ارشد عالم ، نیو ایج اسلام
12 مئی 2021
یہ شیخ جراح میں چل رہے زمین ہڑپ سے توجہ ہٹانے کے لیے ہے۔
اہم نکات:
فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ یکطرفہ اسرائیلی حکومت کی دست درازی ہے۔
اس کو ’تنازعہ’ یا ‘تصادم’ کہنا غلط طور پر اسرائیل اور فلسطین کے ما بین
برابری اور ہمواری پیدا کرنے کی چالاک کوشش ہے۔
ٹھیک ہے حماس سے کوئی فائدہ
نہیں ہوا لیکن فلسطینیوں کو بھی تو اپنے دفاع کا حق ہے۔
اس موقع کو نیتنیاہو اپنی حکومت کو طول دینے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔
An Israeli activist tries to hang a poster on a steel
gate protecting the demolished site of the Shepherd Hotel in occupied East
Jerusalem's Sheikh Jarrah on 14 January 2011 (AFP/File photo)
-----
شیخ جراح کےایک وائرل ہو
رہے ویڈیو میں میں فلسطینیوں کے گھر پر
قبضہ کرتے ہوئے ایک یہودی آباد کار کو دکھایا گیا ہے۔ اس مختصر ویڈیو میں فلسطینیوں کی زمین پر
اسرائیل کے ناجائز قبضے کے لئے ہر روز ہونے والے تشدد کی ایک جھلک دکھ رہی ہے۔ ویڈیو سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے
کہ دنیا کے اس حصے میں یہودی سچ میں فلسطینیوں کے گھروں میں گھس کر ا نہیں اپنا پیدائشی حق سمجھ کر غصب کرسکتے ہیں ۔ اس ویڈیو میں ایک قدامت پسند
یہودی کو ایسا ہی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے: وہ ایک فلسطینی کے مکان کا معائنہ کر
رہا ہے جس پر وہ قبضہ کرنے والاہے۔ایک فلسطینی خاتون کے ٹوکےجانے پر ، یہودی
بالکل صاف طور پر بڑے اطمینان سے اس سے
کہتا ہے کہ اگر وہ اس پر قبضہ نہیں کرے گا
تو کوئی اور کرلےگا۔ بلکہ اس درندہ صفت یہودی کو اس بات سے تھوڑی حیرت بھی ہوتی ہے کہ آخریہ فلسطینی
خاتون اس کو ٹوک ہی کیوں کررہی ہے۔ یہ تو
بالکل ایسے ہی ہے جیسے فلسطینی مثالی طور پر ’غیر انسان‘ ہوں، جسے آپ اپنے ضمیر
پر کوئی بوجھ محسوس کیے بغیر یوں ہی بکھیر
سکتے ہوں۔ مختصراً،وہ یہودی یہ کہہ رہا ہے کہ فلسطینیوں کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے:
انہیں اپنی زمینیں یہودی ریاست کے اخلاقی
دیوالیہ پن کے شکار استعماری آبادکارکے
حوالے کرنا پڑے گی۔ سیاسی طور پر غلط ہونے کے احساس کے ساتھ مجھے یہ بھی کہنے دیا
جائے کہ ویڈیو میں دکھ رہے آدمی میں ایک اور بھی گھٹیا پن نظر آتاہے، وہ یہودی آبادکار کافی بھدا موٹا یعنی اوور فیڈ ہے اور ادرک کی طرح بے ہنگم طور پر کہیں سے بھی
بڑھا ہوا ہے۔ پھر بھی وہ ان لوگوں کی
زمینیں غصب کررہا ہے جو اپنی زندگی کے روز مرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے
جدوجہد کر رہے ہیں۔
فلسطینی خاتون کی پوشیدگی
سے یہ بے شرمی اور بھی سنگین ہوجاتی ہے ، کیونکہ ویڈیو میں ہم اس
فلسطینی خاتون کا چہرہ نہیں دیکھ پا رہے
ہیں ۔ ایسا لگتا ہے جیسے اسرائیلی تشدد اور تکبر کے پیچھے مسئلہ فلسطین کہیں پوشیدہ ہو گیا ہے یا دب گیا ہے۔ اس چھوٹی سی ویڈیو سے ہی اسرائیل اور
فلسطین کے بیچ طاقت کی نا ہمواری کا صاف
صاف پتہ چل رہا ہے ، لیکن یہ انتہائی آسان
حقیقت بھی اس مسئلے پر میڈیا کے غالب بیانیہ کا حصہ نہیں بن پا رہاہے۔ اس کو ’تصادم‘ یا
’تنازعہ کا نام دے کر سیاسی تجزیہ کار اسرائیلی ریاست اور فلسطینیوں کے مابین غلط طور پر برابری اور ہمواری پیدا کر رہے ہیں۔ ہلاک
اور زخمی ہونے والوں کی تعداد پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی یہ بات بالکل واضح
ہوجاتی ہے کہ یہ بڑی حد تک اسرائیل کی یکطرفہ زیادتی ہے ۔ اب تک ، تقریبا۳۶ فلسطینی ہلاک ہو چکے
ہیں، جس میں ۹
بچے بھی شامل ہیں اور سیکڑوں کی تعداد میں زخمی ہیں، جبکہ دوسری طرف سے پانچ افراد
کے ہلاک ہونے کی خبر ہے۔ اس طرح کی ہر موت ناقابل تلافی ہے لیکن اس سے یہ استدلال
کرنا کہ یہ دو فریقین کے مابین کسی ’تنازعہ‘ کا نتیجہ ہے ،مضحکہ خیز ہے۔
لیکن بات صرف اسرائیل اور
فلسطین کے بیچ غلط طور پر طاقت کی ہمواری اور برابری دکھانے پر ہی نہیں رکتی ، بلکہ ، فلسطینیوں پر تشدد
کا الزام بھی لگایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ حماس نے ہی پہلے راکٹ فائر کیا تھا
۔ اس طرح کی شیطانیت بھری جھوٹی خبروں سے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ
اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہے ، لیکن
وہیں پر یہ بات نہیں مانی جاتی ہے کہ فلسطینیوں کو بھی اپنے دفاع کا حق ہے۔ یہ سچ
ہے کہ حماس نے پہلے وہ راکٹ فائر کیے تھے جس جواب میں اسرائیل کی طرف سے انتقامی
فائرنگ کی گئی ۔ حماس کو ایسا نہیں کرنا
چاہئے تھا ۔ اس کو مزاحمت کے بہتر متبادل کے بارے میں سوچنا چاہئے تھا اور ایسی کوئی
حکمت عملی تو بالکل اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا جس سے فلسطینی عوام اسرائیل کے غیظ و غضب کا شکار بنیں۔ تاہم ، یہ
سچ نہیں ہے جیسا کہ بتایا جا رہا ہے کہ حماس نے اسرائیل کو ‘اکسایا’ تھا ۔ سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل نے پہلے اکسایا
تھا کیونکہ مسجد اقصی کے اندرگھس کر دستی
بم پہلے اس نے ہی پھینکا تھا جس سے ۳۰۰ نمازی
زخمی ہو گئے جو وہاں رمضان کے مقدس مہینے
میں محض نماز پڑھ رہے تھے۔
لیکن اسرائیلی فوج نے
اسلام کی تیسری مقدس مسجد پر حملہ کیوں کیا؟
اس سوال کا جواب شیخ جراح کے علاقے میں ہے جس کا اسرائیل نے 1967 میں غیر قانونی طور پر الحاق
کر لیا تھا اور اب اپنی عدالتوں کے ذریعہ فلسطینی
خاندانوں کو بے دخل کر کے ان کی زمینیں اور مکانات یہودی آباد کاروں کو دے رہا ہے
۔ فلسطینی اس دست درازی کی خلاف مزاحمت کرتے رہے ہیں ، مذکورہ بالا ویڈیو وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی کھلی شہادت ہے۔ اس مزاحمت کو توڑنے کے لئے ،
اسرائیل نے ایک سوچھی سمجھی سازش کے تحت مسجد اقصیٰ پر حملہ کیا تھا ۔ یہ حملہ صرف لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے نہیں تھا
بلکہ یہ دھمکی بھی تھی کہ اگر فلسطینیوں نے شیخ جراح
میں اپنی زمینیں نہیں چھوڑیں تو اسرائیلی ان کے مقدس
مقام مسجد اقصی پر بھی قبضہ کر لیں گے ۔ لیکن اس حملہ سے فلسطینیوں
کی جدوجہد کمزور نہیں ہوئی بلکہ
ایسا لگتا ہے کہ اس میں مزید تیزی آ گئی ہے ۔ اب صرف یروشلم اور غزہ میں ہی نہیں بلکہ پورے
فلسطین میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ اس وقت غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ سیدھے طور پر اسرائیلی
جارحیت کا نتیجہ ہے اور تنہا اسرائیل ہی تمام ہلاکتوں کا ذمہ دار ہے۔ اس کہانی کا کوئی
دو سرا پہلو نہیں ہے۔ صرف ایک پہلو ہے، اور وہ ہے ہلاکت و بربادی سے اسرائیل کی عشق کی داستان ۔
فلسطینیوں کے خلاف
اسرائیلی جرائم اساسی بنیادوں پر قائم رہا ہے: اسرائیلی ریاست کا پہلا کام ہزاروں
عربوں کو اپنے علاقوں سے بے دخل کرنا تھا ، آج ہمیں بتایا جاتا ہے کہ لد شہر میں عرب 'فساد'
کررہے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بتایا جارہا ہے کہ یہی شہر کئی دہائیوں قبل لدہ نامی ایک عرب شہر تھا۔ ۱۹۴۸
میں جب اسرائیل نے اس پر قبضہ کیا تو وہاں
کے مسلمانوں کو 'موت کے مارچ ' پر بھیج دیا گیا بالکل ویسے ہی جیسے کہ نازی جرمنی نے کبھی یہودیوں
کے ساتھ کیا تھا ۔ مسلمانوں کی منظم نسل کشی اب ایک
انتہائی غیر محفوظ وزیر اعظم انجام دے رہا
ہے جو ہر قیمت پر اپنا اقتدار برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ہمیں یہ بھی ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ اسرائیل
میں نیتن یاہو پر غبن اور رشوت خوری جیسے کئی بدعنوانی کے الزامات کے تحت مقدمے چل رہے
ہیں۔ اگر وہ کیس ہار جاتا ہے تو ، اسے بھی اپنے پیش رو کی طرح جیل جانا ہوگا۔
اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے ، اس نے
یہودیوں کے سب سے کٹر طبقے کو بااختیار بنادیا ہے ، صہیونی مذہبی جماعت کے ارکان فلسطینیوں
کو دھمکاتے ہیں ، ان کی جائداد وں کو
لوٹتے اور برباد کرتے ہیں۔ ان سب کے باوجود ،
نیتن یاہو ایک مستحکم اتحاد بنانے
میں میں ناکام رہا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس موجودہ بحران سے اس کو کافی فائدہ ہو۔ اگر کوئی قومی ہنگامی
حکومت بنتی ہے تو یقینا نیتن یاہو ہی اس کا سربراہ ہوگا اور اس طرح اقتدار پر اپنی گرفت کو مزید طول دے
سکے گا۔
نیتن یاہو ہلاکت و تباہی سے فائدہ اٹھا نے والے پہلے
سیاستدان نہیں ہوں گے اور یقینا آخری بھی نہیں ۔ اور اس وقت تک بالکل نہیں ، جب تک
نہ عالمی برادری بیدارہو کر اسرائیل کی ظالم حکومت سے اس کے جرموں کا حساب مانگے ۔لیکن
ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے ، کیونکہ عالمی برادری تو دور ،عرب ریاستیں بھی اسرائیل
کی نظروں میں اچھا دکھنے
کی خاطر گھٹنوں کے بل رینگ رہے ہیں۔
ارشد عالم نیو ایج اسلام
ڈاٹ کام کے کالم نگار ہیں۔
URL for English article: https://www.newageislam.com/islam-politics/israel-palestine-al-aqsa-siege/d/124821
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/israel-palestine-behind-siege-al/d/124828
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism