New Age Islam
Tue Feb 11 2025, 12:12 AM

Urdu Section ( 4 Oct 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

No Country for Rohingyas روہنگیا مسلمانوں کے لئے زمین کی وسعت تنگ

ارشد عالم ، نیو ایج اسلام

23 ستمبر 2017

شاید حتمی حل کو عملی شکل دے دیا گیا ہے۔ اس زمین پر نہیں جہاں یہ اصل نازی نظریہ پیدا ہوا تھا بلکہ میانمار کے دور دراز علاقے میں۔ ایک بڑی مسلم آبادی پر مشتمل غریب ترین ریاست کو فوجی دستے ویران کر رہے ہیں اور پوری دنیا خاموشی کے ساتھ بیٹھ کر تماشہ دیکھ رہی ہے گویا کہ دنیا میں کچھ ہو ہی نہیں رہا ہے۔

اور یہ تباہی نشانہ بنا کر قتل عام کر کے ، پورے گاؤں کو جلا کر اور راکھائن ریاست سے مسلمانوں کو زبردستی شہر بدر کر کے انجام دی جا رہی ہے۔ زبردست اختیارا ت کے حامل فوجی دستوں کو ایک نوبل انعام یافتہ قائد کی حمایت حاصل ہے۔

پڑوسی ممالک کے پاس ان فوجی طاقتوں کو اقلیتی مسلمانوں کے ساتھ سلوک کے دوران اعتدال پسندی کا مظاہرہ کرنے پر مجبور کرنے کی طاقت ہے لیکن وہ متعدد وجوہات کی بنا پر ایسا نہیں کریں گے۔ چینی اپنے پائپ لائن کے بارے میں فکر مند ہیں جو راکھائن ریاست سے ہو کر گزرے گی۔ ہندوستان شمال مشرقی ریاستوں میں اسٹریٹجک عوامل کے بارے میں فکر مند ہے۔ لہذا دونوں میانمار کی فوجی طاقت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ہیں اور انہیں اپنی حمایت میں ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ صرف بنگلہ دیش کو ہی پناہ گزینوں کے اخراجات کا سامنا ہے اور اب تک اس نے اپنے ملک میں لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کے رہنے سہنے کے انتظامات کر دئے ہیں۔

یہ شرمناک بات ہے کہ محدود وسائل کے ساتھ بنگلہ دیش حکومت ہند کے مقابلے میں بہت کچھ کرنے کے لئے تیار ہے، جو کہ در اصل سپریم کورٹ کو یہ بتا رہی ہے کہ یہ حکومت ہندوستان کی سرحدوں کے اندر رہنے والے 40 ہزار روہنگیا مسلمانوں کو ملک سے نکالنا چاہتی ہے۔ ایسا نہیں ہے بنگلہ دیش میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ سب کچھ اچھا ہو رہا ہے۔ انہیں بہت ہی محدود حقوق حاصل ہیں اور خاص طور پر ان کی زندگی ان غیر انسانی کیمپوں میں محدود ہے جو ان کے لئے تیار کئے گئے ہیں جن میں پناہ گزینوں کو آزادانہ نقل و حرکت کی آزادی بھی حاصل نہیں ہے اور ان کیمپوں میں ایک مہذب زندگی کے لئے ضروری بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ روہنگیا مہاجرین کے مسلمان ہونے کے باوجود مسلم دنیا میں انہیں کوئی بھی اپنانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ حال ہی میں ترکی نے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ ان ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کے لئے بنگلہ دیش کو معاوضہ دے گا جنہیں یہ ملک پناہ دینے کے لئے تیار ہے۔ لیکن ترکی نے اس خیال پر بالکل ہی کوئی توجہ نہیں دیا کہ یہ بھی روہنگیا مسلمانوں کے لئے اپنی سرحدوں کو کھول سکتا ہے۔ (آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز) اسلامی ممالک کی تنظیم ان پناہ گزینوں کو پناہ فراہم کرنے کے لئے بہت کچھ کر سکتی تھی، لیکن اس بار بھی روہنگیا مسلمان ان کے لئے خوش آئند نہیں ہیں۔ جب بات روہنگیا مسلمانوں کی آئی تو پوری امت مسلمہ نے ان کے اوپر اپنا دروازہ بند کر دیا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے پر مسلم دنیا کے ان نام نہاد علم برداروں کی توجہ ان کی ناکامی پر دلانے کی ضرورت ہے۔ صرف قرارداد منظور کرنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا؛ زمینی سطح پر ایسی کوئی بات موجود نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ عظیم ترین اسلامی دنیا بھی روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار سے واقف ہے۔

روہنگیا بحران پر حکومت ہند کا ردعمل بالکل شرمناک ہے۔ حکومت ہند نہ صرف یہ کہ میانمار پر دباؤ ڈالنے میں ناکام رہی ہے، بلکہ اس نے در اصل اپنی خاموشی سے میانمار کی فوجی کو روہنگیا مسلمانوں پر اپنے ظالمانہ رویہ کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ یہ سچ ہے کہ حکومت ہند کو خطے میں اپنے جغرافیائی مفادات کا خیال رکھنا پڑتا ہے، خاص طور پر اس پانی کی بندرگاہ کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے جس کی تعمیر وہ رکھائن میں کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت ہند کو میانمار کے ساتھ چینی قربت پر بھی نظر رکھنی ہوتی ہے اس لئے کہ چین میانمار کی فوج کے ساتھ اپنی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، خاص طور پر اس کی اینرجی پائپ لائن رکھائن سے ہو کر گزرتی ہے۔ مزید برآں حکومت ہند کو اس بات کی بھی فکر ہے کہ اگر اس نے میانمار کو پریشان کیا تو وہ پھر دوبارہ شمالی مشرق میں باغیوں کو پناہ دینا شروع کر سکتا ہے۔ ان سب حقائق کے باوجود یہ امر حکومت ہند کے لئے خدشات کا باعث ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے کچھ دہشت گرد روابط بھی سامنے آئے ہیں ۔

 لیکن حکومت ہند نے روہنگیا بحران پر جس انداز میں اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے اس سے ہندوستانی سیکورٹی اداروں کے اندر شدید بے چینی کا پتہ چلتا ہے۔ شاید حقیقت یہ ہے کہ روہنگیا مہاجرین میں مسلمان ایک بڑی تعداد میں ہیں اسی لئے ہندوستانی سیکورٹی اداروں کے لئے دنیا کو صرف یہ بتا دینا ہی کافی ہے کہ ہندوستان میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ ان کی وجہ سے ہندوستان کو دہشت گردی کے خطرات لاحق ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ ہندوستان میں روہنگیا مسلمانوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے ، بلکہ حکومت ہند اس ملک میں موجود تقریباً 40 ہزار مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ روہنگیا مہاجرین کے درمیان کچھ ایسے عناصر ہیں جو مختلف دہشت گرد تنظیموں کے ارکان ہیں۔ لیکن ابھی تک اس کا کوئی جامع ثبوت نہیں مل سکا ہے کہ ہندوستان میں رہنے والے روہنگیا مہاجرین کا دہشت گردوں سے کوئی تعلق ہے۔ اس کی تصدیق اس حقیقت سے ہوتی ہےکہ اب تک ان کے خلاف کسی بھی ملک مخالف سرگرمی میں ملوث ہونے کی ایک بھی ایف آئی آر رپورٹ درج نہیں کی گئی ہے۔ ہمارے پاس ان کے خلاف چوری اور اندرونی رسہ کشی جیسے معمولی معاملات کی رپورٹ ہے۔

لہٰذا، صرف شک کی بنیاد پر اس پوری برادری کو دہشت گرد قرار دینا ایک بیہودہ مذاق ہی ہے۔ نہ صرف بین الاقوامی برادری بلکہ خود اس ملک کے علاقائی لوگ بھی اس سے سہمت نہیں ہیں جو حکومت کا روہنگیا مہاجرین کے بارے میں کہنا ہے۔ لیکن شاید ان کی سیاست اس ملک کے اس طبقے کی خوش آمد کے لئے ہے جس پر موجودہ حکومت کی اپیل مبنی ہے۔ حکومت ہند کا یہ اقدام ہندو آبادی کے ایک ایسے طبقے کے حقیر جذبات کو اپیل کرتا ہے جو مسلمانوں کو ایک مخصوص تناظر میں ہمیشہ دہشت گرد کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ حکومت ہند کا حلف نامہ ہندوؤں کے اسی طبقے کو خوش کرنے کے لئے تیار کیا گیا ہے اور اسے 2019 کے انتخابات کے پس منظر کے خلاف دیکھا جانا چاہئے۔ شاید اس سے پہلے کبھی بھی اس ملک کی خارجہ پالیسی اور انسانیت نواز اقدام کو انتخابی مقاصد کے لئے نہیں استعمال کیا گیا ہے۔

روہنگیا مہاجرین کے بارے میں بحث و مباحثہ اس عوامی نقطہ نظر کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ جو آج اس ملک کی اکثریت رکھتی ہے۔ ٹیلی ویژن پر بحث و مباحثے کے دوران بجا طور پر یہ دلیل پیش کی جا رہی ہے کہ ہندوستان نے ہمیشہ مظلوم و ستم رسیدہ متعدد طبقات کی میزبانی کی ہے: خواہ وہ مالابار کے یہودی ہوں ، شامی عیسائی ہوں یا پارسی ہوں۔ لیکن اب لوگوں کی اتفاق رائے اس بات پر بڑھتی جا رہی ہے کہ اب بہت ہوا۔ ہندوستان کوئی دھرم شالہ نہیں ہے ، اور اسی پر لوگوں کی اتفاق رائے ہے ، لہٰذا روہنگیا مہاجرین کو اب ہندوستان میں رہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ لہٰذا، اس گفتگو کا بین السطور یہ ہے کہ ہندوستان ایک ہندو ملک ہے اور اس کے باوجود اس ملک نے تقریبا تمام مذہبی طبقات کو یہاں آنے اور آباد ہونے کی اجازت دی ہے۔

ہندوؤں کی یہ دریا دلی مسلم غداروں کے خلاف ہے جنہوں نے ملک کو تقسیم کیا ہے اور اسی لیے ہندووں کو یہ برداشت نہیں کرنا چاہئے۔ چونکہ روہنگیا مہاجرین مسلمان ہیں انہیں اس ملک میں رہنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ دوسرے ہی دن ایک سینئر رہنما گووند آچاریہ نے کہا کہ بھارت میں ہندو روہنگیا مہاجرین کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے جبکہ مسلم روہنگیا مہاجرین کو ملک سے باہر کر دینا چاہئے۔ اگر اس سے ہمیں ہندوستانی معاشرے کی بے چینی اور بے قراری کا اندازہ نہیں ہوتا تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بی جے پی نے اپنے منشور میں وعدہ کیا ہے کہ ہندوستان کو دنیا کے تمام مظلوم و ستم رسیدہ ہندووں کے ایک ملک کے طور پر ابھرنا ہوگا۔ اب اسی پارٹی کی حکومت ہے اور ہمیں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس پارٹی نے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اس ملک میں مسلم پناہ گزینوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہندوستان کو ایک ہندو ملک کی حیثیت سے دیکھنے کا رویہ اب ایک عمومی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہاں تک اب نیک نیت رکھنے والے ہندو بھی یہ پوچھتے ہیں کہ 'مسلم ممالک' ان روہنگیا مہاجرین کو کیوں قبول نہیں کرتے۔

لہذا ، اب یہ احساس فروغ پا رہا ہے کہ ہندوستان ایک ہندو ملک ہے۔ اگر یہ سچ ہو تو بھی بدقسمتی کی بات یہ سوچ ہے کہ اس ملک کو مسلمانوں کے خلاف حریفانہ رویہ رکھنا ضروری ہے۔

URL for English article: https://newageislam.com/islam-politics/no-country-rohingyas/d/112637

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/no-country-rohingyas-/d/112755


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..