New Age Islam
Sun Apr 02 2023, 10:58 AM

Urdu Section ( 13 Aug 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Bogey of Islamophobia اسلام فوبیا کا عفریت

ارشد عالم ، نیو ایج اسلام

13 اگست 2018

ایسا لگتا ہے کہ بورس جانسن کے ایک ریمارک نے چاروں طرف افرا تفری کا ماحول پیدا کر دیا ہے جس میں اس کہا تھا کہ برقعہ پوش خواتین لیٹر بکس معلوم ہوتی ہیں۔ اس نے یہ بھی کہ ان کی ظاہری وضع قطع دیکھ کر مجھے بینک لٹیروں کی یاد آتی ہے۔ برقعہ کا اس قدر مذاق بنا کر بھی اسے تسلی نہیں ملی اور اس نے یہ بھی کہا برقعہ مسلم خواتین کے لیے ظلم و جبر کی ایک علامت ہے۔ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ جب کسی یوروپین لیڈر کی جانب سے ایسا کوئی بیان آیا ہے۔ خاص طور پر کنزرویٹیو اور قدامت پرستوں نے برقعہ کے بارے میں اس سے بھی بری باتیں کی ہیں۔ ظاہر ہے کہ بورس جانسن کے اس بیان کو اسلاموفوبک قرار دیا گیا ہے اور اسے کنزرویٹیو پارٹی سے نکال باہر کئے جانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

 برطانیہ میں کنزرویٹیو زکا چہرا مانے جانے والے برونی وارثی نے اس موقع پر ٹوریس کو اپنے اندر جبلی طور پر موجود اسلاموفوبیا اور مسلم مخالف تعصب پر نظر کرنے کو کہا۔  اب تک اپنی پارٹی کی جانب سے دباؤ کے باوجود بورس جانسن نے معافی مانگنے سے انکار کردیا ہے۔ اس کے اس واضح انکار کے پیچھے متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ انہیں وجوہات میں سے ایک ایسا کر کے انتہا پسند طبقے کا ووٹ حاصل کرنے کا کنزرویٹیو پارٹی کا گمان بھی ہو۔ تاہم، اس بیان پر برپا ہونے والے شوروغوغا کا جائزہ لینے اور خود سے یہ سوال کرنے کی بھی ضرورت ہے کے آخر اسلاموفوبیا ہے کیا۔

 کیا ایسا ہے کہ مسلمانوں کے مذہب کے بارے میں کوئی ایسی بات خود بخود اسلاموفوبیا بن جاتی ہے جو مسلمانوں کے لئے ناگوار ہو؟ اور آخر اسلاموفوبیا کی تعریف ہے کیا؟  بہت سارے لوگ مثبت انداز میں عیسائیت کو ناپسند کرتے ہیں اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ یہودیوں کے بارے میں مسلمانوں کی رائے اچھی نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود کرسٹو فوبیا Christophobia یا جیوڈوفوبیا Judophobia جیسے الفاظ استعمال نہیں کئے جاتے۔ لہذا اسلاموفوبیا جیسے لفظ استعمال کیوں کیا جائے اور اس لفظ کا موجد کون ہے؟ اور ہمیں خود سے یہ بھی سوال کرنا چاہیے کہ اگر اس لفظ کا اپنے آپ میں کوئی معنی نہیں ہے تو اس کے استعمال کا کیا حاصل؟ اس لفظ کے استعمال سے کسے فائدہ ہوتا ہے اور اس کا ہدف کون لوگ ہیں؟ اس اصطلاح کے ایجاد کرنے والے کون لوگ ہیں، یقیناً انتہا پسند اور اسلام پرست اس لفظ کے استعمال کرنے کے عادی ہیں۔

 مسئلہ یہ ہے کہ درحقیقت یوروپ میں اور دوسرے ممالک میں انتہا پسند سیاسی پارٹیاں اس طرح کے مباحثے کا بازار گرم کرتی ہیں اور وہی اسلاموفوبیا جیسے لفظ کا استعمال کرنے کی عادی ہیں۔ آج ہم ایک عجیب دنیا میں رہتے ہیں جہاں انتہا پسند اور اسلام پرست اپنے لیے ایک مشترکہ زمین تیار کر رہے ہیں۔ آج سے چند دہائیاں پہلے یہ گمان بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ قدامت پرست لوگ کھل کر اسلامی روایات اور دیگر مذہبی روایات کے دفاع میں آ جائیں گے۔ مسلمانوں کا سوال نقل مکانی اور ہجرت سے جڑا ہوا ہے لہذا اس میں کوئی شک نہیں کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے کے مشترکہ مفادات موجود ہیں۔ لیکن برقع کے دفاع کی حد تک نکل جانا اور کچھ مسلمانوں کی جانب سے اسکول اور تعلیمی اداروں میں مرد و زن کے درمیان علیحدگی کا مطالبہ کیاجانا شاید حد سے گزر جانا ہے۔ قدامت پرست اپنے سیاسی اصول کے حوالے سے ایمانداری کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔ ایک قوم کا دفاع کر کے وہ ایک نظریاتی نظام کا دفاع کرینگے جس پر بصورت دیگر ہر کسی کو تنقید کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ اور یہی اس پریشانی کی جڑ ہے۔ ہمیں اسلام جو کہ ایک نظریاتی نظام ہے اور مسلمانوں کے درمیان جن کی تعبیر گوشت اور خون کے مجسمہ سے کی جاتی ہے-فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اسلام سمیت کسی بھی نظریاتی نظام پر تنقید کرنے میں کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے جبکہ کسی ایک پوری قوم کو رسوا کرنے والےکی چوطرفہ مذمت کی جانی چاہیے۔

 ذہن میں اس فرق کو رکھتے ہوئے اب ہم بورس جانسن کے اس مکروہ ریمارک کا جائزہ لیتے ہیں جس میں اس نے یہ کہاں ہے کے نقاب پوش عورتیں لیٹربکس معلوم ہوتی ہیں۔

 پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کا یہ ریمارک ہیڈ اسکارف استعمال کرنے والی عورتوں کے لئے نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس طرح کے پردے میں چہرہ نظر آتا ہے اور انسانی نشست و برخاست اور بات چیت ممکن ہوتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہ ایک inter-personal انٹر پرسنل یعنی بین شخصی بات چیت ہے۔ فطری طور پر اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ بات چیت کرتے وقت لوگ آنکھ سے آنکھ بھی ملائیں تاکہ مکمل طور پر بات اور حالات کی سمجھ حاصل ہو سکے۔ جبکہ پورے چہرے کا پردہ کرنے کی صورت میں بات چیت کے درمیان خلل واقع ہوتا ہے اس لیے کہ اس صورت میں صرف آنکھیں ہی نظر آتی ہیں۔ اور جب ایسا ہوتا ہے تو برقع پوش خاتون اس کا چہرہ تو دیکھ سکتی ہے جس سے وہ بات کر رہی ہیں لیکن سامنے والے کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوتا ہے۔ لیٹر بکس کی طرح کہ جس میں ایک بار اگر ڈاک ڈال دیا جائے تو اسے نکالا نہیں جا سکتا اسی طرح برقعہ میں پوری طرح ڈھکی ہوئی خاتون کے ساتھ بات کرنا ون وے ٹریفک کی مانند ہیں۔ لہذا اس موازنہ میں بری بات کیا ہے؟ یہ موازنہ بالکل درست ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جانسن نے برقہ کو مسلم خواتین کے لیے ظلم و جبر کی علامت قرار دیا ہے۔

 جانسن کی اس بات پر اسلام پرستوں اور  حقوق نسواں کے نام نہاد علمبرداروں کے علاوہ اور کسے کوئی بھی اعتراض ہو سکتا ہے۔  اس طرح کے برقعہ کو ظلم و جبر کی علامت قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ عورتوں کو دوسرے انسانوں کی طرح بات چیت کرنے کی آزادی سے محروم کرتا ہے۔

 عورتوں کی آزادی کی کئی دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی برقع کے پیچھے کا نظریہ زندہ ہے اور وہ یہ ہے کہ عورتیں ایک ’’شئی’’ اور ایک ذاتی ملکیت ہیں جنہیں دوسروں کی نظروں سے چھپا کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ خواتین سے کبھی یہ سوال نہیں کیا جاتا کہ  آیا وہ بھی خود ایسا چاہتی ہیں یا کہ نہیں۔ میں مانتا ہوں کہ کچھ عورتیں مذہبی خلوص کی بنیاد پر ایسا کرنا چا ہیں گی: کہ اسلام خواتین کو ایک خاص طریقے سے لباس زیب تن کرنے کا حکم دیتا ہے۔ لیکن اس صورت میں وہ دفاع نہیں ہو سکتا۔ ایسی خواتین بھی ہیں جو کئی طریقوں سے پیٹریارکی کو برقرار رکھتی ہیں اور اس کا علمبردار بھی بنتی ہیں۔  اس صورت میں کیا ہم رک جائیں گے اور یہ کہیں گے کہ وہ اپنی چوائس choice کو بروئے کار لارہی ہے اور ذاتی چوائس choice کا احترام کیا جانا چاہیے؟ یقیناً نہیں۔ اور سب سے پہلے حقوق نسواں کے علمبردار میسکیولین masculine نظریہ کے انٹرنلائزیشنinternalisation کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔

 لہذا ایسا کیوں ہیں کہ جب اسلام کی باری آتی ہے تو یہی حقوق نسواں کی علمبردار خاموش ہو جاتے ہیں؟ اگر اسلام برقع پہننے کو ضروری قرار دیتا ہے جیسا کہ اس کے حمایتی کہتے ہیں- تو اسلام پر تنقید نظریاتی ترقی ہوگی۔ آخر کار کوئی برقع پہننے کے مذہبی جواز کا جائزہ لیے بغیر کیسے اس تنقید کر سکتا ہے؟

 جہاں تک بورس کی بات ہے تو میں نے کبھی نہیں سنا کہ انھوں نے کبھی یہ کہا ہو کہ مسلمان زمین پر فضلات کی مانند ہیں اور انہیں پھینک دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ تمام مسلم خواتین لیٹربکس کی طرح دکھتی ہیں۔ انہوں نے جو کچھ بھی کہا وہ ان خواتین کے لیے تھا جو برقع پہنتی ہیں اور اسلام کے نام پر اس کا دفاع کرتی ہیں۔ اس نے پوری امت مسلمہ کا مذاق نہیں بنایا بلکہ جس چیز کا اس نے مذاق بنایا وہ مذہب اسلام کا ایک حصہ ہے۔

 اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ بہر صورت اسلام پر تنقید کرنا اسلاموفوبیا ہے تو وہ غلط ہے۔ ایک نظریہ کے طور پر اسلام یا کسی اور مذہب کی تنقید و تضحیک کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اگر کوئی ایسا کرنا چاہے۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہر زمانے میں نظریات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اس لیے کہ تنقید کے ذریعے ہی نظریات کی اصلاح کی جاتی ہے اور برے نظریات کو خارج کیا جاتا ہے۔ دراصل تنقید کا یہ رواج اسلام نے ہی شروع کیا ہے: اسلام نے یہودیت ، عیسائیت اور بت پرستی کے اندر موجود فسادات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ تو ایسا کیوں ہے کہ اب اسلام پر کسی بھی تنقید کو منفی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ کیوں لوگوں کو اسلام پر تنقید کا سلسلہ بند کر دیا جانا چاہیے، اس کی ہمیں کوئی ٹھوس وجہ نہیں ملتی۔ اسلاموفوبیا کے عفریت کا واضح مقصد مذہب کو تنقید کے دائرے سے باہر لانا ہے جبکہ اس کا خفیہ مقصد اور شاید اس کا سب سے اہم مصرف داخلی تنقید کا دروازہ بند کرنا ہے۔ اب ہم اسلام کے اندر اصلاحات کے لیے مطالبات اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور مسلمانوں کے درمیان سے ہی اس کے لیے ایک مضبوط دعویداری کی جارہی ہے۔ سعودی عرب سے لے کر بنگلہ دیش تک مسلم اصلاح کاروں کو یا تو جیل میں ڈال دیا گیا ہے یا انہیں ختم کر دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے اصلاح پرستی معاشرے کے اوپر بنیاد پرست اسلام پسند اور کنزرویٹوز conservatives کی گرفت کو چیلنج کرنے کی کوشش کرتی ہے ، لہذا تنقید بنیادی طور پر ایک سیاسی جدوجہد کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ قدامت پرست داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر اپنے ناقدین کو خاموش کرنے کے لئے اسلاموفوبیا کا عفریت بروئے کار لاتے ہیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ لبرل طبقہ اسلاموفوبیا کے اس پورے معمہ پر از سر نو غور و فکر کرے۔ وہ قدامت پرست اسلام کا دفاع کر کے مسلم معاشرے کے ترقی پسندوں کو اکیلا چھوڑ رہے ہیں اور ایسا کرکے وہ اس مذہب کے چند انتہائی غیر پسندیدہ اور مکروہ معمولات کو رواج بخش رہے ہیں۔

URL for English article: https://newageislam.com/muslims-islamophobia/the-bogey-islamophobia/d/116115

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-bogey-islamophobia-/d/116119

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..