ارشد عالم، نیو ایج اسلام
6 مئی 2022
انہیں مذہب کی تبدیلی اور
ذات پرستی پر مخلصانہ بات چیت شروع کرنی چاہیے۔
اہم نکات:
1. حیدرآباد میں مسلم
خاندان کے ہاتھوں دلت ناگاراجو کے قتل میں مذہب اور ذات پات دونوں کا کردار ہے
2. مسلمانوں نے ہمیشہ
اپنی برادریوں میں ذات پات سے انکار کیا ہے حالآنکہ ہمیشہ اس کا ثبوت موجود رہا ہے
3. وہ شادی کے وقت
دوسرے فریق کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور اسلامی بالادستی کا مظاہرہ
کرتے ہیں
4. تبدیلئ مذہب پر
اصرار بند ہونا چاہیے؛ ذات پرستی کی موجودگی کو تسلیم کرنا چاہیے
-----
ناگاراجو اور فاطمہ نے
اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی۔
------
حیدرآباد میں بی ناگاراجو
کا بہیمانہ قتل ایک بار پھر بین المذاہب جوڑوں کی درد بھری زندگی کو اجاگر کرتا
ہے۔ ناگاراجو، ایک دلت ہندو اور عشرین سلطانہ، ایک سید مسلم، نے حال ہی میں لڑکی
کے گھر والوں کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی۔ یہ رشتہ عشرین کے بھائیوں کو ہضم نہیں
ہوا اور انھوں نے ناگاراجو کو سرعام موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ناگاراجو کو کئی بار
چاقو کے وار سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جبکہ تماشائیوں نے اس لرزہ خیز واقعے کی
ویڈیو بنائی۔ اپنے شوہر کی اس کربناک موت کا مشاہدہ کرنے کے بعد عشرین پریس کے
سامنے واقعہ بیان کرتے ہوئے کئی بار ہوش کھو بیٹھی۔
یہ مذہب اور ذات پات
دونوں کا معاملہ ہے۔ ایسے مسلمان بھی ہیں جو اپنے معاشرے میں ہمیشہ ذات پات سے
انکار کرتے ہیں اور اسے محض ایک ہندو مسلم معاملہ کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
لیکن دیر سے ہی سہی، اب مسلمانوں میں ایک ایسا گروہ بھی ہے جو ذات پات کو ہر چیز
پر فوقیت دیتا ہے اور وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ بنیادی طور پر ذات پات کا مسئلہ ہے۔
کہ ناگاراجو کو محض اس لیے مار دیا گیا کیوں کہ وہ دلت تھا۔ ایک کو دوسرے پر فوقیت
دینا غلط ہے۔ مذہب اور ذات پات اس قدر جڑے ہوئے ہیں کہ اکثر ایک کو دوسرے سے الگ
کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
یہ واقعہ اس حقیقت کی
نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمانوں کے ایک طبقے کو بین المذاہب شادیوں سے اتنی ہی
پریشانی ہے جتنا کہ ہندوؤں کے ایک طبقے کو۔ لیکن ہو سکتا ہے یہ مسئلہ مسلم معاشرے
کے اندر شدید گہرا ہو کیونکہ مسلمانوں میں ان چیزوں پر اتنی کھل کر بات نہیں کی
جاتی جتنی کہ ہندو سماج میں کی جاتی ہے۔ جس طرح ہندو پسند نہیں کریں گے کہ ان کے
بچے اپنی کمیونٹی سے باہر شادی کریں، اسی طرح مسلمان بھی اس عمل کے مکمل طور پر
مخالف ہیں۔ اس لیے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ کچھ مسلمان اتر پردیش کے وزیر
اعلیٰ کی حمایت میں اس وقت سامنے آئے جب انہوں نے ایک ایسا قانون پیش کیا جس سے
بین المذاہب جوڑوں کو شادی کرنا کافی دشوار ہو گیا۔
درحقیقت، شادی سے پہلے
مسلمانوں کا لڑکے یا لڑکی کو اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرنا بین المذاہب
اتحاد کا مذاق اڑانا ہے۔ جب ایک فریق کو شادی کرنے کے لیے مذہب تبدیل کرنا لازم ہو
جائے تو پھر بین المذاہب کے نام پر بچتا ہی کیا ہے؟ مسلمان اس چیز کو نہیں چھوڑ
سکتے کیونکہ ان کے اسلام میں مذہب کی تبدیلی ضروری ہے۔ اگر لوگ واقعی ایک دوسرے سے
محبت کی بنیاد پر شادی کر رہے ہیں تو کا کیا فائدہ؟ جب تک مسلمان مذہب کی تبدیلی
پر اصرار کرتے رہیں گے، ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان لڑکوں اور لڑکیوں کا صحیح
معنوں میں تبادلہ نہیں ہو سکتا۔ ہندو ہمیشہ یہ محسوس کریں گے کہ ان کی تعداد کم ہو
رہی ہے اور مسلمانوں کو بھی قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ شادی کے بارے
اسلام کا نظریاتی موقف یہ ہے کہ تبدیلی کے بغیر شادی ہو ہی نہیں سکتی۔
سید عشرین سلطانہ نے اپنے
حملہ آوروں کا بہادری سے مقابلہ کیا، بدھ کی شام کو کیمرے میں قید کھلے عام قتل کا
ایک خوفناک منظر۔
---
جب عورت ان کے مذہب کو
قبول کر لیتی ہے تو مسلمانوں یا ہندوؤں کو بین المذاہب شادیوں سے اتنی پریشانی
نہیں ہوتی ہے۔ اس معاملے میں، عشرین نے ایک ہندو لڑکے سے شادی کر کے برادری سے
باہر نکل گئی جس پر تشدد ہونا تو بالکل ایک طے شدہ امر تھا۔ دین کی اس تفہیم کے
مطابق خواتین صرف پتھر کی ایک مورت ہیں جن کی اپنی کوئی نہ تو سوجھ بوجھ ہے اور نہ
ہی کوئی اختیار۔ اسے ہمیشہ یہ بتایا جاتا ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں اور ہر
وقت نگرانی کی جاتی ہے، خاص طور پر اپنا شریک حیات منتخب کرنے کے معاملے میں اکثر
ان کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ مسلمان جو فخر کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ اسلام
میں خواتین کو بہت زیادہ آزادی حاصل ہے وہ ہمیں یہ تبائیں کہ کیوں عشرین اپنی
زندگی کا فیصلہ کرنے میں آزاد نہیں تھیں۔
عشرین نے پریس کو بتایا
کہ ناگاراجو نے اسلام قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی تھی پھر بھی اسے مار دیا
گیا۔ اس لیے قتل کی وضاحت اس معنیٰ میں بھی کی جا سکتی ہے کہ ناگاراجو ایک دلت تھا
جس کا مذہب تبدیل کرنا بھی اس اعلیٰ ذات کے مسلم خاندان کے لیے ناقابل قبول تھا۔
دلت سابق اچھوت ہیں، جو کہ ایک بہت ہی محنت کش کمیونٹی ہے، جن میں سے کچھ صدیوں کے
ذات پات کے جبر اور امتیازی سلوک کے بعد کھڑے ہونے کے قابل ہو سکے ہیں۔ ان کی ترقی
مروجہ سماجی درجہ بندی کو توڑ دیتی ہے اور جو لوگ اس صورتحال کو برقرار رکھنا
چاہتے ہیں وہ اپنی پوزیشن اور استحقاق کو برقرار رکھنے کے لیے پرتشدد ردعمل کا
اظہار کرتے ہیں۔ کچھ یہی معاملہ ہریانہ اور پنجاب جیسی جگہوں کا بھی ہے جہاں ترقی
پذیر دلت لڑکے غالب جاٹ برادری کی لڑکیوں کے ساتھ تعلقات استوار کر رہے تھے۔ اس
طرح کے بہت سے معاملات میں نتائج ایسے ہی بھیانک اور دلخراش تھے۔ ایسا ہی کچھ
حیدرآباد کے واقعے میں بھی ہے جہاں سید، سراسر تشدد کے ذریعے صورتحال کو برقرار
رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عشرین کے بھائی کا بےحس چہرہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس نے
ناگاراجو کو فرض سمجھ کر قتل کیا تھا: نچلی ذات کی طرف سے کسی بھی خلاف ورزی کی
سزا اسی انداز میں ملنی تھی
ہمیں پراٹیلوما (ناقابل
قبول شادی) کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے جو کہ اس معاملے میں کارفرماہے۔ روایتی ہندو
سماجی نظام میں نچلی ذات کی لڑکی سے شادی کرنا پدرسری نظام کی ایک قابل قبول شکل
ہے لیکن اس کے برعکس ممکن نہیں۔ مرد اپنی ذات سے اونچی ذات کی لڑکی سے شادی نہیں
کر سکتا۔ اسی طرح کے جذبات مسلم معاشرے میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ناگاراجو کو صرف اس
لیے نہیں مارا گیا کہ وہ ایک دلت تھا بلکہ اس لیے بھی کہ دلت ہونے کے باوجود اس نے
اونچی ذات کی لڑکی سے شادی کرنے کی ہمت کی
دستاویزی ثبوت کے باوجود
مسلمان اپنی برادریوں میں ذات پات کو تسلیم کرنے گریز کرتے ہیں۔ ان کا بس یہی کہنا
ہوتا ہے کہ اسلام ذات پات یا طبقے کی تفریق کے بغیر ایک مساوات کا مذہب ہے۔ وہ یہ
بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے اندر جو بھی ذات پرستی پائی جاتی ہے وہ ہندو سماج کے
ساتھ ’آلودگی‘ کا نتیجہ ہے۔ جبکہ اسلام کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
اسلام کی ہندوستان آمد سے بہت پہلے، اس میں ایک پیچیدہ طبقاتی نظام تیار ہو چکا
تھا۔ ہندوستان آنے والے ترک اور وسطی ایشیائی مسلمان درجہ بندی کے اصول کے ساتھ
یہاں آئے تھے، جس کے مطابق غیر ملکی نسل کے مسلمان ہمیشہ دوسرے مسلمانوں سے برتر ہوتے
ہیں، ہندوؤں کی تو بات ہی چھوڑیں۔ مسعود عالم فلاحی جیسے علماء نے واضح طور پر یہ
ثابت کیا ہے کہ اس طرح کے تصورات ہندوستانی اسلامی فقہ کا حصہ کیسے بن گئے۔ ہمیں
یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ درجہ بندی اسلام میں اسی لمحے سرایت کر گئی جب یہ کہا گیا
کہ صرف ایک قریشی ہی برادری کا رہنما بن سکتا ہے۔ یہ اس وقت ہوا جب پیغمبر اسلام
ﷺکی تدفین بھی نہیں ہوئی تھی۔
ناگاراجو کا قتل تمام
مسلمانوں کے لیے ایک تلخ یاد دہانی ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کریں۔ سب
سے پہلے انہیں اپنے معاشرے میں ذات پات کی لعنت کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ امبیڈکر کا
یہ مشاہدہ درست تھا کہ مسلمانوں میں ہندو سماج کی تمام برائیاں ہیں اور کچھ مزید
بھی۔ اور یہ کچھ مزید وہ سختی ہے جو اسلامی فقہ سے پیدا ہوتی ہے۔ جب دو لوگ صرف
ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو مذہب تبدیل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
تمام مکاتب فکر کے
مسلمانوں نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ تاہم، اس قسم کی مذمت کا کوئی فائدہ
نہیں ہے اگر اس بات کا جائزہ نہ لیا جائے کہ آخر یہ واقعہ پیش ہی کیوں آیا۔ اول،
مسلمانوں کو غور و فکر کرنا ہوگا اور اپنے اس بالادستی کے تصور سے باہر آنا ہوگا
کہ صرف ان کا مذہب ہی حتمی سچائی ہے اور باقی سب غلط یا گمراہ ہیں۔ اگر وہ اسلام
کا بہترین چہرہ پیش کرنے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو پھر انہیں مذہب کی تبدیلی پر
اصرار کو فوراً ترک کر دینا چاہیے۔ دوم، انہیں اپنے درمیان ذات پات اور اچھوت پر
مخلصانہ بات چیت شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
-----
English
Article: Hyderabad Inter-Faith Killing: Why Muslim
Condemnation is Not Enough
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism