ارشد عالم، نیو ایج اسلام
16 مئی 2016
سعودی کار دہندگان کے جبر و تشدد کی وجہ سے حیدرآبادکی ایک 25 سالہ مسلمان خاتون کی حالیہ موت کوئی حیرت انگیز واقعہ نہیں ہونا چاہئے۔تشدد سعودی عرب کے ساتھ خاص ہے، اور اسلام کے بارے میں ان کی رجعت پسندانہ اور انوکھی تشریحات کی بدولت سعودی عرب کے باشندے کو تشدد وہاںکا ایک معمول معلوم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، تارک وطن کے لیے کچھ قوانین ایسے بھی ہیں جنہیں مثالی طور پر ہر شخص پر نافظ کیا جانا چاہئے تھا لیکن ان کا نفاذ شاید ہی اس طبقے پر ہوتا ہے۔سعودی عرب کی آبادی کے ایک بڑے طبقے سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو ذہن میں رکھتے ہوئےاس کا مطلب یہ ہے کہ اس سرزمین پر سخت محنت کرنے والے لوگوں کو ایک قانونی حفاظتی نظام تک رسائی حاصل نہیں ہے۔عوامی سطح پر کوڑے مارنے اور سر قلم کرنے کا عمل آج کی اکثر مہذب دنیاکے اقدار سے متصادم ہے،لیکن یہ سعودی عرب میں باقاعدہ طور پر جاری ہے۔
لیکن تارکین وطن صرف ان رجعت پسندانہ قوانین کا ہی شکار نہیں ہیں بلکہ انہیں بمشکل ہی اپنا دفاع کرنے کا موقع ملتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہاسلامی قانون یا شریعت ہی اصل مسئلہ ہے جس پر سعودی عرب کے تعزیراتی قانون کی بنیاد ہے۔ بلاگر رائف بدوی کو جو سزا دی گئی تھی صرف اسے یاد کرنے سے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی غلطی صرف یہ تھی کہ وہ سعودی عرب کے قوانین کی رجعت پسندانہ نوعیت کے بارے میں بلاگنگ کر رہا تھا۔ لیکن سعودی عرب میں، حکومت پر تنقیدکرنا شاید سب سے بڑا جرم ہے۔ بدوی کو عوامی سطح پر کوڑے مارنے کی سزا سنائی گئی اور کوڑے مارنے کے پہلے دور کے بعد جب وہ اس کی تاب نہ لا سکاتو اس کی سزا کو معطل کر دیا گیا۔ حکومت کی جانب سےیہ بربریت اور اذیت بہت عام ہے اور اکثر سعودی حکام بھی اسے پریشان کن تسلیم نہیں کریں گے۔
جن باتوں کو کوئی مسئلہ تسلیم نہیں کیا جاتا ہے ان میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ ریاست سعودیہ عربیہ میں خواتین کو ڈرائیونگ کرنے کی اجازت نہیں ہے،ان کے نام پر کوئی بینک اکاؤنٹ رکھنے کی اجازت نہیں ہے اور یہاں تک کہ انہیں تنہا سفر کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔وہاں اسے اور اس جیسے بہت سے معاملات کو معمولی سمجھا جاتا ہےکیوں کہ خواتین کو اب بھی اس ملک میں ایک منقولہ ملکیت ہی تصور کیا جاتا ہے۔ اور اس رجحان کی وجہ سےانہیں ایک بامعنی زندگی بسر کرنے کا اختیار نہیں ہے۔جیسا کہ سعودی عرب میں اسلام کی خاص تعبیرسے یہ اشارہ ملتا ہےکہ اگر عورتوں کو مردوں کی لذت اندوزی کے لیے ہی پیدا کیا گیا ہے تو انہیں ایسے کسی بھی کام میں مصروف نہیں کیا جانا چاہئےجس کا تعمیر و ترقی سے دور کا بھی کوئی رشتہ ہو۔ مختصر یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی ایجنسی نہیں ہونا چاہئے۔
اس بات کے پیش نظر کہ خواتین کو آزادی دینے کا مطلب فتنہ کو دعوت دینا ہے اس سے بھی بدتر اور کیا ہو سکتا ہے؟ خواتین اس ریاست سے جس بات کی توقع کر سکتی ہیں وہ صرف ایک جامع پدرانہ نظام کے تحت 'تحفظ' کی ایک زندگی بسر کرنا ہے۔بہت کم لوگ ہی 2002 کا وہ واقعہ بھول سکے ہوں گے کہ جب لڑکیوں کے ایک اسکول میں آگ لگی توحکام نے طالبات کو باہر نکلنے کے لیے دروازے کھولنے سے انکار کر دیاتھا جس کے نتیجے میں پندرہ طالبات کی موت ہو گئی۔ایک حالیہ ویڈیو جس میں ایک سعودی امام اس بات کی تعلیم دے رہا ہے کہ کس طرح آہستہ آہستہ بیویوں کو پیٹا جائے، اس امر کی ایک یاد دہانی ہے کہ سابق بادشاہ کے اصلاحی کے اقدامات کی میڈیا میں گونج کےباوجودسعودی عرب میں بہت معمولی تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔
وہابیت اسلام نہیں ہے؛ بلکہ یہ اسلام میں ایک فساد ہے۔ اسلام کی کون سی تشریح سعودیوں کو اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ وہ بیرون ملک میں مسلم کمیونٹیزکو لاکھوں ڈالر کا فنڈ اس مقصد کے ساتھ مہیاء کرائیں کہ ان کے اس ثقافتی سیاق و سباق کو ختم کر دیا جائے جو امت مسلمہ میں سرایت کیا ہوا ہے؟ اور اپنے ہی ملک کے اندربڑے پیمانے پر اسلام کی ابتدائی تاریخ سے منسلک مقامات اور نشانیوں کو تباہ کر کے اس نے اسلام کی تاریخی اور ثقافتی حساسیت کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔یہ کون سا مذہب ہے جو اپنے پیروکاروں کو چوری پر ہاتھوں کاٹنے کی تعلیم دیتا ہے اور یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری خود خواتین پر ڈالتا ہے کہ اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کی گئی ہے؟حیدرآبادکی مسلم خاتون پر تشدد اور پھر اس کی ممکنہ موت کے واقعہ کو جلد ہی بھولادیا جائے گاجیسا کہ ماضی کے بہت سے واقعات کے ساتھ ہوا ہے ۔یہ جاننا اور پہچانناضروری ہے کہ سعودی وہابی حکومت ظلم و تشدد انجام دینے والی ایک حکومت ہے۔اور یہ کہ تشدد کو وہابی حکومت معمولی اور یہاں تک کہ اسلامی بھی تصور کرتی ہے۔جب تک ہم اس معمول کو تسلیم نہیں کر لیتےہم اس امر پر کھل کر گفتگو نہیں کر سکتے کہ اس ملک میں اسلام کے نام پر کیاکیا جا رہا ہے۔
کسی کے اندر یہ امید جاگی ہوگی کہ تشدد کے ایسے واقعات کے بعددنیا کی وہ حکومتیں سعودی عرب کو اپنی تنقید کا نشانہ بنائیں گی جن کے شہری وہاں کام کرتے ہیں۔ان کی مکمل خاموشی نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ حکومتیں جزوی طور پر اپنی جغرافیائی و سٹریٹجک مفاد اور جزوی طور پر میڈیاانڈسٹری کے ساتھ سعودی عرب کی ساز باز کی وجہ سے سعودی حکومت کی کسی بھی تنقیدکرنے کے لیے نااہل اور غیر مؤثر ہیں۔صرف لوگوں کی ایک زبردست تنقیدہی سعودی حکومت کو اس حقیقت پر توجہ دینے کے لیے مجبور کر سکتی ہے کہ اسلام کیان کی تشریح میں موروثی طور پر کوئی نقص اور عیب موجوود ہے۔ اور مسلمانوں کو اس تنقید میں برتری حاصل کرنی چاہیے۔
URL for English aricle:https://newageislam.com/islamic-society/the-normality-torture-saudi-arabia/d/107331
URL for this article: