New Age Islam
Fri Mar 24 2023, 07:13 PM

Urdu Section ( 15 Oct 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Hyderabad Sex Slavery حیدرآباد جنسی غلامی کا معاملہ: اسلام کب تک ایسی شادیوں کی اجازت دیتا رہے گا؟

ارشد عالم، نیو ایج اسلام

28 ستمبر 2017

حالیہ دنوں میں ایک میڈیا گروپ کی جانب سے کی گئی تفتیش ہندوستانی مسلمانوں کے لئے شرمندگی کا باعث ہونی چاہئے۔ عربی مرد نوجوان اور یہاں تک کہ قانونی طور پر کم عمر ہندوستانی مسلم دلہن کی تلاش میں حیدرآباد آتے ہیں۔ مقامی عوام کی بدولت اس معاملے کو مقامی پولیس کے سامنے لایا گیا اور آج وہ عرب مرد پولیس کی سخت تفتیش کا سامنا کر رہے ہیں۔ واضح طور پر یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔ کئی دہائیوں سے اس کا سلسلہ چل رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج اس مسئلے پر میڈیا کی توجہ بڑھ گئی ہے اور ان میں سے کچھ نفرت انگیز معاملات منظر عام پر آئے جن کی وجہ سے یہ معاملہ بحث کا موضوع بن گیا۔ اس معاملے کا اہم پہلو یہ ہے اس منظر کے پیچھے کام کرنے والے مردوں اور عورتوں کا ایک نیٹ ورک ہے جو اس طرح کی شادیوں کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ ایسے مردوں اور عورتوں کی حمایت کے بغیر یہ 'تجارت' کامیاب نہیں ہوگی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ زیادہ تر معاملات میں ایسے مرد کم عمر لڑکیوں کے قریبی رشتہ دار ہی ہوتے ہیں۔ چونکہ اس معاملے میں پورا مسلم معاشرہ خاموش ہے لہٰذا ، یہ واقعی ایک سماجی مسئلہ ہے۔ پولیس نگرانی کے علاوہ، مسلم معاشرے میں خود شادی کے پورے معاملے پر بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے۔

لیکن اس طرح کے ایک عمر دراز شخص کو ہندوستان آنے اور ایک دلہن تلاش کرنے کا محرک کیا ہے۔ جدید اصطلاح میں، کم عمر لڑکیوں کے ساتھ جنسی عمل میں ملوث ہونے کی خواہش کو [pedophilia] پیڈوفیلیا کہا جاتا ہے۔ یہ ایک دور جدید کا جرم ہے جس میں نہ صرف عرب شیخ بلکہ بے شمار معاشرے کے لوگ بھی اس میں شامل ہیں۔مغربی معاشرے سے تعلق رکھنے والے لوگ مختلف خیراتی نیٹ ورکوں کے ذریعہ اس کار ممنوعہ میں مشغول ہوتے ہیں جن کے لئے وہ یاتو کام کرتے ہیں یا تھائی لینڈ اور دیگر ممالک جیسے مقامات پر جنسی سیاحت کے ذریعہ اس کام ملوث ہوتے ہیں۔ لہذا اس قسم کی خواہش ایک عالمی مسئلہ معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جب ہم مغربی دنیا اور عرب مسلم ممالک میں اس طرح کے کاموں کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ان دونوں کے درمیان بنیادی فرق معلوم ہوتا ہے۔ اور اس بنیادی فرق کا تعلق اس مسئلے کے باب میں دنیا کے ان دو حصوں کے مختلف ردعمل کے ساتھ ہے۔ مغربی ممالک نے اس طرح کی خواہشات کی تکمیل کو اگر چہ غیر قانونی قرار دیا ہے لیکن عرب دنیا اب بھی یہی مانتی ہے کہ یہ ایک عام بات ہے۔ نہ صرف قانونی فریم ورک، بلکہ دونوں معاشرے اس مسئلے کے متعلق مختلف نظریہ رکھتے ہیں اور اس کے متعلق ان کا ردعمل بھی مختلف ہے۔ اگر چہ مغربی معاشرے نے طویل عرصہ پہلے ہی اسے ناجائز قرار دیا ہے لیکن مسلم ممالک میں اب بھی مذہب بنیادوں پر اس عمل کو سماجی سطح پر مقبولیت حاصل ہے۔ اور یہی ان دونوں تناظر کے درمیان سب سے بڑا فرق ہے۔

مختلف مسلم شخصیات جو ٹیلی ویژن پر یہ بیانات دیتے ہیں کہ یہ عمل غیر اسلامی ہے اور لوگ اس طرح کے عمل میں حقیر نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے ملوث ہوتے ہیں –ان کی یہ باتیں اطمینان بخش نہیں ہیں۔ اخر کار پوری دنیا میں شادی کو ہی جنسی خواہشات کی تکمیل کا ایک جائز ذریعہ مانا جاتا ہے۔ تو اس میں غلط ہی کیا ہے اگر مسلم مرد ایسی شادیاں رچاتے ہیں؟ لہٰذا، مسئلہ ہوس کا نہیں ہے جس کا تعلق بہت ہی عام انسانی جذبات سے ہے ، بلکہ مسئلہ اختیار کیے گئے طریقہ کار کا ہے۔

ایسی شادی کا اہم اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اکثر معاملات میں ایسی شادیوں کی وجہ انتہائی غربت کی حالت ہوتی ہے۔ ایک خاندان کے لئے جو کہ غربت کی چکی میں پس رہا ہو ، جس کے پاس خود کا پیٹ بھرنے کے لئے روٹی بھی نہ ہو اور جس خاندان میں بچیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہو اس کے لئے اس طرح کی شادی کا منصوبہ توجہ کا باعث ہوتا ہے۔ کم از کم ان کے اوپر سے اس بچی کو کھانا کھلانے کا بوجھ کم ہو جاتا ہے کیونکہ وہ لڑکی کسی اور کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ غربت کے خدشات کی وجہ سے بے شمار نکاح کئے جاتے ہیں اور یہ ہر معاشرے میں ہوتا ہے۔ غربت کی وجہ سے نہ ہی خاندان کے پاس اور نہ ہی اس طرح کی شادیوں میں شامل ہونے والے افراد کے پاس کوئی حقیقی راستہ بچتا ہے۔

لیکن جب مسلم معاشرے کی بات آتی ہے تو ان میں ایک اور پہلو ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اس طرح کی شادیوں کو خود مذہبی بنیاد پر جائز اور مقبول مانا جاتا ہے۔ آخر کار مسلم تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے جن میں بڑی عمر کے مردوں نے چھوٹی عمر کی لڑکیوں کے ساتھ شادیاں کی ہیں۔ سدّیگ بارمیک کی ہدایتکاری میں بنائی گئی ایک بہترین افغانی فلم اسامہ میں یہ دکھایا گیا ہے کہ گاؤں کا ایک بزرگ مولوی ایک نوجوان یتیم بچی کے ساتھ ہمدردی جتاتا ہے اور اس کے ساتھ شادی کر لیتا ہے۔ غیر معمولی حساسیت کے ساتھ بنائی گئی اس فلم میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس مولوی کے دماغ میں بنیادی مقصد اس کا ہوس نہیں بلکہ یتیموں کی دیکھ بھال کرنا تھا جسے وہ اپنا مذہبی فریضہ سمجھتا تھا۔ اپنے مذہبی فریضہ کے طور پر اسے اس چھوٹی سی لڑکی کے ساتھ اس عقد نکاح کو مکمل بھی کرنا ہوتا ہے جو وہ بالآخر کرتا ہی ہے۔ لہٰذا، اس صورت میں تقوی کو ہوس سے ممتاز کیسے کیا جائے؟ اگر چہ ہم اس گاؤں کے مولوی کے اس عمل ہوس قرار دیکر اس کی مذمت کر سکتے ہیں ، لیکن یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے۔ بجا طور پر یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ ایک مسلم کی حیثیت سے وہ اپنے مذہبی فرض کو انجام دے رہا تھا۔ نہ صرف وہ شخص ، بلکہ اپنی پوری تاریخ میں دیگر مسلمانوں نے بھی جواب میں بالکل یہی مذہبی فریضہ پیش کیا ہے۔

لیکن ہم اسلام کی ان عظیم شخصیات کی مذمت نہیں کرتے ہیں جنہوں نے ایسی شادیاں کی ہیں۔ یہ دوہرا معیار کیوں ؟ اہم بات یہ ہے کہ اسلام کے اندر اس طرح کی شادیوں کو منظوری حاصل ہے اور اب وہ وقت آ چکا ہے کہ اس کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ اس لئے کہ اسلام کے اندر لڑکیوں کے لئے شادی کی عمر سن بلوغت کے بعد ہی طئے کر دی گئی ہے-جبکہ یہ ایک ایسا دور ہوتا ہے جب ذہنی عضلات کی نہ تو مکمل طور پر تکمیل ہوئی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی لڑکی جذباتی طور پر اس قسم کا کوئی رشتہ قائم کرنے کے لئے تیار ہوتی ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ بعض ممالک نے اپنے شادی کے قوانین میں اصلاحات کئے ہیں اور مسلم لڑکیوں کی رضامندی کی عمر میں اضافہ ہوا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی فقہ کے اندر یہ عمل اب بھی جائز ہے۔ لڑکیوں کے لئے رضامندی کی عمر بڑھانے کے بارے میں اس ملک کے اندر مسلم حلقوں کی جانب سے کافی مطالبات کئے گئے ہیں۔

بڑے پیمانے پر اس بے اطمینانی کا تعلق اسلام میں ایک کم عمر لڑکی کے ساتھ شادی کے جوازکے ساتھ ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اتنی کم لڑکیوں کو ایسا تعلق قائم کرنے کا کوئی حقیقی باشعور اختیار نہیں ہوتا ہے ، اور جب تک اسلام اس بات کو قبول نہیں کرتا کہ اس طرح کا باشعور انتخاب ضروری ہے، یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ، اور تب تک عمر دراز مرد کم عمر لڑکیوں سے شادی کرتے رہیں گے ، اللہ کا شکر ادا کرتے رہیں گے اور انہیں اس پر کوئی ندامت بھی نہی ہوگی۔ ایسے جنسی تعلقات کو لازمی طور پر جنسی غلامی سمجھا جانا چاہئے۔ اب مسلمانوں کے لئے وہ وقت آچکا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی رشتہ ازدواج کو مذہبی طور پر جرم قرار دئیے جانے کا مطالبہ کریں۔

URL for English article: https://newageislam.com/islam-women-feminism/hyderabad-sex-slavery-till-when/d/112692

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/hyderabad-sex-slavery-/d/112890


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..