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ مساجد کی تو بات چھوڑیں انہیں تو مختلف درگاہوں میں جانے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ ذرا اس المیہ پر غور کریں: بھلے شاہ نے زیادہ تر اپنا اسلام خواتین کی ہی صحبت میں سیکھا ہے اور اب خواتین کو ہی ان کی درگاہ پر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ پاکستان میں پیر عباس کے مزار کا بھی معاملہ یہی ہے جہاں کتوں کو ان کی درگاہ پر حاضر ہونے کی اجازت نہیں ہے، تاہم جب وہ باحیات تھے تو آپ ہر وقت ایسے پالتو کتوں سے گھرے رہتے تھے۔ عورتوں اور کتوں دونوں کے بارے میں تقدس پرستی کا ایک ہی تصور ہے: ان دونوں کو آلودہ سمجھا جاتا ہے لہٰذا انہیں ان مقدس مقامات سے الگ رکھا جانا چاہئے۔
چونکہ قرآن اس کے بارے میں خاموش ہے اور صرف حدیث میں ہی مسجدوں اور مزاروں میں خواتین کے لئے علیحدہ جگہوں کی بات کی گئی ہے، اسی لئے پوری تاریخ میں ایسے پیدرانہ تعلیمات کی کتابوں پر وقتاً فوقتاً سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ اس کے خلاف سب سے پہلے علم بغاوت بلند کرنے والی خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوتی ہی تھیں۔ سکینہ نے اپنا نکاح نامہ خود تیار کیا تھا تاکہ ان کا شوہر کبھی دوسری بیوی نہ رکھ سکےجو کہ ایسا اقدام ہے جس سے ہم ایک مثالی نکاح نامہ پر اپنی موجودہ بحث کے دوران کچھ سیکھ سکتے تھے۔ صدیوں قبل سکینہ کے اس اقدام سے حوصلہ پاکر ایک مسلم خاتون نے مسلم معاشرے کے اندر مروجہ مردوں کے تسلط کو چیلنج کرنے کی کوشش کی ہے۔ کے . جمیدہ نے ملا پورم میں ایک مخلوط جماعت کی امامت کی۔ ظاہر ہے کہ ان کے اس اقدام میں ان ہی کی طرح ترقی پسند ذہنیت کے حامل مسلمان مردوں اور عورتوں دونوں نے ان کی حمایت کی ہوگی۔ لیکن پہلا قدم اٹھانا ہمیشہ جرأت کی بات ہوتی ہے اور صرف اس وجہ سے انہیں خراج تحسین پیش کیا جانا چاہئے۔ اپنے اس جرأت مندانہ اقدام کے ذریعہ انہوں نے آمینہ ودود اور اسرا نعمانی کی پیروی کی ہے جنہوں نے مغربی دنیا میں ایسی نمازوں کی امامت کی ہے۔ عبادت کا یہ سادہ عمل در اصل ایک سیاسی احتجاج ہے کیونکہ خواتین کو کسی جماعت کی امامت کرنے کے بنیادی حق سے محروم رکھا گیا ہے اگرچہ وہ جماعت میں سب سے زیادہ علم رکھنے اولی ہی کیوں نہ ہوں، انہیں صرف ان کی جنس کی وجہ سے نماز کی امامت کرنے سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ قرآن میں کہیں بھی ایسا کوئی حکم نہیں ، ان خواتین نے آگے بڑھ کر اپنا محبوب عہدہ حاصل کر لیا ہے اور وہ مانتی ہیں کہ یہ ان کی شناخت کا ایک اہم حصہ ہے۔
ہم ایسے کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے براہ کرم دوبارہ سوچیں کہ یہ مغرب سے متاثر خواتین ہیں جو کسی بھی حقیقی علم کے بغیر مغرب کی اندھی تقلید کر رہی ہیں۔ کے. جمیدہ ایک ہندوستانی خاتون ہیں اور مردوں کے تسلط کو چیلنج کرنے کی ہمت ان کے اندر اپنے معاشرے کے اندر ایک طویل جدوجہد کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ نیز اس کے پیچھے ایک نظریاتی تحریک بھی کار فرما ہے۔ کے. جمیدہ قرآن سنت سوسائٹی سے تعلق رکھتی ہیں جو چیکانور مولوی کے نظریات پر کاربند ہے جن کا 1993 میں پراسرار انداز میں قتل کر دیا گیا تھا۔ شاید چیکانور مولوی ایسے سب سے پہلے عالم تھے جنہوں نے شاہ بانو پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی حمایت کی تھی اور کہا تھا کہ اسے نان و نفقہ دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے قرآن کی راہ میں حائل ہونے والی تمام کلاسیکی کتابوں کو مسترد کر دیا اور یہاں تک کہا کہ بعض حدیثیں محمد (ﷺ) کو بدنام کرنے کے لئے گڑھی گئی ہیں۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنے نقطہ نظر کے مطابق ابو ہریرہ جیسے روایتی راویوں کی روایت کو مکمل طور پر مسترد کر دیا تھا جن کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ وہ ایسی بہت ساری باتوں کے لئے ذمہ دار ہیں جو قرآن کے مطابق غلط ہیں۔ انہوں نے قرآن کریم کی مروجہ تشریح پر سوال اٹھائے اور اس طرح انہوں نے معاشرے میں موجود بہت سے مسلمات پر سوالات کھڑے کئے۔ لہٰذا، اس میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ ایک دن وہ 'غائب' ہو گئے اور کبھی واپس نہیں آئے۔ اگر ان کے کاموں کی ترویج اور اشاعت اس وسیع و عریض پیمانے پر کی جائے کہ دوسرے لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں تو یہ اس عالم کے لئے بہت بڑی خراج تحسین ہو گی۔
ان کی وفات کے بعد ان کے پیروکاروں نے قرآن سنت سوسائٹی قائم کی اور کے. جمیدہ اس کی ایک رکن ہیں۔ لہٰذا، وہ کسی نظریاتی نگہداشت کے بغیر نہیں ہیں۔ ان کا تعلق ایک ایسے نظریہ سے ہے جس نے قدامت پرستوں کو اس بات پر برانگیختہ کیا کہ وہ چیکانور مولوی کو ان کی زندگی میں مختلف ناموں سے پکاریں۔ آج جب انہوں نے مخلوط جماعت کی امامت کر کے ایک انقلابی کارنامہ انجام دیا ہے تو قدامت پرست متحد ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک معمولی واقعہ ہے اور کیرل کی سوسائٹی پر اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔ اس طرح انہوں نے قرآن سنت سوسائٹی کو ایک ایسا فرقہ بنا دیا ہے جو دنیا کے کسی گوشے میں ہے اور جس کے ارکان محدود ہیں اور اس وجہ سے وہ بڑی سماجی مذہبی ساخت کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ تمام انبیاء اور تمام سچائیاں محدود تھیں لیکن آخر کار انہیں فتح حاصل ہوئی۔
جمیدہ اور اس کے پیروکاروں میں اضافہ ہو!
URL for English article: http://www.newageislam.com/islam,-women-and-feminism/arshad-alam,-new-age-islam/women-leading-mix-gender-prayers--smashing-patriarchal-certainties/d/114090
URL:
URL for Hindu translation: https://www.newageislam.com/hindi-section/women-leading-mixed-gender-prayers/d/114419
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism