ارشد عالم، نیو ایج اسلام
18 نومبر 2016
حال ہی میں اجمیر کے اندر منعقد ہونے والے جمعیت علمائے ہند کی کانفرنس سے دو چیزیں سامنے آئی ہیں۔ پہلی چیز ہندوستانی مسلم کمیونٹی کے اندر فرقہ وارانہ تقسیم سے لڑنے کا مطالبہ ہے جبکہ دوسری چیز یہ ہے کہ کانفرنس میں دلت مسلم اتحاد کے لیے بھی آواز بلند کی گئی۔ کانفرنس میں مسلم کمیونٹی کو متاثر کرنے والے مذہبی اور سیاسی مسائل سے متعلق دیگر قرارداد بھی منظور کیے گئے۔ لیکن اوپر مذکور دو ایجنڈوں کو مرکزی دھارے کی میڈیا کے اندر خوب مقبولیت اور ہمدردی حاصل ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تمام مقاصد اپنے آپ میں انتہائی اہم ہیں لیکن یقینی طور پر اس کی باریکی کے ساتھ جانچ بھی کی جانی چاہیے کہ جمعیت کے پاس ان مقاصد کو پورا کرنے کے لئے نظریاتی اور سیاسی دلیل ہے یا نہیں۔
فرقہ وارانہ اتحاد کی مانگ ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ امت مسلمہ داخلی طور پر شیعہ اور سنیوں کے درمیان تقسیم کا شکار ہے۔ سنیوں کے درمیان مزید دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث جیسی مسلکی تقسیم بھی ہے۔ یہ محض سطحی تقسیمات نہیں ہیں بلکہ برصغیر ہندوستان میں ان کی نظریاتی جڑوں کی تقریبا 150 سالہ پرانی تاریخ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کے اندر فرقہ بندی کی یہ روایت خود دیوبندیوں نے شروع کی ہے انہوں نے اپنی مختلف مطبوعات اور خطبات کے ذریعے اپنے اس نظریہ کی اشاعت کی کہ بریلوی کامل مسلمان نہیں ہیں۔ انہوں نے اس پر اپنی دلیل کی بنیاد مزارات پر حاضری دینے کی سنیوں کی روایت پر رکھی اور دیوبندیوں نے ان کے اس معمول کو اس بات کا "ثبوت" قرار دیا کہ بریلویوں پر ہندو اثر و رسوخ کا غلبہ ہے۔ تصوف کے گہرے فلسفہ کو بااثر دیوبندیوں نے قبر پرستی کا نام دے دیا۔ یہاں تک کہ ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان پیدائش اور موت کے موقع پر ادا کی جانے والی بظاہر غیر مضرت رساں روایتی رسومات کو بھی اسلامی ثقافت کے دائرے میں لانے کی کوشش کی گئی؛ جو کہ اس عقیدے کی بنیاد پر ہر ہندوستانی رسوم و روایت کو مسترد کرنے کا ایک آسان ہتھکنڈہ ہے کہ عربی روایات ہندوستانی رسوم و روایات کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر اور ارفع و اعلیٰ ہیں۔ اب دیوبندیوں کی ایک تنظیم کے طور پر جمعیت علماء انہیں بریلویوں کے ساتھ مشترکہ اقدار کا اشتراک کرنا چاہتی ہے جنہیں انہوں نے ماضی قریب میں ہی ناقص مسلمان قرار دیا تھا۔ کیا یہ کوئی اچھی شروعات معلوم ہوتی ہے؟
اس کے جواب میں بریلویوں نے دیوبندیوں کو سعودی عرب کے وہابیوں سے نظریاتی طور پر متاثر قرار دیا اور یہ کہا کہ وہ صحیح معنوں میں مسلمان نہیں ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ کسی دیوبندی عالم کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے اس لیے کہ دیوبندی مسلمان نہیں ہیں۔ خود احمد رضا نے نےاپنے ایک فتویٰ میں دیوبندیوں کو کافر قرار دیا اور انہیں ایک ایسی قوم کہا کہ جن کے ساتھ کسی بھی قسم کا مذہبی اتحاد قائم کرنے سے باز چاہئے۔ کیا آج توقیر رضا کی قیادت میں بریلوی یہ بھول جائیں گے کہ خود ان کے اپنے نظریہ سازوں نے ایک صدی قبل ان کے بارے میں کیا لکھا ہے؟ دونوں فرقوں کے درمیان خلاء کو پر کرنے میں ان کی حالیہ کوشش یقینا قابل ستائش ہے۔ دیوبند ان کے ذاتی دوروں کی وجہ سے ہی اس طرح کا ایک اتحاد ممکن ہو سکا ہے۔ لیکن یہ سوال اب بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ "کیا یہ دونوں فرقے ایک دوسرے کے مقابلے میں اپنے فقہی موقف پر نظرثانی کرنے کے لیے تیار ہیں" اور کیا وہ اپنے ان بڑے بڑے علماء کے خلاف جانے کے لیے تیار ہیں جنہوں نے ایک دوسرے کے خلاف کتابیں لکھی ہیں اور تقریر کی ہیں؟ حاصل کلام یہ ہے کہ کیا کسی دیوبندی کے لیے اشرف علی تھانوی کے اس دعوی کو غلط قرار دینا ممکن ہو گا کہ بریلوی سچے مسلمان نہیں ہیں؟ اور کیا بریلوی کھل کر لئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ دیوبندیوں کے خلاف احمد رضا خان اور ارشد القادری کی تحریریں اب افادیت بخش نہیں رہیں اور ان کے یہ فیصلے غلط تھے؟
ایک پلیٹ فارم پر اکٹھہ ہونا اور دنیا کے سامنے یہ اعلان کرنا کہ ہندوستانی مسلم کمیونٹی متحد ہے ایک بہت اچھی بات ہے۔ اور ایک دوسرے کے خلاف اپنی تاریخی اور نظریاتی غلطیوں کا اعلان کرنے کے مترادف ہے۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ ایسا کرنا نہایت مشکل ہو گا ہے۔ اس لیے کہ یہ صرف کچھ رسمی اختلافات کی بنیاد پر پیدا ہونے والی کوئی تقسیم نہیں ہے۔ بلکہ ان کا تعلق اس بارے میں بنیادی عقائد سے ہے کہ ایک سچے مسلمان کی بنیاد اور اس کے شرائط کیا ہیں۔ ان اختلافات کا تعلق خود پیغمبر اسلام کی تفہیم کے ساتھ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اختلافات کا مطلب یہ ہے کہ بنیادی طور پر خود مسلمان ہونے کے طریقوں میں اختلافات ہیں اس لیے کہ ہر مومن مسلمان اپنا ماڈل اور نمونہ حیات خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بناتا ہے۔ لہٰذا،امت مسلمہ کے اندر ایک دوسرے کو مشرک کہنے والے ان دو فرقوں کے لیے کیا یہ ممکن ہو گا کہ وہ متحد ہو جائیں اور اپنے ماضی اور حال کے اختلافات کو بھلا دیں؟
یہ دونوں فرقے ایک ادارہ جاتی تنظیم کی حیثیت بھی رکھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مساجد اور مدارس کا ایک منظم نظام بھی چلاتے ہیں۔ لہٰذا، اگر وہ اپنے اختلافات کے بارے میں کچھ کرنے کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں سب سے پہلے اس کی شروعات مدارس سے کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ انہیں مدارس کے ذریعہ ان اختلافات کو طالب علموں اور عام مسلمانوں کے ذہنوں میں اتارا جاتا ہے۔ ان کتابوں کو کیوں نہ خارج کر دیا جائے جن میں ایک دوسرے فرقے گمراہ قرار دیا گیا ہے۔ کیا یہ بریلوی اور دیوبندی علماء کے لیے ممکن ہو گا کہ وہ متحد ہو کر ایک ایسا نصاب تیار کریں جو دیوبندیوں اور بریلویوں دونوں کے مدارس کے لئے عام ہو؟ جب تک یہ نہیں ہوتا ہے تب تک ان دونوں فرقوں کا قریب آنا صرف ایک دکھاوا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/jamiat-conference-mirage-deobandi-barelvi/d/109134
URL for this article: