ارشد عالم ، نیو ایج اسلام
18 جولائی 2018
چند دنوں قبل جے این یو میں اسلامی دہشت گردی پر ایک کورس شامل نصاب کئے جانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ سوسائٹی کے مختلف طبقوں نےاس اقدام کی سخت تنقید کی اور یہ کہا کہ اس قسم کے کورس کی ضرورت ہی کیوں ہے۔ علمی حلقوں میں یہ بات کی گئی کہ یہ کورس مزید جامع ہونا چاہئےجس میں نہ صرف اسلام کے اندر بلکہ مختلف مذاہب میں دہشت گردی کے استعمال پر تعلیم دی جائے۔ اب اس تاریخی حقیقت میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا ہے کہ مختلف مذاہب نے کسی نہ کسی طرح دہشت گردی کا استعمال کیا ہے۔ لیکن اس کے لئے صرف اسلام کو مخصوص کئے جانے سے اس خیال کو تقویت ملی ہے کہ یہ کورس نظریاتی طور پر تعصب کا شکار ہے۔
دوسری طرف جبکہ اسلام کے نام پر موجودہ دور میں دہشت گردی کے بے شمار واقعات انجام دئے جا رہے ہیں ، اس رجحان پر خصوصی توجہ دینے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اور تعلیمی اداروں سے بہتر اس کا طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ اور یہ بھی ذہن میں رکھا جانا چاہئے کہ اس کورس میں تمام مذاہب کو شامل کرنے سے یہ کورس خلط ملط کا شکار ہو جائے گا۔ اگر کسی کی دلچسپی اس چیز میں ہے جو اسلام اور دہشت گردی کے درمیان ایک رابطہ ہےتو پھر ساری توجہ اسی رابطے پر ہی ہونی چاہئے۔
اس کے علاوہ، اس معاملے میں ایک بہترین لبرل موقف یہ ہو گا کہ اس طرح کے علمی معاملات کو متعلقہ یونیورسٹی یا اساتذہ کے ہی ہاتھوں میں چھوڑ دیا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان میں لبرل طبقہ یہ مانتا ہے کہ اساتذہ اور تعلیمی اداروں کی آزادی اور خودمختاری کو اہمیت دی جانی چاہئے جب وہ اقتدار میں ہوں ، جبکہ دوسروں کو اس آزادی سے محروم رکھا جانا چاہئے۔
ایک اور مسئلہ خود لفظ اسلامی ہی ہے۔ ناقدین نے فوراً یہ دلیل پیش کی کہ کوئی بھی مذہب تشدد کی اجازت نہیں دیتا لہٰذا، دہشت گردی پر ایک کورس کے لئے لفظ 'اسلامی' کا استعمال بہت بڑی زیادتی ہے۔ جب ہم عیسائی دہشت گردی یا ہندو دہشت گردی جیسے الفاظ کا استعمال نہیں کرتے ہیں تو اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح کیوں استعمال کی جائے۔
یہ بات تاریخی طور پر غلط ہے۔ عیسائیوں، مسلمانوں اور ہندوؤں نے اپنی تاریخ کے کسی نہ کسی دور میں اپنے مذہبی جذبات کی بنیاد پر تشدد کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ہم صلیبی جنگوں اور بدھ مت کے پیروکاروں پر کئے گئے ظلم و ستم اور ان کی قتل و غارت گری کو کیا سمجھتے ہیں؟ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ مذاہب نے دہشت گردی کا استعمال کیا ہے؛ بلکہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس بارے میں کوئی اتفاق رائے نہیں ہے کہ دہشت گردی کی تعریف کس طرح کی جائے۔
مثال کے طور پر تیسری دنیا کے ممالک کی آزادی کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے کہ جس میں ہمارے بڑے بڑے مجاہدین آزادی نے اپنی منزل حاصل کرنے کے لئے موزوں اور قابل قدر ذرائع کے طور پر دہشت گردی اور تشدد کا استعمال کیا ہے۔ لیکن اس طرح کی دہشت گردی سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ متعدد ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں حکومتوں نے اپنے ہی باشندوں پر دہشت گردی کا استعمال کیا ہے لیکن چونکہ تشدد پر حکومت کی اجارہ داری ہے اسی لئے ہم اسے دہشت گردی نہیں سمجھتے۔ لہذا دہشت گردی ایک ایسا لفظ ہے جس کی تعریف کرنا یا جس کا کوئی پیمانہ مقرر کرنا ایک مشکل ترین امر ہے کیونکہ کسی کا دہشت گرد کسی دوسرے کا شہید بھی ہو سکتا ہے۔
تاہم، اس کی وجہ سے ہمیں مذہبی دہشت گردی کے بنیادی سوال سے بھٹکنا نہیں چاہئے ۔ اگر دہشت گردی کے ایسے واقعات انجام دئے جاتے ہیں جن میں مذہب ایک بنیادی محرک ہے تو پھر ہم دہشت گردوں کے مذہب کا نام لینے میں شرمندہ کیوں ہوں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر کوئی اسلام کے نام پر اس طرح کے حملوں کو انجام دے رہا ہے تو پھر ہم یہ کہنے والے کون ہوتے ہیں کہ وہ حقیقی مسلمان نہیں ہیں؟
متفرق مسلم گروہوں نے اس مجوزہ کورس کی مخالفت صرف اس لئے کہ کیونکہ اس سے اسلام کا نام خراب ہوگا۔ انہوں نے صاف طور پر یہ کہا کہ اسلام کا مطلب امن ہے اور اس مذہب میں تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ بالکل بے بنیاد بات ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آج کل یہ جھوٹا دعویٰ کرنا ایک فیشن بن چکا ہے کہ اسلام ایک امن کا مذہب ہے۔ کوئی مذہب مکمل طور پر پر امن یا پرتشدد نہیں ہوتا۔ خاص طور پر مذہب اسلام کی تاریخ اس کے روز اول سے ہی تشدد سے بھری ہوئی ہے۔ اس سے برا اور کیا ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے نبی کی وفات کے بعد ہی سیاسی اقتدار کے لئے ایک دوسرے سے لڑنا شروع کردیا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمان خود اپنی تاریخ سے بے خبر ہیں۔ بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے: وہ اپنی پرتشدد ماضی کی تاریخ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ اب یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اسلام ایک امن کا مذہب ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ اسلام کا معنی تسلیم و رضا ہونا چاہئے اور مسلم جو تسلم و رضا بجا لائے۔ مسلمانوں کو اپنے ماضی سے انکار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے: تمام مذاہب کی تاریخ میں کہیں نہ کہیں تشدد ضرور پایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو اپنی اس پریشان کن تاریخ قبول کر لینا چاہئے اور یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ یہ دوبارہ نہ دہرائی جائے۔ صرف یہ کہہ دینے سے اسلام امن کا مذہب نہیں بن جائے گا کہ اسلام ایک پر امن مذہب ہے؛ اگر مسلمان اسلام کو ایک پرامن مذہب کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں تو مسلمانوں کو ایک متبادل تشریحی روایت کی تعمیر کرنی ہوگی۔
اس پس منظر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء یونین اور دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین نے اس مخصوص کورس کو تبدیل کرنے کے لئے جے این یو کو خط لکھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اس سلسلے میں کچھ سخت سوالات کے جواب دینے کی ضرورت ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کسی دوسری یونیورسٹی کے معاملات میں دلچسپی کیوں لے رہی ہے؟ کیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء یونین کو اپنی ہی یونیورسٹی کے طلباء کی ضروریات اور مفادات کا خیال نہیں رکھنا چاہئے؟ ہم یہ مانتے ہیں کہ ان کے پاس سیاسی تنقید کا حق ہے لیکن ہمیں یہ بھی بتایا جائے کہ وہ اپنے کیمپس کے موجودہ حالت پر تنقید کرنا کب شروع کریں گے؟ اگر وہ جے این یو سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ 'ان کے' جذبات کا احترام کیا جائے ، تو کیا اب وقت نہیں آیا ہے کہ خود علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنے ہی مختلف اور متنوع طالب علموں کی حساسیت کا اسی طرح خیال رکھے۔
کیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندومت پر کوئی کورس شروع کرے گی؟ اسی طرح، ایک تعلیمی کورس کے مواد پر ایک یونیورسٹی سے وضاحت طلب کرنا اقلیتی کمیشن کا کام نہیں ہونا چاہئے۔ مسلمانوں کو اس ملک میں بہت سے سنگین مسائل کا سامنا ہے اور یہ بہتر ہوگا اگر کمیشن ہر روز مسلمانوں کو درپیش ذلت و رسوائی پر دھیان دے۔ تعلیمی معاملات کو متعلقہ یونیورسٹی پر ہی چھوڑ دینا ٹھیک ہے۔
ایک زبردست ہنگامہ اور شور و غوغہ کے بعد جے این یو نے اس کورس کو ترک کرنے کا فیصلہ لیا اور یہاں تک کہ یونیورسٹی نے اس بات سے انکار بھی کر دیا کہ ایسا کوئی کورس متعارف کرانے کا ان کا کوئی منصوبہ بھی تھا۔ تاہم، اب یہ بات سامنے آرہی ہے کہ وہ اب 'اسلامی' دہشت گردی کے عنوان کو 'اسلام پسند' دہشت گردی سے تبدیل کر کے ایک اسے تحقیقی موضوع کے طور پر متعارف کرانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ لیکن یہ تحقیقی موضوع بھی تنازعات میں گھر چکا ہے۔ مسلم ناقدین نے اس تحقیقی موضوع کے پس پشت یونیورسٹی کے 'مذموم' مقاصد کو اجاگر کرنے میں کوئی تاخیر نہیں برتی۔ اگر ہم یہ تسلیم کر بھی لیں کہ اس ملک میں سیاسی مباحثے کے پیش نظر 'اسلامی' دہشت گردی کا استعمال مسلمانوں کے لئے پریشان کن ہو سکتا ہے ، لیکن یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ 'اسلام پسند دہشت گردی' کا لفظ بھی مسلمانوں کے لئے کیوں کر پریشان کن ہو سکتا ہے۔
ہمیں اسلامی اور اسلام پسند کے درمیان فرق کرنے کی ضرورت ہے: اس لئے کہ آخر الذکر اقتدار حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے صرف اسلام کا سیاسی استعمال کرتے ہیں جس میں تشدد بہت سے راستوں میں سے ایک راستہ ہے۔ کیا یہ پوری دنیا کے اسلام پسندوں کا ایک حتمی مقصد نہیں ہے اور کیا انہوں نے اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایک طریقہ کار کے طور پر دہشت گردی کا استعمال نہیں کیا ہے؟ کیا داعش اور طالبان کو اسلام پسند دہشت گردی کے علاوہ اور کسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے؟ دنیا بھر میں یہاں تک کہ مسلم اہل علم کے درمیان بھی اب یہ بات مسلم ہو چکی ہے کہ اسلام پسندی کا سد باب کرنے کی ضرورت ہے۔
تو کسی ایسے کورس یا تحقیقی موضوع میں کیا پریشانی ہے جس کا مقصد اس رجحان کے مختلف پہلوؤں کو جاننا اور ان پر تحقیق کرنا ہے اور ہندوستانی مسلمانوں کو اس کی مخافت کیوں کرنی چاہئے؟ اس کی صرف ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے اور وہ اسلام اور اسلام پسندی کے درمیان فرق کا واضح نہ کر پانا ہے۔ مزید برآں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غیر خوشامدانہ انداز میں لفظ اسلام یا اس سے متعلق کسی بھی لفظ کے استعمال میں ہندوستانی مسلمانوں کو پریشانی ہے۔
یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور جتنی جلد مسلمان اس کا کوئی حل نکال لیں یہ ان کے لئے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ انہیں اسلام کی کسی بھی موجودہ تنقید پر کھل کر بحث و تمحیص کرنے کے لئے ہمہ تن تیار رہنا چاہئے۔ اس خود احتسابی کے بغیر یہ سمجھنا بڑا مشکل ہے کہ ہم بحیثیت ہندوستانی مسلمان کس طرح ہمارے ارد گرد کی دنیا کے ساتھ ہم آہنگی قائم کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ اگر ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ کسی دوسرے مذہب کی طرح اسلام بھی دہشت گردی کا سبب بن سکتا ہے تو ہمارے اندر ایک ایسا خیالی نقطہ نظر پروان چڑھے گا کہ جس میں مسلمان مظلوم نظر آئیں گے اور 11/9 جیسے دہشت گردانہ واقعات صیہونیوں کی سازش معلوم ہوں گے۔
URL for English article: https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/academic-course-islamist-terror-rile/d/115867
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/academic-course-islamist-terror-rile/d/115959
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism