New Age Islam
Tue Oct 15 2024, 11:57 PM

Urdu Section ( 9 Sept 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Instant Triple Talaq Judgment and After تین طلاق پر فیصلہ اور اس کے بعد


ارشد عالم، نیو ایج اسلام

28 اگست 2017 

یکطرفہ طور پر اپنی بیوی کو طلاق دینے کا مسلم مرد کا حق ایک نشست میں تین طلاق کا عمل اب تاریخ کی نذر ہو چکا ہے۔ ملک کی اعلی ترین عدالت نے اسے غیر آئینی اور مساوات کے حق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ واضح طور پر ان تمام مسلم مردوں اور عورتوں کے درمیان خوشی کی ایک لہر موجود ہے جن لوگوں نے ایک نشست میں تین طلاق کے عمل کے خلاف مہم کا آغاز کیا تھا۔ بھارتیہ مسلم مہیلا اندولن (بی ایم ایم اے) جیسی تنظیم اور دیگر بے شمار مسلم خواتین کو اس معاملے پر اتنے طویل عرصے تک اس مضبوط مہم کو جاری رکھنے اور نہ صرف مختلف حکومتوں سے بلکہ مسلم رہنماؤں کی جانب سے بھی بے شمار مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنے پر مبارکباد دی جاسکتی ہے۔ ہندوتوا بریگیڈ کے ایجنٹ کہے جانے سے لیکر غیر مسلم قرار دئے جانے تک ان خواتین نے اپنی ہی برادری کے لوگوں کی جانب سے تعصب و تنگ نظری اور لعن طعن کا پوری بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا اور یہ خواتین اپنے اس یقین پر ثابت قدم رہیں کہ اب مسلم پرسنل لاء کو بہتر کرنے کا وقت آ چکا ہے۔

یہ جاننا کافی دلچسپ ہے کہ طلاق پر مسلم قانون کو بہتر بنانے کے حق میں اٹھنے والی آوازیں اس سے کہیں زیادہ پرانی ہیں جتنا کہ عام طور پر گمان کیا جاتا ہے۔ 1920 کی دہائی میں آل انڈیا مسلم لیڈیز کانفرنس نے اپنے ایک سالانہ کانفرنس میں ایک نشست میں تین طلاق کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ ان کی دلیل اس وقت بھی ایسی ہی تھی جو آج مسلمان خواتین کی تنظیم پیش کر رہی ہے۔ آل انڈیا مسلم لیڈیز کانفرنس خواتین کی پہلی ایسی تنظیم تھی جس نے زبانی طور پر تین طلاق کے خلاف مہم کا آغاز کیا اور طلاق کے معاملے میں قرآن کریم کے مطابق درست قوانین وضع کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے ایک مثالی نکاح نامہ تیار کیا تھا جس میں طلاق کے قواعد کا تعین کیا گیا تھا۔ جس کے مطابق مرد کو اپنی بیویوں کو طلاق دینے کے لئے ایک معقول سبب مہیا کرانا ہوتا تھا۔ طلاق ہو جانے کی صورت میں گزر بسر کے اخراجات کی فراہمی کے لئے قوانین پیش کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نکاح نامہ نے عورتوں کو ہونے والے شوہر سے شرائط و ضوابط کی تعمیل کروانے کے لئے لامحدود اختیارات دئے ہیں اور نکاح صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب شوہر تحریری طور پر یہ تسلیم کرے کہ وہ ان مطالبات کو پورا کرے گا۔ اس مثالی نکاح نامہ میں ایک شق یہ تھی کہ اگر شوہر بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کر لیتا ہے ، تو پھر اس کا پہلا نکاح از خود فسخ ہوجائے گی۔ گویا کہ اس مثالی نکاح نامہ میں ایسے ایسے شرائط شامل کئے گئے تھے جن کی بنیاد پر تعدد ازدواج کا عمل مشکل اور مسلم خاندانوں تک محدود ہوتا تھا۔ مسلمز لیڈیز کانفرنس کی پہنچ بہت ہی محدود تھی اس لئے کہ یہ بھوپال اور حیدرآباد کے تعلیم یافتہ اور اشرافیہ حلقوں یا 'روشن خیال' مسلم طبقے تک ہی تک محدود تھا۔ کبھی بھی بڑے پیمانے پر اس کا رجحان پیدا نہیں ہوا۔ اور اس کے بعد اس ملک کی تقسیم نے اس تحریک کو ختم کر دیا کیونکہ اس مہم کے زیادہ تر کارکنان فوراً پاکستانی شہری ہو گئے اور ہندوستانی مسلم خواتین کے لئے کوئی قیادت نہیں بچی۔

بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن جیسی تنظیموں نے مسلم اصلاحات کی اتنی پرانی روایت پر کام کیا لیکن بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن کی بدولت ہمیں یہ ضرور کہنا چاہئے کہ پہلی دفعہ اس نے پرسنل لاء میں اصلاحات کے معاملے کو مسلمانوں کے درمیان اتنے بڑے پیمانے پر پیش کیا ہے۔ لہٰذ، سپریم کورٹ نے فوری طور پر تین طلاق کو غیر آئینی قرار دیکر لاکھوں مسلم خواتین کے مطالبات کا جواب ہے۔ شاید پہلی بار ہمارے پاس مسلم خواتین کے درمیان ایک ایسی غیر جانب دار تنظیم موجود ہے جو اس ملک کے شہری ہونے کی بنیاد پر تبدیلی پیدا کرنے اور اپنے مطالبات رکھنے کے لئے پرعزم ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کا سفر فوری طور پر تین طلاق کے فیصلے پر ختم ہو چکا ہے یا یہ مہم ان بے شمار مہمات میں سے صرف ایک ہے جنہیں خواتین کی یہ تنظیم شروع کرنے والی ہے۔ مسلم مہیلا آندولن جیسی تنظیمیں پہلے ہی یہ اعلان کر چکی ہیں کہ وہ اگلے مرحلے میں اس ملک کے اندر مسلم پرسنل لاء میں انصاف پر مبنی ایک جامع صنفی قانون کے لئے مہم کا آغاز کریں گی۔ شاید وہ اسے ایک فتح قرار دینے میں حق بجانب ہیں لیکن یہ ایک بہت چھوٹی جیت ہے۔

وہ حق بجانب ہیں کہ اس ملک میں طلاق کے اس نظام کو ختم کرنے میں ستر سال گزر گئے جو واضح طور پر عورتوں کے خلاف تھا اور جو آج ان کی مفلسی اور بدحالی کی وجہ بھی ہے۔ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ صرف ایک نشست میں تین طلاق کے عمل کو ہی غیر قانونی قرار دیا گیا ہے ، یکطرفہ طور پر طلاق کے عمل کو نہیں جو کہ آج بھی مسلمانوں کے درمیان مروج ہے۔ طلاق کے عمل میں مسلم مردوں کو اب بھی یکطرفہ طور پر طلاق دینے کا حق حاصل ہے جسے صنفی اعتبار سے اور بھی انصاف پسند بنانا ضروری ہے۔ اسی طرح تعدد ازدواج کو بھی غیر قانونی بنانے کے لئے مہم شروع ہونی چاہئے کیونکہ یہ آج کے دور میں ایک حقارت آمیز عمل ہے۔ کیا بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن اور ایسی دیگر تنظیمیں اس چیلنج کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوں گی ، یہ تو صرف وقت ہی بتائے گا۔ لیکن ان کے عزم اور حوصلہ کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ وہ صرف اسی جیت پر قناعت کر جائیں گی۔

یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے باوجود مسلمانوں کے اندر ایسے طبقات موجود ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ یہ ان کے مذہب کو بدنام کرنے کی سازش ہے اور وہ مسلم پرسنل لاء کو الہی قانون کے ساتھ خلط ملط کر دیتے ہیں۔ جمعیت علماء ہند کے اس بیان سے کہ "ہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی پیروی نہیں کریں گے" صرف یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہندوستانی عدلیہ پر کتنا بھروسہ رکھتے ہیں۔ ان کے لئے اور مذہبی بنیاد پرستوں کی اکثریت کے لئے یہ معاملہ بہت آسان ہے: اگر عدالت کا فیصلہ ان کے حق میں ہوتا ہے تو وہ اس کا استقبال کرتے ہیں، لیکن اگر فیصلہ ان کے خلاف ہو تو عدلیہ "خفیہ مفادات" کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن جاتی ہے۔ مدنی جیسے لوگ مسلم برادری کے لئے ذلت و رسوائی کا باعث ہیں اور انہیں جیسے لوگ ہندو انتہاء پسند کے ہاتھوں امت مسلمہ کو ہدف بنائے جانے کے ذمہ دار ہیں جو برملا دنیا کو یہ باور کراتے ہیں کہ مسلمان اس ملک اور اس کے عدلیہ پر یقین نہیں رکھتے۔ بدقسمتی سے مدنی جیسے لوگوں نے مسلم کمیونٹی کے اندر عدم توازن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ فیصلے کے بعد آنے والی خبروں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ درخواست دہندگان کو اور فوری طور پر تین طلاق کے خلاف مہم چلانے والوں کو اپنے خاندان اور برادری کے اندر بڑے پیمانے پر سماجی بائی کاٹ کا سامنا ہے۔ اس سے ہمیں امت مسلمہ کی قابل افسوس صورت حال کا اندازہ ہوتا ہے جو ایسا لگتا ہے کہ دائمی طور پر پسماندگی کی حالت میں رہنا چاہتی ہے اور مسلمان ایک ایسی کمیونٹی کے افراد ہونے پر مطمئن ہیں کہ جس پر صنفی انصاف کے معاملات میں گھرے ہوئے ہونے کا الزام ہے۔

اس جد و جہد کا اس وقت تک جاری رہنا ضروری ہے جب تک آل انڈیا مسلم پرسنل لاء جیسی تنظیمیں مسلم سوسائٹی کے اندر بے وقعت نہیں     ہو جاتیں۔ درست افکار و نظریات کے حامل مسلم مردوں اور عورتوں کو یہ لڑائی جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اس جد و جہد میں بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن جیسی خواتین کی تنظیموں کو پیش پیش رہنا ضروری ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ بہت سے ترقی پسند مسلم مردوں نے بھی بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن کی حمایت کی ہے لیکن ان کی کوششیں ان تحریکوں کی حمایت تک ہی محدود ہونی چاہئے انہیں اس تحریک کے رہنما بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ آخری مگر اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان سماجی اصلاحات کے معاملے پر جمہوریت پسند اور لبرل لوگوں کی خاموشی حیران کرنے والی ہے۔ کم از کم انہیں بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن جیسی تنظیموں کی حمایت میں کھل کر آنا چاہیے تھا۔ ان کی خاموش مزاجی اس بات کی ایک واضح علامت ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ان کے خیالات مکمل طور پر مبہم اور غیر واضح ہیں۔ ہندوستانی شہری کی حیثیت سے مسلم خواتین نے خاموشی سے ایک ساتھ مل کر اپنے انصاف کے حصول کی طرف پیش قدمی کی ہے۔ زن بیزاری پر مبنی اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر مردوں کے استحاق کے متعدد قلعوں کی مسماری میں تین طلاق کا معاملہ صرف ایک پڑاؤ ہے۔

URL: https://newageislam.com/islam-women-feminism/instant-triple-talaq-judgment-after/d/112358

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/instant-triple-talaq-judgment-after/d/112472


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..