ارشد عالم، نیو ایج اسلام
31 اگست 2021
مسلمان ہمیشہ جدید تعلیم
سے ناخوش رہے ہیں۔ طالبان اس حماقت کی ایک اعلی ترین مثال ہیں
اہم نکات:
1. طالبان کے عبوری
وزیر برائے اعلیٰ تعلیم عبدالباقی حقانی نے کہا کہ مشترکہ تعلیم اور اسلام مخالف
پہلو نئے افغان نصاب کا حصہ نہیں ہوں گے
2. مردوں کو خواتین
طالبات کو پڑھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی جس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہیں اسکولوں
اور کالجوں سے زبردستی نکال دیا جائے گا
3. افسوس کی بات یہ ہے
کہ جدید تعلیم کی یہ نظریاتی مخالفت صرف طالبان تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ تمام
اسلامی ممالک کے درمیان وسیع پیمانے پر مشترک ہے
---
طالبان 2.0 دنیا کے سامنے
اپنا ایک معتدل اور مزید قابل قبول چہرہ پیش کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ بین
الاقوامی حمایت کے لیے بے چین ہو کر اس نے ابتدا میں عورتوں کی تعلیم کے بارے میں
ایک مفاہمتی انداز پیش کیا۔ لیکن پھر اس کے کچھ لیڈروں کے حالیہ بیانات اور
اقدامات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے اندر جو چیز رچ بس گئی ہے اسے تبدیل کرنا بہت
مشکل ہے۔ طالبان دیوبندی مدارس کی پیداوار ہیں جنہوں نے روایتی طور پر اسلامی
تعلیمات کو انتہائی قدامت پسندانہ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ بنیادی
فلسفہ جس پر برصغیر پاک و ہند میں دارالعلوم دیوبند قائم کیا گیا تھا اس کی بنیاد
مغربی تعلیمی نظام کو مسترد کرنے پر ہے۔
اسلام میں ہر چیز کی طرح
یہ منطق بھی اس بات کی تشخیص کا نتیجہ تھی کہ مسلمانوں نے کیوں کئی صدیوں تک
'حکمران' رہنے کے بعد انگریزوں کے ہاتھوں اقتدار کھو دیا۔ انہوں نے ابدالی کو ہندوستان
پر حملہ کرنے کی دعوت دینے سے لیکر 1857 میں انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے تک
باقی سب کچھ آزما لیا تھا۔ اس طرح کی کوششوں میں ناکامی کے بعد ہی افکار و نظریات
کی سطح پر برٹش سامراج کو شکست دینے کیلئے دارالعلوم دیوبند قائم کیا گیا تھا۔
Daily
life in Kabul in 1988, one year before civil war broke out. Patrick
Robert/Sygma via Getty Images
-----
دیوبند کے قیام کے لیے
سیاسی تحریک شاہ ولی اللہ کی تحریروں میں موجود ایک مضبوط نظریے سے پیدا ہوئی تھی۔
انہوں نے ظاہری اور باطنی خلافت میں فرق کیا اور یہ دلیل دی کہ اگر چہ ظاہری خلافت
نافذ نہیں کی جا سکتی کیونکہ مسلمانوں نے سیاسی طاقت کھو دی ہے لیکن علماء تعلیم
کے ذریعے باطنی خلافت کے علمبردار بن سکتے ہیں۔ چنانچہ اگرچہ مسلمان ظاہری طور پر
انگریزوں کی زیر تسلط ہیں لیکن دیوبند کی تشریح کے مطابق مسلمانوں کا باطن ہمیشہ اسلام
کے سامنے جوابدہ ہو گا۔ لہٰذا مدرسہ صرف ایک تعلیمی ادارہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ
بنیادی طور پر ایک سیاسی ادارہ ہے جو مغربی بالادستی کی مزاحمت کے لیے بنایا گیا
ہے۔
لہذا جب طالبان کے عبوری
وزیر برائے اعلیٰ تعلیم عبدالباقی حقانی نے یہ کہا کہ جو بھی چیز اسلامی تعلیمات
کے خلاف ہو وہ افغان نصاب کا حصہ نہیں ہوگی تو انہوں نے اپنی تعلیمات کے ساتھ
ایمانداری کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اس موجودہ تعلیمی نظام کی تنقید کی جسے 'بین
الاقوامی برادری' (مغربی طاقتوں) نے تیار کیا ہے اور اسے 'اسلامی اصولوں کی
پاسداری' میں ناکامی قرار دیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ 'تعلیمی نظام سے
اسلام کے خلاف ہر شے کو ہٹا دیا جائے گا'۔ یہ اسلامی نصاب شریعت کے تحت چلایا جائے
گا اور 'مردوں اور عورتوں کو اختلاط کی اجازت نہیں ہوگی'۔
اب یہ کسی بھی ملک کے حق
میں ہے کہ وہ اپنا ایک ایسا تعلیمی نصاب وضع کرے جس سے قومی تحفظات کی عکاسی ہو۔
تاہم، اس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ یہ عمل آبادی کے کسی بھی طبقے کی ترقی میں
رکاوٹ بن جائے۔ طالبان نے یہ واضح کر کے کہ وہ شریعت کے مطابق چلیں گے، اپنی
خواتین کے تعلیمی مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ طالبان کے اس بیان پر غور کریں
کہ 'مردوں کو خواتین کو پڑھانے کی اجازت نہیں ہوگی' کیونکہ اس سے شرعی قوانین کی
خلاف ورزی ہو گی۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب تعلیم کی ہر سطح پر خواتین اساتذہ کی
کافی تعداد موجود ہو جو کہ نہیں ہے۔ اس پالیسی کا واحد نتیجہ خواتین کو تعلیم سے
محروم کرنا ہوگا اور اس طرح انہوں نے جو کچھ بھی تھوڑا بہت حاصل کیا ہے اسے کھو
دینگی۔
اس سے ہمیں حیرت نہیں
ہونی چاہیے کیونکہ وہ انکے اپنے فلسفے کے عین مطابق ہے۔ بہر حال دیوبند کا کبھی یہ
ماننا نہیں رہا ہے کہ خواتین کی تعلیم نسواں ضروری ہے اور کچھ دیوبندی علماء اس
نظریے کے مخالف تھے۔ ہندوستانی مسلمان طالبان پر تنقید کرتے ہیں لیکن اسی فکر کے
لیے دیوبند پر تنقید نہیں کرتے۔
بہر کیف، دیوبند کے
بانیوں میں سے ایک قاسم نانوتوی نے یہ کہا ہے کہ مغربی علوم حاصل کرنے میں کوئی
فائدہ نہیں ہے حتی کہ اسے رد کرنے کی نیت سے سیکھا جائے۔ طالبان کا اصرار کہ
تعلیمی نظام میں کوئی بھی چیز اسلام کے خلاف نہیں ہونی چاہیے صرف اسی نظریے کا
احیائے نو ہے۔ بدقسمتی سے طالبان واحد جماعت نہیں ہیں جو اس طرح کے خیالات رکھتے
ہیں۔ در اصل اس طرح کے خیالات نہ صرف مسلم جماعتوں میں وسیع پیمانے پر مقبول ہیں
بلکہ اس طرح کے خیالات کی کسی نے بھی
سنجیدگی سے چیلنج پیش نہیں کیا۔
مثال کے طور پر بوکو حرام کو ہی دیکھ لیں۔ لاکھوں افراد اس تحریک کے رکن ہیں جس کا
محور یہ نظریہ ہے کہ "مغربی تعلیم کو مسترد کیا جائے"۔
اگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ
سنگین مثالیں ہیں تو آئیے ہم نام نہاد مین اسٹریم مسلم جماعتوں کو دیکھتے ہیں۔
ہندوستان میں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ دیوبندی 'روایت پسند' ہیں اس لیے انہیں جدید
مغربی تعلیم سے پریشانی ہے۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جماعت اسلامی کے
بانی مودودی بھی یہی خیالات رکھے تھے اور یہاں تک کہ انہوں نے ایم اے او کالج جیسے
اداروں کو بھی ’’ مسلم ذہنیت کا مقتل‘‘ قرار دیا تھا۔ آج ان کے پاس ایسے اسکولوں
کا ایک نیٹ ورک ہے جس میں جدید تعلیم دی جاتی ہے لیکن پھر بھی ان کا زور اسلامی
طریقے سے تعلیم حاصل کرنے پر ہے۔ سیکھنے کا یہ اسلامی طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟
طالبانی نظام تعلیم کی طرح جس میں مخلوط تعلیم ممنوع ہے اور لڑکیاں چھوٹی عمر سے
ہی حجاب پہننے پر مجبور کی جاتی ہیں۔ ایسے اسکول سے فارغ التحصیل ہونے والا طالب
علم نظریہ ارتقاء کے بارے میں جان تو سکتا ہے لیکن وہ اس پر یقین نہیں کرے گا
کیونکہ 'تعلیم کا اسلامی طریقہ' اسے بتائے گا کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمام
جانداروں کو اس مقصد کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں۔ یہ کہنے کی
ضرورت نہیں کہ ایسے اسکول انجینئروں اور ڈاکٹروں جیسے ٹیکنیشن تو پیدا کریں گے
لیکن محققین یا سائنسدان پیدا کرنے سے قاصر رہیں گے۔
A
woman holds a placard as Afghan migrants demonstrate against the Taliban
takeover of Afghanistan, on the island of Lesbos, Greece. (REUTERS)
------
روایتی اسلام کی وجہ سے
مسلم ذہنوں کی محدودیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کیوں پوری مسلم دنیا میں ہمارے پاس
شاید ہی کوئی ایسا ادارہ ہو جو کہ بنیادی سائنسی تحقیق کے لیے وقف ہو نہ تو خالص
سائنس میں نہ ہی سماجی سائنس میں۔ پرویز ہوڈبھوئے کا کہنا ہے کہ یہ نہ صرف سائنس
بلکہ مسلمانوں کے ذہن کی بھی بگاڑ کے مترادف ہے جو کہ ایک زمانے میں سائنسی دنیا
کے لیڈر تھے۔
طالبان صرف پوری مسلم
دنیا کی اکثریت کے معمولات و معتقدات ایک عجیب ترین مثال ہے۔ میں یہ سمجھنے سے
قاصر ہوں کہ کوئی طالبان پر تنقید اس بات کی نشاندہی کیے بغیر کیسے کر سکتا ہے کہ
اس حالت زار نے پوری اسلامی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہمیں یہ بتانے سے
کون سی چیز مانع ہے کہ جب جدید تعلیم کی بات آتی ہے تو طالبان اور دیوبندیوں میں
زیادہ فرق نہیں ہے۔
کسی بھی علم کو اسلامی یا
مغربی ماننے میں ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر عددی صفر لیں۔ اس تصور کی
ارتقاء اور استعمال ہندوستانیوں بلکہ عربوں اور یورپی باشندوں کی مرہون منٹ ہے۔
پھر ہمیں صفر نمبر کو کیا کہنا چاہیے: ہندوستانی، عربی یا یورپی؟ ’’ اسلام کے
سنہرے دور ‘‘ پر فخر کرنے والے مسلمان یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ درحقیقت یونانیوں کی
طرف سے دنیا کو پیش کئے گئے علمی نظام کو فروغ دے رہے تھے۔
پوری دنیا پہلے ہی اس بات
کو سمجھ چکی ہے کہ علم ہی ایک ایسا سر چشمہ ہے جو پوری انسانیت کو فائدہ پہنچا
سکتا ہے۔ میں نے کبھی کسی جین یا یہودی کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ ہمارا ایک
تعلیمی نظام ہونا چاہیے جو صرف ہمارا اپنا ہو۔ ایسا کیوں ہے کہ صرف مسلمان ہی
اصرار کرتے ہیں کہ ان کا اپنا ایک تعلیمی نظام ہونا چاہیے؟
Urdu Article: Modern Education, Taliban and the Muslim World
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism