ارشد عالم، نیو ایج اسلام
4 جنوری 2017
قومی کمیشن برائے حقوق اطفال (NCPCR) کی حالیہ سفارشات ایک خوش آئند قدم ہے جس میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ مدارس اور ویدک اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کو ریاضی، سائنس اور سماجی علوم جیسے دیگر معاصر مضامین کی بھی تعلیم دی جانی چاہئے۔ آخر کار ہندوستان حقوق اطفال کے معاہدوں پر دستخط کرنے والا ایک ملک ہے، لہٰذا اس ملک کے پالیسی سازوں کو حقوق اطفال کے بارے میں ایک حساس رویہ اختیار کرنا چاہئے جس میں ان کے وہ تعلیمی امور بھی شامل ہیں جو وہ مدارس اور اور ویدک اسکولوں جیسے دیگر تعلیمی اداروں میں حاصل کرتے ہیں۔ تاہم، یہ امر متحقق ہے کہ مسلمانوں کی تعلیم کے معاملے میں مدارس کے حوالے سے دیگر اقدامات کی ہی طرح پالیسی کی ان سفارشات کو بھی مسلم جماعتوں کی مخالفت کا سامنا ہو گا۔ اگر ‘‘ایچ آر ڈی’’ (Ministry of Human Resource Development) نے ان سفارشات کو قبول کر لیا تو اس پر سیکولرازم کو خطرے میں ڈالنے اور کمیونٹی کے ‘داخلی معاملات’ میں دخل اندازی کے الزامات عائد کئے جائیں گے۔ اور یہ در حقیقت بڑے افسوس کی بات ہے۔
زیادہ تر سروے ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ مدارس کی تعداد ویدک اسکولوں سے کافی زیادہ ہے۔ اسی لیے اس سفارش کا حقیقی انطباق انہیں مدارس پر ہوتا ہے، نیز اس کا انطباق خاص طور پر ان مدارس پر ہوتا ہے جو اپنے طالب علموں کو ایسے مضامین کی تعلیم بہت کم ہی دیتے ہیں جو عصر حاضر میں اہمیت و افایت کے حامل ہو سکتے ہیں۔ اس امر سے اکثر لوگ واقف ہیں کہ ایسے مدارس کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو کسی بھی مدرسہ بورڈ سے منسلک نہ ہونے کی وجہ سے مکمل طور پر غیر منظم اور غیر منضبط ہیں۔ اور اس طرح کے ارباب مدارس اپنے اختیارات کا اکثر ان معنوں میں غلط استعمال کرتے ہیں کہ وہ نصابِ تعلیم اور نظامِ تعلیم کے معاملے میں مدارس بورڈ کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ زیادہ تر ان مدارس میں کہ جنہیں آزاد مدارس کہا جاتا ہے، بنیادی طور پر دینیات کی تعلیم دی جاتی ہےجو بنیادی طور پر صدیوں پرانی کتابوں کا ایک مجموعہ ہے۔ یہاں تک کہ ان مذہبی مضامین میں بھی ان مباحث کو کوئی جگہ نہیں دی جاتی ہے جن کا تعلق روزمرہ کےمسائل سے ہے۔ اور اس قسم کے نظامِ تعلیم کا مقصد مضامین کے مقتضیات اور اس کی نزاکتوں پر غور و فکر کئے بغیر انہیں صرف زبانی طور پر رٹ کر یاد کر لینا ہے۔
اس سے قبل گزشتہ حکومت نے آل انڈیا مدرسہ بورڈ کی تشکیل کر کے ایسے تمام مدارس کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی تھی۔ یہ ایک اچھا منصوبہ تھا، لیکن مختلف مفادات کے پیش نظر اس سمت میں کوئی پیش رفت نہیں کی گئی اور آخر کار یہ تجویز سرد بستے میں چلی گئی۔ اس تجویز میں دلچسپ بات یہ تھی کہ خود مسلمانوں نے اس تجویز کا مسودہ تیار کیا تھا۔ لیکن اکثر حکومتوں کے لئے چند مسلمانوں کے مفادات دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ اصلاح پسند مسلمانوں کی جانب سے اس بے باک تجویز پر علماء کی مزاحمتوں اور مخالفتوں کے پیش نظر اسے ملتوی کر دیا گیا۔
تعمیر و ترقی کے لحاظ سے ہندوستانی مسلمان دیگر تمام برادریوں سے بہت پیچھے ہیں۔ مسلمانوں کی پسماندگی اور اس قابل افسوس صورت حال کی بنیادی وجوہات میں ایک وجہ اسکولوں سے لیکر اعلی تعلیم کے حصول تک ان کی تعلیمی محرومی ہے، اور اس معاملےمیں مسلمان زبردست پسماندگی کا شکار ہیں۔ خود اسکولی تعلیم کی سطح پروہ بڑی پریشانی کا شکار ہیں۔ اور اس کے باوجود کئی دہائیوں سے مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی قیادت اسے امت مسلمہ کے لئے ایک مسئلہ ماننے کو تیار نہیں ہے۔ ان کی سیاست کا غیرمتوازن معمول یہ ہے کہ صرف مذہب کے مسائل ان کے لئے اہم ہیں۔ کہ اگر انہیں صرف عبادت میں ہی زندگی بسر کرنے کا موقع مل جائے تو انہیں اس دنیا میں کسی اور مادی مسائل کا سامنا نہیں ہوگا۔ اور شاید ان کی یہ افسوس ناک صورت حال آج تک یہی ہے، اس لئے کہ اب تک مسلمانوں نے اپنے علاقوں میں بہتر تعلیم اور اچھے معیار کے اسکولوں کے مطالبہ میں کوئی عوامی تحریک نہیں شروع کی ہے۔
نیز مسئلہ یہ بھی ہے کہ اب تک کی تمام حکومتوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں علماء کی رجعت پسندانہ تفہیم اور تعبیر و تشریح امت مسلمہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ لیکن اگر ایسا ہے تب بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کا ایجنڈا کیا ہونا چاہئے: کیا حکومت اس کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دے گی یا منفی پروپگنڈے کے باوجود حکومت وہی کرے گی جو صحیح ہے۔ حقِ تعلیم ایکٹ نے مذہب سے قطع نظر ہر بچے کو اسکولوں میں کیا پڑھایا جانا چاہئے اس کی ایک عام تفہیم پیدا کرنے کے لئے ایسا ہی ایک موقع فراہم کیا۔ ایک بار پھر مسلم قیادت نے اس تجویز کو چیلنج کیا اور اس ایکٹ میں مضمرمسلمانوں کی تعلیمی سطح کو بلند کرنے کے ایک اور موقع کو ضائع کر دیا۔ آج ہم ممکنہ طور پر ایسی غیر قانونی صورت حال کا شکار ہیں جس میں مختلف مدارس میں زیر تعلیم لاکھوں مسلمان بچوں پر RTE کے دفعات جاری نہیں ہوتے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم سب نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ وہ اس ملک کے برابر شہری نہیں ہیں اور شاید اسی لئے ان کے حقوق کو پامال کیا جا سکتا ہے۔
NCPCR کی یہ سفارش مسلم کمیونٹی کے لیے ایک اور موقع ہے۔ اس مرتبہ مدارس میں زیر تعلیم مسلمان بچوں کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ ایک غیر سیاسی انداز میں اس پر غور و فکر اور بحث و مباحثہ کی جانی چاہئے۔ لیکن پہلے ہی لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو چکا ہے کہ مسلم قیادت سے اس کی توقع رکھنا بہت بڑی بات ہے۔ حالات کا اشارہ بھی یہی ہے کہ اس تجویز کا انجام بھی اسی نعرے پر ہوگا کہ اسلام خطرے میں ہے۔
ارشد عالم نیو ایج اسلام کے ایک کالم نگار ہیں
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/madrasas-failure-muslim-leadership/d/109598
URL: https://newageislam.com/urdu-section/madrasas-failure-muslim-leadership-/d/110407
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism