New Age Islam
Tue Dec 03 2024, 10:42 AM

Urdu Section ( 6 Aug 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Why Banning The Movie ‘Muhammad - Messenger of God’ is Nonsensical آخر کیوں فلم ‘میسنجر آف گاڈ’ پر پابندی کرنا غیر معقول ہے

ارشد عالم ، نیو ایج اسلام

28جولائی،2020

لیجیے بنیاد پرست مسلموں نے پھر  ایسا ہی کر ڈالا ۔ ایرانی ہدایتکار ماجد مجیدی کی ہدایت کاری میں بنی  فلم: ‘‘محمد: میسنجر آف گاڈ’’ کی ریلیز  کو روکنے کے لئے انہوں نے مہاراشٹرا حکومت پر زور دے کر فیصلہ کن فتح حاصل کر لیا  ہے۔ یہ فلم میں مجوزہ ٹریلوجی  کا پہلا حصہ ہے جس میں محمد ﷺ کے  بچپن سے لے کر آخری ایام  تک کی زندگی کو دکھایا گیا ہے۔ پہلا حصہ خاص طور پر اس وقت کے معاشرتی تناظر پر مرکوز ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادت ہوئی، بچپن میں آپ کا اپنی والدہ ماجدہ آمنہ اور اماں حلیمہ (رضی اللہ عنہما  ۔م) سے رشتہ، محبت ، اعتماد اور دیکھ بھال جو انہیں  اپنے قبیلے بنی ہاشم ، بالخصوص آپ کے دادا  عبد المطلب اور بعد میں آپ کے چچا ابوطالب کی طرف سے حاصل ہوا۔

یہ فلم 21 جولائی کو مہاراشٹر کے ایک آن لائن میڈیا پلیٹ فارم پر ریلیز ہونی تھی۔ لیکن اس سے پہلے ہی، ممبئی میں رضا اکیڈمی کی سربراہی میں مسلمانوں کے ایک گروپ نے مہاراشٹرا حکومت سے کامیابی کے ساتھ مووی کی ریلیز پر پابندی عائد کرنے کی درخواست کی۔ صرف اتنا ہی نہیں، مہاراشٹرا کے وزیر داخلہ، انیل دیشمکھ نے مرکزی حکومت کو یہ لکھنے کے لئے لکھا کہ فلم کی قومی سطح پر ہر طرح کی اسٹریمنگ اور دیگر پلیٹ فارمز پر پابندی عائد ہے کیونکہ اس سے 'مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو نقصان پہنچے گا، اور یہ ملک میں مذہبی تناو  کا سبب بن سکتا ہے۔  اب  دیکھنا یہ ہے کہ  کہ یونین حکومت اس معاملے پر کیا فیصلہ لیتی ہے، لیکن اس دوران ، رضا اکیڈمی نے یقینی طور پر ان تمام مسلمانوں یا دوسروں پر  فتح حاصل کر لی  ہے، جو فلم دیکھنے کے خواہاں رہے ہوں گے۔

رضا اکیڈمی بھارت میں بہت ساری بریلوی تنظیموں میں سے ایک ہے۔ اکیڈمی نے سلمان رشدی ، تسلیمہ نسرین اور یہاں تک کہ اے آر رحمان کے خلاف بھی مظاہروں کا انعقاد کیا تھا، یہ سب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ‘تکلیف پہنچانے ’ کے نام پر ہوا تھا ۔ اس کا ان لوگوں پر کچھ اثر ہونا چاہئے جو یہ  استدلال کرتے ہیں کہ بریلوی ایک موروثی روادار گروہ ہے جس کو اعتدال پسند اسلام کے فروغ کے لئے کاشت کیا جانا چاہئے۔ بریلوی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو ایک مثالی بشر سے بھی اعلی سمجھتے  ہیں۔ انھوں نے مستقل طور پر استدلال کیا ہے کہ نبی (علیہ السلام) میں ایسی خصوصیات ہیں جو مقدس ہونے کا درجہ رکھتی ہیں۔ بریلوی تھیولوجی  کے مطابق نبی کا سایہ بھی نہیں تھا کیوں کہ وہ نور سے بنے تھے،  اور یہ کہ وہ پوری دنیا کو اپنی ہاتھ کی ہتھیلی میں دیکھ سکتے تھے ، اس طرح وہ پوری دنیا ایک مقام پر رہتے ہوئے دیکھ سکتے تھے۔

بریلوی جماعت باب نبوت میں ایسا عقیدہ رکھتے ہیں جس کی ترقی  لازمی طور پر دیوبند جیسے ان گروہوں کے خلاف رہی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایسی غیر معمولی طاقتوں میں تخفیف کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ پیغمبر  علیہ السلام کے تعلق سے اس سطح کی معرفت  رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ بریلوی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی شخصیت پر کسی بھی طرح کا تنازع ہو تو سب سے آگے رہیں گے۔ لہذا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ بریڈ فورڈ میں بریلوی تنظیم کی جانب سے ‘‘ سیٹانک ورسز ’’ پر پابندی کا مطالبہ سب سے پہلے کیا گیا تھا۔

تاہم رضا اکیڈمی یقینی طور پر ہندوستان میں بریلوی فکر کی مکمل  طور پر  نمائندگی نہیں کرتی ہے۔ مزید بر آں  کہ بریلوی مکتب فکر میں  بہت ساری  صوفی تنظیمیں موجود ہیں جنھوں نے متعدد مواقع پر رضا اکیڈمی کی سیاست کرنے اور انتہا پسندی میں ملوث رہنے کی وجہ سے اس کی مذمت کر چکے ہیں۔ موقف کو خارج کر چکے ہیں ۔ مہاراشٹر حکومت نے فلم کی پابندی کے لئے اکیڈمی کی درخواست کو جس رفتار سے قبول کیا اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاست مسلمانوں کو بطور قدامت پسند اور انتہا پسند  پیش کرنے میں سرمایہ کاری کرتی ہے۔

مسلمانوں کو اپنے مفاد کی خاطر  رضا اکیڈمی کے اس مطالبے کی مخالفت کرنی چاہیے ۔ بہرحال، ایک اقلیت ہونے کے ناطے، ان پر پابندی عائد کرنے کے بجائے جمہوری حقوق اور آزادانہ تقریر کو آگے بڑھانا چاہئے۔ اپنی خفیہ سیاست کے ذریعے، وہ ہندووں کی رائٹ ونگ  سیاسی گفتگو کو گویا یہ جواز فراہم کرتے ہیں کہ ان کی سیاست کا کوئی بھی تنقید ہندو مذہب پر تنقید کرنے کے مترادف ہے۔ اگر معاملات اسی طرح چلتے رہیں تو  بہت جلد  ہندو اور مسلم فرقہ واریت اس ملک میں شاید ہی کوئی اعتدال پسند لبرل کے لیے  خلا چھوڑے۔

تاہم مذہبی نقطہ نظر سے بھی اس فلم پر پابندی کا مطالبہ غیر معقول ہے ، اور اس کے کئی  غیر وجوہات ہیں۔ زیر غور  فلم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کی زندگی کو دکھایا گیا ہے۔ اس میں مذہبی اتفاق رائے ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے چالیس سال کی عمر میں نبوت کا اعلان کیا تھا ۔ اگر استدلال یہ ہے کہ نبی علیہ السلام  کو تصویروں میں پیش نہیں کیا جانا چاہئے ، تو یقینا اس اصول کا اطلاق آپ کے نبوت ملنے سے قبل نہیں  کیا جانا چاہئے۔

 محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنی تصویر کشی میں بعض اوقات تصویر میں چہرے پر نقاب ڈال کر یا  روشنی ڈال کر  پیش کیا جاتا ہے  ۔ فلم  کے اندر  محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کا  چہرہ نہیں دکھایا گیا ہے اور اسی وجہ سے یہ سنی مکتب فکر کے اصول  پر بھی عمل پیرا ہے۔ لہذا رضا اکیڈمی کا اعتراض سیاسی طور پر یا مذہبی اصولوں کے لحاظ سے بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔

مسلم معاشرے میں پیغمبر اسلام کی نمائندگی کرنا ہمیشہ ممنوع نہیں رہا ہے۔ ہمیں یقینا  15 ویں صدی تک اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ آپ کے اسکیچیز  پوری  اسلامی دنیا میں استعمال کیے جاتے تھے ، بعض اوقات تو مذہبی رسومات پر بھی توجہ میں معاون و مددگار کے طور پر ان اسکیچیز کا استعمال کیا جاتا تھا  ۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ عمل بڑے پیمانہ پر  تھا۔ یہ صرف منتخب مذہبی اور سیاسی حلقوں میں استعمال ہوتا تھا۔ شیعہ بلاشبہ مختلف طریقوں سے پیغمبر کی نمائندگی پیش کرتے رہے ہیں جن میں تصاویر بھی شامل ہیں اور یقینا یہ ان کی اسلام کی ترجمانی میں حرج نہیں ہے۔

مگر سنی دنیا میں نبی علیہ السلام  کی جو بھی چھوٹی سی تصویر کشی کی جاتی تھی وہ  آہستہ آہستہ ایک مقام پر ختم ہوگئی حتی کہ  لوگ بھول گئے کہ اس طرح کا عمل بھی کبھی موجود تھا۔ یہ سنی مکتب فکر ہی ہے جس  نے  نبی علیہ السلام کی کسی طرح کی بھی تصویر کشی کو شیعہ مذہب سے جوڑ ا  ہوا ہے ۔ یہ عجیب مسئلہ ہے ۔رضا اکیڈمی کی مخالفت کی ایک  وجہ یہ ہے کہ مذکورہ فلم کے ہدایتکار شیعہ ہیں۔

صوفیاء سمیت مسلم مذہبی ماہرین نے ہمیشہ یہ استدلال کیا ہے کہ اگرچہ طبقہ اشرافیہ کے لئے کچھ چیزیں  جائز ہوسکتی ہیں ، لیکن عوام کو ان کے لیے اجازت نہیں دی جاسکتی۔ توحید کے نظریہ  کو ٹھیک اسی طرح سمجھنے کے لیے جس طرح اسلام مطالبہ کرتا ہے  مسلم عوام کی صلاحیت میں یہ شک ہمیشہ رہا ہے ۔ چنانچہ بعض اوقات  نبی کریم علیہ السلام  کی تصویر کشی کو برداشت  کیا گیا اور بعض اوقات مسلم اشرافیہ میں بھی اجازت دی گئی، لیکن  عوام کے لئے یہ عمل مکمل طور پر ممنوع تھا۔ امیجوں کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ان کے اندر  توحید کے بنیادی اصول کو خراب کرنے اور انھیں شرک میں دوبارہ مل جانے کی طرف راغب کرنے کی صلاحیت ہے۔

عوام کا یہ خوف بالکل بے بنیاد ہے۔ متعدد صدیوں کے بعد بھی مسلم عوام نے  اسلام کا مختلف طریقوں سے  تجربہ کرنے کے باوجود، توحید کی عمدہ  تفہیم پیش  کی ہے اور وہ اپنے مذہب پر قائم ہیں۔چلتی پھرتی تصویر والے زمانے میں بھی رہتے ہوئے مسلمان اسلام پر عمل پیرا ہیں۔اگر بولیووڈ  اور ہالیووڈ کی مشترکہ طاقت مسلمانوں کو گمراہ کرنے   میں کامیاب نہ ہو سکی تو نبی علیہ السلام کی حیات پر مبنی بنی فلم ان کے ایمان وعقیدے کو کیونکر کمزور کر سکتی ہے ؟

یہ یقین کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی تصویرکشی  کا استعمال کسی بھی طرح سے مسلمانوں کے اعتقاد کو کم کردے گا۔ اس کے برعکس یہ ایک تعلیم یافتہ تجربہ ہوسکتا ہے جس میں  ان کی زندگی اور ان اوقات کے بارے میں جانا جا سکتا ہے جن میں ان کا مذہب ظہور پذیر  ہوا تھا اور یہ بھی کہ پیغمبر علیہ السلام نے اپنے لوگوں کو اسلام لانے کے لئے کس طرح معاشرتی چیلنجوں کو نیویگیٹ کیا تھا۔ جیسا کہ یہ ظاہر ہے کہ  مسلمان خاص طور پر سنی مکتب فکر کے مسلمان اپنے مذہب کی تاریخ کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ فلم شاید اس سلسلے میں ان کے لیے  کچھ اچھا کر سکتی ہے۔ اس طرح سنی مسلمانوں کے مفاد میں ہے کہ وہ رضا اکیڈمی کی مذمت کریں اور فلم کی ریلیز کا مطالبہ کریں۔

ارشد عالم نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگار ہیں۔

URL for English Translation: https://newageislam.com/islamic-culture/banning-movie-‘muhammad-messenger-god’/d/122484

URL for Urdu Translation: https://www.newageislam.com/urdu-section/banning-movie-muhammad-messenger-god/d/122554


New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism


Loading..

Loading..