ارشد عالم، نیو ایج اسلام
22 اپریل 2021
سب سے بڑا مسئلہ تو خود
ریاست کا مذہبی رجحان ہے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے ٹی ایل پی پر پابندی لگانے کا
فیصلہ اسلامی انتہا پسندی کے خلاف جنگ کے بین الاقوامی موقف کا حصہ ہے
اہم نکات:
1. داخلی طور پر حکومت نے ٹی ایل پی کو سختی کے ساتھ دبانے کی کوشش
کرنے کے بجائے ہمیشہ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے
2. ٹی ایل پی کی مقبولیت پسماندہ طبقہ میں اس کی حمایت کی وجہ سے
ہے، جس کے معاون مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں
3. مذہبی انتہا پسندی کے خلاف کسی بھی فیصلہ کن لڑائی کے لیے
پاکستان کی نظریاتی بنیاد کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہوگی
-----
Tahreek-e-Labbaik
Pakistan
-----
حکومت پاکستان نے تحریک
لبیک پاکستان پر پابندی عائد کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اس سے اب کوئی بیوقوف نہیں
بننے والا۔ اگر پابندی عائد کر کے حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ دہشت گردی اور
انتہا پسندی کے خلاف اپنی جنگ میں سنجیدہ ہے تو جو پاکستان کے حالات پر نظر رکھنے
والوں کو بھی یاد ہے کہ یہ وہی عمران خان تھے جنہوں نے ٹی ایل پی کی بھرپور حمایت
کی تھی جب وہ وزارت عظمیٰ کی کے لئے لڑ رہے تھے۔ 2017 میں جب اسلام آباد میں توہین
رسالت کے معاملے پر ٹی ایل پی ہنگامہ برپا کئے ہوئے تھی تو عمران خان نے اس وقت کی
حکومت کو اس صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا لیکن ٹی ایل پی کی واضح انتہا پسندی
پر خاموش تھے۔ اس کا مطلب بالکل واضح تھا کہ جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو ٹی ایل
پی کے مطالبات پر ہمدردی رکھیں گے۔ لہٰذا وہ وزیراعظم بننے سے پہلے بھی بنیاد
پرستوں کو خوش کرنے کے لیے کافی کوشاں رہتے تھے۔
ان کی یہ خوشامد ان کے
اقتدار میں آنے کے بعد بھی جاری رہی۔ آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے الزامات سے بری
کیے جانے کے بعد ٹی ایل پی نے 2018 میں ایک بہت بڑے احتجاجی مظاہرے کی قیادت کی۔
عمران خان کی حکومت نے ٹی ایل پی کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے اور بے شرمی سے
ان کے اس مطالبے کو تسلیم کر لیا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے فیصلے پر حتمی
نظرثانی تک زیر التواء خاتون کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ آسیہ
بی بی بالآخر ملک چھوڑ کر چلی گئیں لیکن یہ بات واضح ہو گئی کہ عمران خان نے انتہا
پسندوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ وہ اپنے معاشی مشیر عاطف میاں کو بھی صرف اس وجہ سے
نہیں بچا سکے کیونکہ وہ احمدیہ تھے اور اسی بنیاد پر ٹی ایل پی نے ان سے استعفیٰ
کا مطالبہ کیا تھا۔ ٹی ایل پی کو زمین فراہم کرنے میں عمران خان نے ریاستی پالیسی
کے معاملات سے بھی سمجھوتہ کیا، جس کی انہیں حفاظت کرنی چاہیے۔
(Image
Credit: Instagram/@imrankhan/PTI) Tehreek-e-Labbaik Pakistan Chief Saad Hussain
Rizvi Released From Kot Lakhpat Jail
-------
ٹی ایل پی پر پابندی کا
موجودہ فیصلہ سپریم کورٹ کے نظرثانی کے ساتھ مشروط ہے۔ بہر حال اس میں جیت ٹی ایل
پی کی ہی ہوگی۔ یہاں تک کہ اگر عدالت اس پابندی کو برقرار رکھتی ہے تو تنظیم صرف
اپنا نام بدل کر اپنا کام جاری رکھ سکتی ہے، جو کہ ایک ایسا حربہ جسے پاکستان میں
دہشت گرد تنظیمیں کھلے عام استعمال کرتی رہی ہیں۔
عمران خان کی حکومت کے
لیے یہ بہتر ہے کہ اب وہ ٹی ایل پی پر پابندی لگا کر خود کو بنیاد پرستی اور انتہا
پسندی کے خلاف جنگ کی قیادت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ٹی ایل پی بریلوی
بنیاد پرستی کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہے جس کی بنیاد توہین رسالت کے نظریہ پر ہے۔
لیکن پاکستان میں توہین رسالت کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے ٹی ایل پی نے ہی سیاسی
ایجنڈا بنایا ہو۔ لیکن اگر عمران خان کی حکومت انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے واقعی
سنجیدہ ہے تو اسے اپنے داخلی معاملات پر نظر کرنا چاہیے: ریاست کی پالیسیاں خود کی
انتہا پسندانہ سیاست کو دعوت دیتی ہے۔
Tehreek-e-Labbaik
Pakistan agitators burn a photo of French President Emmanuel Macron in protest
against blasphemous caricatures published in France in 2020 | @SabahKashmiri |
Twitter
------
جب تک پاکستان اپنے آپ کو
ایک سیکولر ریاست نہیں سمجھتا، توہین مذہب جیسے مذہبی اور جذباتی مسائل انہیں
مشتعل کرتے رہیں گے۔ آج بریلوی ہنگامہ کر رہے ہیں، کل کوئی اور جماعت ہو سکتی ہے
لیکن معاملہ جوں کا توں برقرار رہے گا۔ اس میں بنیادی طور پر قصور پاکستان کی
حکومت کا ہے جس نے ’’اسلامی طرز زندگی‘‘ اور ’’تحفظِ ناموس رسالت‘‘ کو ان کا
بنیادی اصول بنا رکھا ہے۔ ٹی ایل پی جیسی جماعت پیغمبر اسلام کی کسی بھی موہوم
توہین پر ہمیشہ حکومت کو یرغمال بناتی رہیں گی۔ اس معاملے میں وہ مطالبہ کر رہے
ہیں کہ پاکستان فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرے کیونکہ فرانسیسی صدر نے محمد ﷺ کو
کارٹون بنانے والے کی آزادی اظہار رائے کا معاملہ قرار دیتے ہوئے اس کا دفاع کیا
تھا۔ اس طرح کا مطالبہ بے معنی ہے کیونکہ ہمیشہ ایسے دوسرے ممالک ہوں گے جہاں ایسی
باتیں ہوسکتی ہیں۔ اگر حکومت پاکستان ان مطالبات کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دے تو
اسے فرانسیسی سفیر کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگوں کو ملک بدر کرنا پڑے گا۔ ٹی ایل
پی یہ اچھی طرح جانتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس کا اصل ارادہ اس مسئلے کو استعمال
کرکے ایک بڑا داخلی سیاسی طاقت بننا ہے۔ تاہم، معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت
ایسے مطالبات پر گفت و شنید کرنے کے لیے تیار ہے، اس کا واضح طور پر مطلب ہے کہ وہ
ٹی ایل پی پر سخت موقف اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ یقین نہیں ہوتا کہ حکومت اب
قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کی بے دخلی پر بحث کرنے کی تجویز پیش کر رہی ہے۔
حکومت پاکستان ٹی ایل پی کی قوت توڑنے سے قاصر ہے اور اس کی سادہ وجہ یہ ہے کہ
توہین مذہب کا مذہبی داعیہ عام لوگوں کو پسند آتا ہے۔
Courtesy/
The Hindu
-----
اگر ایک پوری نسل کو اسلامی
بالادستی کی خوراک دی جائے اور ان کے سامنے پاکستان کو ایک ایسی سرزمین کے طور پر
پیش کیا جائے جو برصغیر میں اسلام کے پرچم کو سربلند رکھے ہوئے ہے تو اس میں کوئی
تعجب کی بات نہیں کہ اوسط درجے کے مسلمان اپنے وجود کو اسلام کے پرجوش دفاع سے جوڑ
دیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اس حقیقت سے بالکل بے خبر ہوں گے کہ انہیں کسی اور کے
پروپیگنڈے میں مہرے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کے لیے جو چیز اہم ہے وہ
یہ ہے کہ اسلام خطرے میں ہے اور اسلام کے ایک باضمیر محافظ کے طور پر ہمیں مذہب کو
ہر طرح کے حملے سے بچانا چاہیے۔
مزید یہ کہ ٹی ایل پی کی
سماجی بنیاد انتہائی غریب لوگوں پر مشتمل ہے جن کی پاکستان کی سیاست میں تاریخی
طور پر کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ پسماندہ طبقہ ہی اس تحریک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت
رکھتا ہے۔ اس طبقے کے لیے ایک سڑک جام کرنا بھی اظہار طاقت کی ایک شکل ہے کیونکہ
وہ ہر طرح کے سماجی اور سیاسی حقوق سے بڑے پیمانے پر محروم ہیں۔ اس غریب اور
پسماندہ طبقے کو ملاؤں اور مدرسوں کے فارغ التحصیل واعظوں سے مدد ملتی ہے۔
Saad
Hussain Rizvi, the chief of Tehreek-e-Labbaik Pakistan
-----
ایک قابل اعتماد حکومت جو
اپنے معاشرے اور سیاست سے انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتی ہے وہ کبھی
بھی ٹی ایل پی کے ساتھ کسی طرح کا رشتہ قائم نہیں کرے گی۔ ٹی ایل پی کے ساتھ کوئی
بھی تعامل ہتھیار ڈالنے کی پہلی مثال ہے اور ایسا ہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ’اپنے
لوگوں سے بات کرنے‘ کے نام پر حکومت ٹی ایل پی کو عام لوگوں کی نظروں میں ایک
معتبر اور جائز سیاسی متبادل بنا رہی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی حکومت کو معاشرے کے
انتہائی پسماندہ طبقات کو ترقی دینے کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ ٹی ایل پی کے جھانسے
میں نہ آئیں۔ لیکن بات یہی ہے کہ پاکستان میں مخلصانہ کوشش کرنے والے بہت کم ہیں
اور زیادہ تر لوگ اپنے فرقہ وارانہ فائدے کے لیے اسلام کا استحصال کرنے میں دلچسپی
رکھتے ہیں۔ اگر حکومت ٹی ایل پی کے ساتھ سختی سے نمٹنے میں اب بھی تذبذب کا شکار
ہوئی تو بنیاد پرستی کے اس عروج کے پاکستان پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔
English
Article: Pakistan Crisis: Tahreek-e-Labbaik Pakistan’s
Terrorism is Just Part of the Problem
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism