ارشد عالم، نیو ایج اسلام
16 ستمبر 2017
کچھ مذہبی معمولات ایسے ہیں جو ہمیں ہٹ دھرم بنا دیتے ہیں ، یہاں تک کہ ہم قوت غور و فکر سے محروم ایک معاشرے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ کچھ تبصرہ نگاروں نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ایک مذہب کے طور پر اسلام ہمیں دنیا اور خود پر مسلسل غور و فکر کرتے رہنے کی دعوت دیتا ہے ، جبکہ کبھی کبھی ہمارا عمل اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔
مسلمانوں کے درمیان مردوں کے حتنہ کا معاملہ اس کی ایک مثال ہے۔ کیوں کر یہ غیر معقول عمل اب تک مسلم معاشرے میں مروج ہے اور اس کی ضرورت پر کوئی گفتگو بھی نہیں کی جاتی؟ اب خواتین کے ختنہ پر پابندی کے بارے میں کچھ باتیں کی جا رہی ہیں جو کہ افریقہ کے مسلم معاشرے اور دنیا بھر میں بوہرا میں مروج ہے۔ اور یہ ایک اچھی پیش رفت ہے کہ کچھ خواتین نے اس طرح کے خوفناک عمل کے خلاف اپنی آوازوں کو بلند کرنا شروع کردیا ہے جسے بجا طور پر عورتوں کا مثلہ قرار دیا گیا ہے۔ لیکن جب مسلم لڑکوں کے مثلہ کی بات آتی ہے تواس سلسلے میں اب بھی لوگوں کے درمیان حیرت انگیز خاموشی کا منظر ہے۔ اس لئے کہ آخر کار باہری جلد کا کاٹنا عضو خاص کے مثلہ کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ یہ پریشانی اور بھی بدتر اس لئے ہو رہی ہے کہ اکثر معاملات میں یہ مثلہ ایسے لڑکوں کا کیا جاتا ہے جن کی عمر بہت کم ہوتی ہے اور وہ اس معاملے میں اپنی رضامندی ظاہر کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ مذہبی روایت کے نام آج ایک متوسط مسلم خاندان اپنے بچے کے لئے پوری زندگی خوف و ہراس کے مجرم یا ذمہ دار بن سکتے ہیں۔
آج اس روایت کا جس کی ایک مذہبی بنیاد ہے سائنس اور حفظان صحت کے نام پر جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ اگر آپ کسی بھی تعلیم یافتہ مسلم سے دریافت کریں وہ آپ کو ختنہ کے طبی فوائد بتائے گا بشمول اس 'حقیقت' کے کہ یہ ایچ آئی وی - ایڈز کو روکتا ہے۔ وہ آپ کو یہ بھی بتائیں گے کہ حفظان صحت کے پیش نظر ختنہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس میں کچھ بھی منطقی اور یہاں تک کہ معقول بھی نہیں ہے۔ اگر ختنہ کا سبب ذاتی حفظان صحت ہے تو اس کا آسان طریقہ پاک صاف رہنا ہے نہ کہ انسانی جسم کے ایک حصے کو کاٹنا۔
انسانی جسم کے ایسے دوسرے حصے بھی ہیں جنہیں پاک رکھنے کی ضرورت ہے اور ہم انہیں پاک رکھتے بھی ہیں۔ ہم اسے کاٹ نہیں دیتے! لہذا ایسا کیوں ہے کہ جب ایک عضو خاص کی باہری جلد کی بات آتی ہے تو ہم اسے صاف رکھنے کے بجائے اسے کاٹنے کے پابند ہوتے ہیں۔ ختنہ کے طبی فوائد اور خاص طور پر منتقل ہونے والی جنسی بیماریوں کے معاملے میں اب بھی اختلاف ہے اور اس پر کوئی حتمی رائے نہیں ہے۔ افریقہ میں اقوام متحدہ کی جانب سے کئے جانے والے ایک مطالعہ میں ختنہ شدہ افراد کے اندر (sexually transmitted disease) یعنی منتقل ہونے والی جنسی بیماریوں کے خطرات کم پائے گئے تھے لیکن اس کے بعد یہ پایا گیا کہ اس تجربہ میں شامل لوگوں کے اندر پہلے سے ہی منتقل ہونے والی جنسی بیماریوں کے امکانات کم تھے جس کی وجہ سے اس تجربہ کے پیچھے کار فرما مکمل طریقہ کار پر سوال اٹھایا گیا۔ اس کے علاوہ، اقوام متحدہ کا یہ مطالعہ خاص طور پر بالغ افراد کے ختنہ سے متعلق تھا۔
لیکن یہاں ہم بچوں کے ختنہ کی بات کر رہے ہیں جہاں (sexually transmitted disease) یعنی منتقل ہونے والی جنسی بیماریوں کا خطرہ تقریبا معدوم ہے۔ لہذا یہ کہنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ غیر ختنہ شدہ کے مقابلے میں ختنہ شدہ لڑکے اور مرد صحت اور حفظان صحت کے لحاظ سے بہتر ہیں۔ دراصل ختنہ کو طبی فوائد کے ساتھ منسوب کرنے کا مقصد اسے 19 ویں صدی کے دوران اینگلو سیکسن کی دنیا میں مقبول کرنا ہے۔ ایک انتہائی مختلف دنیا میں شروع کئے گئے اور مختلف اخلاقیات پر کاربند، دنیا کے اس حصے میں اس وقت کی طبی سائنس نے نوجوان مردوں کے اندر 'نقصان دہ' مشت زنی کو بے شمار مسائل کے ساتھ منسلک کیا۔
ابتدائی طور پر ختنہ کو مشت زنی کے لئے ایک سد باب کے طور پر متعارف کیا گیا تھا اس لئے کہ ڈاکٹروں کا یہ خیال تھا کہ اس میں درد اتنا شدید ہو گا کہ دماغ اس غلط حرکت میں ملوث ہونے سے مانع ہوگا۔ یہی وہ وکٹوریائی اخلاقیات تھی جس کی بنیاد پر برطانیہ اور امریکہ دونوں میں مرد کے ختنہ کو رواج بخشا گیا۔ اس کے بہت بعد میں طبی فوائد اور حفظان صحت کے مسائل کو بھی اس کے ساتھ منسلک کیا گیا ، جس کا مقصد واضح طور پر اس عمل کی توثیق کرنا تھا جس کا آغاز مکمل طور پر غیر طبی وجوہات کی بنیاد پر ہوا تھا۔ لیکن چونکہ گورے اس پر عمل پیرا تھے، دنیا بھر میں مسلمانوں نے ان کی اپنی روایت کو درست ٹھہرانے اور اسلام کی برتری کا دعویٰ کرنے کے لئے ختنہ کے طبی فوائد کی تائید شروع کر دی۔
سائنسی تاویلات کے علاوہ در حقیقت یہ روایت بنیادی طور پر مذہبی ہے۔ یہودیت میں لوگوں کو اس عہد کے ذریعے اس کا مکلف بنایا گیا تھا جو ابراہیم نے خدا کے ساتھ کیا تھا ، یہ ان کے مذہب کا ایک بنیادی عمل ہے۔ تاہم، یہ دعوی کرنے کے لئے کچھ شواہد موجود ہیں کہ یہوویوں نے اس عمل کو مصریوں سے نقل کیا جن کے درمیان یہ عمل اعلی سماجی حیثیت کی علامت کے طور پر موجود تھا۔ اور اس کے باوجود ہم یہ پاتے ہیں کہ مختلف ثقافتوں میں وسیع پیمانے پر اس پر عمل کیا گیا ہے۔ آسٹریلیا کے قدیم باشندوں سے لیکر افریقہ کی بہت سی ثقافتوں تک میں ہمیں اس معمول پر عمل کا ثبوت ملتا ہے۔ یہ امر سمجھ سے باہر ہے کہ مختلف مقامات اور مختلف اوقات میں مختلف معبودوں نے مردوں اور خدا کے درمیان عہد کی نشاندہی کے طور پر مردوں سے ان کے ایک عضو خاص کی اسی قربانی کا مطالبہ کیا ہو گا۔ لہٰذا، اس عمل کی ابتدا ضرور انتہائی گہری انسانی وجہ ہوگی لیکن یہ کسی اور وقت کے لئے ایک دیگر عنوان گفتگو ہے۔
تاہم، قرآن مجید مسلمانوں کو اس عمل کو انجام دینے کا حکم نہیں دیتا لیکن اس کے باوجود اگر آپ ختنہ شدہ نہیں ہیں تو آپ کو یہ دعوی کرنے میں دشواری ہوگی کہ آپ مسلمان ہیں۔ اسے سنت سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے باجود اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےبھی ختنہ کیا تھا۔ ایک شاندار حدیث یہ ہے کہ آپ ﷺ ختنہ شدہ پیدا ہوئے تھے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کہا جائے کہ آپ ﷺ کا ختنہ کیا گیا تھا۔ مختصر یہ کہ مسلمانوں کے درمیان اب بھی اس عمل کو جاری رکھنے کا کوئی مذہبی جواز نہیں ہے۔ اگر خدا کا یہ فرمان ہے کہ اس نے انسان کو کامل پیدا کیا ہے اور یہ کہ جسمانی سالمیت کو کسی کی موت کے بعد نقصان نہ پہنچایا جائے تو پھر مسلمان کیوں خدا کی منصوبہ بندی میں ترمیم کرنے پر کمر بستہ ہیں؟ کیا یہ اس کی مشیت کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہے کہ انسانی جسم کے ایک حصے کو کاٹ دیا جائے جو کہ خدا کے اصل نقش و نگار کا ایک حصہ ہے؟
اس امر کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے کہ اب کچھ خواتین جماعتوں نے خواتین کے ختنہ کے خلاف آواز بلند کیا ہے، لیکن اب ہم مردوں کو بھی اپنے ختنہ کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی چاہئے۔ جسم کٹ جانے کے بعد جس درد کا احساس ہوتا ہے شاید وہ مرد و عورت دونوں میں یکساں ہے۔ لہذا ختنہ اور درد کے بارے میں یہ خاموشی کیوں جو مردوں کے جسم کو پہنچتا ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ مانتے ہیں کہ مردوں کو مستقبل کی مردانگی کی علامت کے طور پر اس درد سے گزرنا ہی ہوگا؟
URL for English article: https://newageislam.com/the-war-within-islam/mindless-ritual-male-circumcision-be/d/112550
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism