ارشد عالم ، نیو ایج اسلام
22 مارچ 2018
حال ہی میں انڈین ایکسپریس کے ادارتی صفحات پر مسلمانوں کی صورتحال پر ہندوستان کے دو معروف اور معززشخصیات کے درمیان بحث چھڑ گئی۔ ہرش مندرنے کہا کہ کانگریس نے بھی سیاسی طور پر مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، تاہم ، ان کا زیادہ تر تجزیہ اس حقیقت کے ارد گرد تھا کہ کس طرح آر ایس ایس اور بی جے پی کے اکثریت پسندانہ ایجنڈے نے مسلمانوں کو دوئم درجے کا شہری بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس کے جواب میں رامچندر گوہانے مندر سے کہا کہ بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی موجودہ صورت حال مسلم برادری کے اندر ایک روشن خیال اور لبرل قیادت کی کمی کا نتیجہ ہے۔ دونوں کی جانب سے پیش کئے گئے دلائل درست اور اہم ہیں لیکن حقیقت میں آج مسلمانوں کی صورت حال اس کہیں زیادہ پیچیدہ ہے: اس ضمن میں نہ صرف رائٹ ونگ ہندو قوم پرستوں کو بلکہ لبرل اور لفٹ کو بھی اس مباحثے کے دائرہ میں لایا جانا چاہئے۔
لیکن سردست معاملے پر گفتگو پہلے۔ کسی بھی برادری کی سیاسی طاقت کا ایک سب سے بڑا پیمانہ اس کے اندر خود کی نمائندگی کرنے کی صلاحیت ہے۔ اقلیتوں (خواتین، مسلمانوں، دلتوں ، آدیواسیوں) کی نمائندگی ہمیشہ دوسروں نے ہی کی ہے اور ہمیشہ ان کا مزاج ماتحت والا ہی رہا ہے۔ ادھر کئی برسوں میں بعض اقلیتیں ایک مضبوط جوابی بیانیہ جاری کر کے ان قیادتوں کو چیلنج کرنے میں کامیابی رہی ہیں۔ مندر اور گوہا کے درمیان مباحثے سے یہ بات ابھر کر سامنے آئی ہے کہ مسلم اقلیت ابھی خود اپنی نمائندگی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ وہ اپنی اذیتوں ، کلفتوں ، اضطراب اور ناکامیوں کی نمائندگی کے لئے اب بھی دوسروں کے ہی محتاج ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کے حوالے سے صرف دوسروں کے بارے میں ہی لکھا جانا چاہئے ، بلکہ اس کا مقصد اس امر کو واضح کرنا ہے کہ مسلم معاشرے کے پاس ابھی بھی اپنی کوئی آواز نہیں ہے۔
اس مباحثے کے اندر مندر نے مسلمانوں کے درمیان احساس بیگانگی کو پوری حساسیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ تاہم، آر ایس ایس اور بی جے پی کی سیاست کے ساتھ اس احساس بیگانگی کو براہ راست جوڑنا بہت آسان کام ہے۔ کیوں کہ بڑے پیمانے پر یہ لفٹ لبرل قوتوں کے سیاسی طرزعمل کا بھی نتیجہ ہے۔ مثال کے طور پر شاہ بانو کیس کو ہی دیکھ لیں۔ اس وقت حکومت نے قدامت پسند مولویوں کو خوش کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو نظرانداز کیا۔ لہٰذا، اس اکثریتی کمیونٹی کی جانب سے ایک ردعمل کا مظاہرہ ناگزیر تھا۔ لہذا، آج جب رائٹ ونگ ہندو طاقتیں یہ کہتی ہیں کہ اس ملک کا کوئی بھی قانون انہیں ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر سے نہیں روک سکتا تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ شاہ بانو کیس کے دوران بڑے مسلم قائدوں نے بھی اپنے مذہب کی فوقیت میں ایسے ہی بیانات دئے تھے۔ اگر مسلمانوں کے اندر پارلیمنٹ میں بلا کسی خوف و خطر کے یہ دعوی کرنے کی جرأت ہو سکتی ہے کہ شاہ بانو آئین سے بالا تر ہے ، تو ہندوؤں کو اسی طرح کے بیانات دینے سے کون روک سکتا ہے؟ مندر جو کہنا چاہتے ہیں اس کے برعکس مسلمانوں کو خود اپنی قیادت سے ہی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ انہوں نے مسلم معاشرے کو ہندوتوا کا ہدف بنا دیا ہے۔
ایک ظلمت پسند مسلم قیادت کا مظاہرہ کرنے والوں میں صرف ایک گزشتہ کانگریسی حکومت ہی نہیں ہے۔ بلکہ لفٹ بھی اس معاملے میں بہت پیچھے نہیں ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جس وقت لفٹ اقتدار میں تھی اس وقت تسلیمہ نسرین کو کس طرح مغربی بنگال سے نکال باہر کیا گیا تھا۔ دو دہائیوں سے زائد عرصے تک اقتدار میں رہنے کے باوجود لفٹ ایک ایسی لبرل مسلم قیادت تیار کرنے میں ناکامی رہی ہے جس کا اظہار رائے کی آزادی پر یقین ہو۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لفٹ کو مسلمانوں کے اندر اس طرح کی قیادت کو فروغ دینے میں کوئی دلچسپی تھی بھی یا نہیں۔ مغربی بنگال میں مسلمانوں کے اندر غربت و افلاس کی حالت اپنی مثال آپ ہے ، لیکن اس محاذ پر مغربی بنگال کی حکومت کی کوئی تنقید نہیں کی گئی۔ بلکہ اس سے بھی بدتر بات یہ ہوئی کہ لفٹ فرنٹ حکومت کو ترقی پسند سیکولرزم کی ایک زندہ مثال کے طور پر پیش کیا گیا۔ سڑکوں پر عام مسلمانوں کے لئے فرقہ وارانہ تشدد میں مرنے اور روزانہ بھوک اور نا امیدی کی موت مرنے کے درمیان اختیار کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ منظم طور پر مسلمانوں کو سیاسی اقتدار میں کسی بھی حصہ داری سے محروم کرنے کے بعد بنگال میں لفٹ نے اس امید کے ساتھ پھر مولویوں کی خوشامد کرنا شروع کر دیا ہے کہ اس سے مسلم معاشرہ ان کا حامی بنا رہے گا۔ یہ مولویوں کی منصوبہ بند خوشامد سے مختلف کیوں کر ہے جس کا ارتکاب کانگریس نے کیا ہے؟
اس کے اور بھی اسباب و علل پیش کئے جا سکتے ہیں۔ اس لئے کہ جب مسلمانوں کی بات آتی ہے تو صرف سیاسی جماعتوں کا ہی نہیں بلکہ سول سوسائٹی کا بھی اس میں نقطہ نظر مختلف ہے۔ ذرا غور کریں! حقِ تعلیم (آرٹی ای) ایکٹ اس ملک کے بچوں کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کے لئے اپنے آپ میں ایک انقلابی نظریہ ہے۔ لیکن مدرسوں کو آر ٹی ای کے دفعات سے مستثنی قرار دیا گیا تھا۔ اس سے ایک ایسی منفرد صورت حال پیدا ہوئی جو آج اسی طرح قائم و دائم ہے: ہندو بچوں کو جدید تعلیم ایک بنیادی حق کی حیثیت سے حاصل ہو رہی ہے جبکہ اس حق سے مدرسے میں زیر تعلیم لاکھوں مسلمان بچے محروم ہو رہے ہیں۔ لیکن سول سوسائٹی پر اس معاملے میں مکمل سردمہری چھائی رہی اور خود بشمول مندر کے اس پر کسی نے صدائے احتجاج بلند نہیں کیا۔ اور انہیں یہ استثناء ان مولویوں کے الگ ہو جانے کے خوف سے دیا گیا تھا جن کا تسلط ان مدرسوں پر ہے۔ یہ اس ملک میں مسلمانوں کو دیکھنے کا ایک منفرد نظریہ ہے۔ بالعموم یہی مانا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو یہ مولوی حضرات کنٹرول کرتے ہیں جو کہ مسلم کمیونٹی کے رہنما ہیں۔ یہ عمومی رویہ صرف آر ایس ایس اور بی جے پی تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں لفٹ سمیت دیگر نام نہاد سیکولر جماعتیں بھی شامل ہیں۔ اور اس ملک میں لفٹ لبرل ازم کا جو معمول رہا ہے اس اعتبار سے مسلمانوں کے بارے میں اس عمومی رویہ کو جنم دینے میں متعدد طریقوں سے اس کا بھی ہاتھ رہا ہے۔ مسلمانوں کی پہچان ہمیشہ بنیادی طور پر ان کی مذہبی شناخت کے ذریعہ ہی کی جاتی ہے۔
کسی بھی کمیونٹی اور خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک لبرل اور روشن خیال قیادت انتہائی ضروری ہے۔ گوہا کی بات بالکل درست ہے کہ ایسی قیادت کے بغیر مسلمانوں پر مولویوں کا تسلط قائم رہے گا اور مختلف سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی مفادات کے لئے ان کا استعمال کرتی ہی رہیں گی۔ تاہم، یہ بھی یکساں طور پر ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی معاشرے میں لبرل ازم کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لئے ریاست کو ایک معاون کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ رام موہن رائے سے لیکر شمالی ہند میں اصلاح پسند تحریکوں تک، کلونیکل اور پوسٹ کلونکل (نو آبادیاتی اور مابعد نو آبادیاتی) ریاست نے ہندوؤں کے اندر نومولد لبرل ازم کے فروغ میں ایک معاون کردار ادا کیا ہے۔ لبرل نہرو اور امبیڈکر کے روشن خیال ریاست کے بغیر ہندو قانون میں اصلاحات ممکن نہیں تھی۔ در حقیقت ہندو کوڈ بل پر بحث کے دوران ریاست خود ہی ہندوؤں کی اصلاح کار بن چکی تھی۔ تاہم، نہروواد ریاست نے اصلاح پسندانہ اقدام میں مسلم معاشرے کو شامل نہیں کیا۔ اس کے بجائے ہم نے ایک نیا نظریہ ایجاد کیا کہ اصلاح پسند آوازیں خود مسلم معاشرے کے اندر سے ہی اٹھنی چاہئے۔ ستر برسوں سے لبرل اور لفٹ دونوں ثابت قدمی کے ساتھ اسی موقف پر قائم ہے۔ اس فارمولہ کی خامی بالکل واضح ہے: مسلم معاشرے کے اندر اختیارات کے ڈھانچے اصلاحات کے کسی بھی امکان کے لئے مزاحم ہیں۔ مسلم برادری کے اندر سیاسی اور مذہبی دونوں قیادتیں اصلاحات کے کسی بھی عمل میں خلل ڈالنے کے لئے فعال طور پر سرگرم عمل ہیں کیونکہ ان کی سیادت جمود و تعطل کو برقرار رکھنے سے ہی قائم ہے۔
لیکن شاید مکمل طور پر اس کا مورد الزام صرف مسلم قیادت کو ہی نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ انہوں نے شاید اپنا سبق سیکھ لیا ہے: مسلم معاشرے کی ضروریات صرف اس وقت پوری ہوں گی جب مطالبات سیکولر کے بجائے مذہبی انداز میں پیش کئے جائیں گے۔ لہٰذا، مسلمان انگریزی میڈیم کے بجائے اردو میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنا زیادہ پسند کریں گے اس لئے کہ مسلسل ایک منصوبہ بند سیاست کے ذریعہ اردو مسلم معاشرے کی ایک اہم مذہبی علامت بن چکی ہے۔ اسی طرح، مسلم علاقوں میں اچھے معیار کے اسکول قائم کر کے مدرسہ کے نظام کو نظر انداز کرنے کے مطالبے کے بجائے مسلمان مدارس اسلامیہ کی جدید کاری کے مطالبات کو تسلیم کرنا پسند کریں گے۔ مسلم قیادت کی ساز باز صرف اس حد تک ہے کہ یہ حکومت ہند کے پہلے سے مقرر شدہ ایجنڈے میں بہ رضا و رغبت اپنا تعاون پیش کرتی ہے۔ آج حکومت ہند کے رویہ کو جانے بغیر مسلمانوں کی صورت حالت کا ٹھیک اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
URL: https://newageislam.com/islam-politics/the-left-liberals,-muslim-leadership/d/114680
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism